نجیب کہاں ہے - سال گزرا مگر سوال نہ بدلا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-10-13

نجیب کہاں ہے - سال گزرا مگر سوال نہ بدلا

najeeb jnu
نجیب کی لڑائی صرف اکیلے نجیب کی لڑائی نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستان کے سیکولر تشخص اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی لڑائی ہے جس میں شامل ہونا ہم سب کا فرض ہے۔

نجیب کہاں ہے؟ اس سوال کاجواب نجیب کی ماں فاطمہ نفیس پچھلے ایک سال سے تلاش کرتی پھر رہی ہیں۔ سال گزر گیا، مگر ان کے سوال کا نہ تو جواب ہی ملا اور نہ ہی ان کے حالات بدلے ۔
سال گزشتہ 14/اکتوبر کی رات کو بھگوا نظریے سے وابستہ کئی طلباء نے نجیب کی پٹائی کی تھی ۔ پٹائی اتنی شدید کی تھی کہ نجیب کی ناک اور کان سے خون نکل آیا تھا ۔ نجیب کو جے این یو میں داخلہ لیے ہوئے ابھی چند مہینے ہی گزرے تھے کہ یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ حملہ آوروں نے نجیب کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا کہ اس نے کچھ ہندو لڑکوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا تھا جب کہ اس کا صحیح جواب صرف اور صرف نجیب ہی دے سکتا تھا ۔ اگلے ہی دن نجیب اپنے ہاسٹل سے ایسا غائب ہوا کہ آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے ۔
مگر سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سانحہ 'جے این یو' جیسے عالمی پیمانے پر شہرت یافتہ ادارہ میں پیش آیا ۔ جے این یو انتظامیہ نے اپنے تعصب اور بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آوروں کے خلاف ابھی تک کوئی بھی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے ۔ انتظامیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ اس نے نجیب کو ہی اس پورے معاملے میں قصوروار ٹھہرایا۔ جس کے خلاف جے این یو طلبا نے انتظامیہ اور وائس چانسلر کے آفس کا محاصرہ بھی کیا تھا ۔ یہ محاصرہ تقریبا 22/ گھنٹے تک چلا، مگر اس کے باوجود بھی انتظامیہ نے اپنا موقف نہیں بدلا ۔
الٹے احتجاج کرنے والے جے این طلبا یونین کے لیڈروں اور عام طلبا کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی اور ان پر جرمانے عائد کئے گئے ۔ مظاہرین میں میں بھی شامل تھا اور میرے خلاف بھی کارروائی ہوئی اور مجھے پوچھ تاچھ کے لئے پراکٹر آفس بلایا گیا۔ پوچھ تاچھ کے دوران مجھے یہ بتایا گیا کہ انتظامیہ کے پاس میرے خلاف ویڈیو موجود ہے ، لیکن جب میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس نجیب کی پٹائی کے وقت کا بھی کوئی ویڈیو ہے ؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ زیادہ سوال نہ کریں اور جو پوچھا جائے اس کا سیدھا سیدھا جواب دیں ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پورے معاملے میں جے این یو انتظامیہ کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی ہے ۔ جب سے جے این یو میں بطور وائس چانسلر جگدیش کمار آئے ہیں تب سے انکا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح حکومت اور آر ایس ایس کے ایجنڈوں کو جے این یو کے اعصاب پر لادا جائے ۔ اگر آپ غور سے دیکھیں گے تو محسوس ہوگا کہ نجیب کے خلاف جو کچھ بھی ہوا وہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا ہی نتیجہ تھا اور کیا یہ سب جے این یو انتظامیہ کی مدد کے بغیر ممکن ہوسکتا تھا؟

نجیب سانحہ کی آڑ میں جے این یو انتظامیہ نے کیمپس کے اندر سیکوریٹی کافی بڑھا دی، جس کی وجہ سے طلبا کو کافی پریشانیاں جھیلنی پڑیں۔ ہر ہاسٹل میں چیکنگ کے نا م پر سیکوریٹی گارڈ طلبا کو پریشان کرنے لگے ۔ جے این یو جس آزاد ماحول کے لئے جانا جاتا تھا اس پر پابندی عائد کی جانے لگی۔ جگہ جگہ پر عوام کے پیسے سے مہنگے کیمرے نصب کئے گئے اور بار بار پولیس کو بلا کر ہاسٹلوں میں چھاپے کروائے گئے ، مگر جو لوگ نجیب کے مبینہ حملہ آور ہیں ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی ۔
ان سب باتوں سے کیمپس کا ماحول اس حد تک کشیدہ ہوگیا کہ طلبا، بالخصوص اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ۔ کسی کو اس پر یقین نہیں ہورہا تھا کہ اس طرح کی گھناؤنی واردات جے این یو جیسے سیکولر ادارے میں بھی انجام دی جا سکتی ہیں ۔

نجیب کیس کی جانچ کر رہی سی بی آئی نے ابھی تک تازہ ایف آئی آر درج نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کے حملہ آوروں کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ نجیب کا کیس لڑ رہی وکیل پلوی نے بتایا کہ سی بی آئی نجیب کو ڈھونڈنے کے معاملے میں بالکل بھی سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ کورٹ اپنی نگرانی میں ایک ایس آئی ٹی قائم کرے جس کے تحت کام کرنے والے افسران دہلی سے باہر کے ہوں ۔ اسی طرح نجیب کی ماں بھی پولیس اور حکومت کی بے حسی اور جانبدارانہ رویے سے کافی غمگین اور بے چین ہیں۔ میری ان سے ملاقات گزشتہ جمعہ کو دہلی میں ہوئی تھی جب وہ ایمس میں اپنا علاج کروانے کی غرض سے آئی ہوئی تھیں۔ بات چیت کے دوران ان کی زبان سے الفاظ اور آنکھوں سے آنسو ایک ساتھ رواں تھے ۔
"آپ کو لگتا ہے کہ کچھ ہوا ہے ؟" نجیب کی ماں نے مجھ سے پوچھا، پھر وہ خود ہی اپنے سوال کا جواب دینے لگیں
"کچھ نہیں ہوا ہے جو بات پہلے سنی تھی وہی آج بھی سن رہی ہوں ۔ اتنی ناکارہ پولیس ہے۔۔۔۔۔۔"
کچھ دیر بعد انہوں نے وزیر خارجہ اور بی جے پی کی سینئر لیڈر سشما سوراج کا بھی ذکر کیا:
"۔۔۔ سنا ہے کہ سشما سوراج دوسرے ملکوں میں پھنسے ہندوستانیوں کو بچاتی ہیں مگر جب ملک میں ہی کوئی غائب ہوجائے تو کیوں نہیں کچھ کرتی ہیں ؟"
ان کو مایسی اس بات سے بھی ہے کہ سشما سوراج کو نجیب سے متعلق ٹویٹ بھی کرایا گیا ، مگر انہوں نے کبھی اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سشما سوراج کی خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نجیب کے مبینہ حملہ آوروں کے تار بھگوا تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب جے این یو انتظامیہ، پولیس اور بھگوا حکومت نجیب کے حملہ آوروں کو بچانے کے لئے کسی بھی طرح کے ہتھکنڈے اپنانے سے باز نہیں آئیں تو بھلا سشما سوراج ان کے خلاف کیسے جا سکتی ہیں؟

اس پورے معاملے میں جو سب سے مایوس کن اور تشویشناک بات ہے وہ یہ کہ فرقہ پرست طاقتیں نجیب کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ۔ یو۔پی اسمبلی انتخابات کے دوران ایسا ہی کچھ دیکھا گیا جس میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی مدد سے نجیب معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ۔ کئی بار اس طرح کے پروپیگنڈے پھیلائے گئے کہ نجیب دراصل بھاگ کر کسی غیر قانونی تنظیم میں شامل ہو گیا ہے ۔ کئی بار میڈیا نے یہ افواہ بھی اڑائی کہ نجیب کو یہاں دیکھا گیا تو کبھی وہاں دیکھا گیا ہے ۔
یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ملک کی اتنی بڑی پولیس اور خفیہ ایجنسی مل کر بھی ایک معصوم اور مظلوم طالب علم کو ڈھونڈ پانے میں ابھی تک ناکام رہی ہیں۔ وہیں دوسری طرف جب کوئی نوجوان دہشت گردی کے مبینہ الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے تو چند گھنٹوں کے اندر یہی پولیس اور خفیہ ایجنسی اس کے بارے میں ساری معلومات اکٹھا کر کے پریس کے سامنے حاضر ہو جاتی ہیں۔

نجیب کے بہانے دراصل بھگوا شر پسند عناصر مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں ۔ کالج ، یونیورسٹی اور بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے مسلم طلبا ان فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد یہ نوجوان اپنے ہم وطنوں کے شانہ بشانہ چل کر ملک و قوم کی خدمت میں کوئی اہم کردار ادا کر سکیں ۔
ان تمام باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ نجیب کی واپسی اور اس کے لئے انصاف کی لڑائی کو مزید تیز کیا جائے۔ نجیب سانحہ کا ایک سال پورا ہونے کے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں بہت سے مظاہرے اور دھرنے منعقد کیے جا رہے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ نجیب کی لڑائی صرف اکیلے نجیب کی لڑائی نہیں ہے ، بلکہ یہ ہندوستان کے سیکولر تشخص اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی لڑائی ہے جس میں شامل ہونا ہم سب کا فرض ہے ۔

(مضمون نگار جے این یو کے شعبہ تاریخ میں ریسرچ اسکالر ہیں)

***
Abhay Kumar
debatingissues[@]gmail.com
--

One year of missing Najeeb from JNU. - Article: Abhay Kumar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں