بنارس ہندو یونیورسٹی کا معاملہ باعث شرم اور قابل احتساب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-09-28

بنارس ہندو یونیورسٹی کا معاملہ باعث شرم اور قابل احتساب

BHU
بنارس ہندو یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا وہ قومی سطح پر باعث شرم ہے ۔ حالانکہ ملک گیر سطح پر اس واقعہ کی مذمت کی گئی تاہم دہلی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے تھے ۔ لیکن نہایت پرزور مظاہرہ بذات خود بنارس ہی میں ہوا تھا جو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا پارلیمانی حلقہ ہے ۔ 21اور22ستمبر کو دورہ کرنے کے لئے وہ اسی شہر میں موجود تھے پھر بھی انہوں نے احتجاج کرنے والی طالبات سے بات چیت کرنے سے یا اس ہنگامہ کو نظر انداز کرنے کے ارادے سے اپنا روٹ تبدیل کردیا تھا۔
بنار س ہندویونیورسٹی کی ان طالبات پر ریاستی جبر کیا گیا جو کہ جنسی تشدد سے مبرا کیمپس اور بی ایچ یو کے وائس چانسلر کی غفلت اور مجرمانہ اقدام کے خلاف احتجاج کررہی تھیں ، لیکن ان کے مطالبات کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ طالبات کس وجہ سے مشتعل ہوئیں تھیں؟ دراصل طالبات جنسی تشدد کے خلاف اور ہراساں نہ کئے جانے کے تعلق سے ایسا ماحول بنانے کا مطالبہ کررہی تھیں تاکہ یونیورسٹی کیمپس میں ان کو مساوی حقوق حاصل ہوجائیں ، لیکن طالبات کا یہ معمولی سا مطالبہ بھی پورا نہیں کیا گیا بلکہ جنسی طورپر متاثر ہونے والی طالبات کو مرد پروٹیکٹروں کے ذریعہ شرمندگی کا احساس کروایا گیا اور نشان زد ملزموں کو سزا دیے بغیر چھوڑ دیا گیا ۔ یونیورسٹی میں اس طرح کا ماوحول ہونے کی وجہ سے ہی طالبات پر امن احتجاج کرنے کے لئے مجبور ہوگئی تھیں ۔ احتجاج کرنے والی طالبات سے بات چیت کرنے اور ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے ریاستی حکومت کی شہ پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے دیر رات میں نہ صرف طالبات کو جسمانی اذیت دینے کو ترجیح دی بلکہ اگلے دن تک اس روش کو جاری رکھا تھا۔ اس دوران طالبات پر غیر قانونی طور پر، ظلم ڈھانے میں پولیس فورس بھی شامل تھی ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق یہ بھی کہاجاتا ہے کہ پولیس فورس کے آنے سے قبل وائس چانسلر اور پراکٹروں نے پرائیویٹ سیکوریٹی کے ایک گروپ کو یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دے دی تھی اور سب سے پہلے طالبات پر ظلم ڈھانے والے وہی تھے ۔ ایک طرف جہاں یہ حکومت اپنے نعرہ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ پر فخر کرتی ہے وہیں دوسری جانب مختلف حربوں سے وہ لڑکیوں اور خواتین کی بنیادی آزادی کو پامال کردینا چاہتی ہے ۔ دراصل یہی وہ حقیقت ہے جس کا بی ایچ یو کی بہادر بیٹیوں نے پر امن احتجاج کے توسط سے پردہ فاش کیا تھا۔ ہم ان طالبات کی باحوصلہ جدوجہد کو سلام کرتے ہیں اور ان کو اپنا تعاون دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ بی ایچ یومیں جو واقعہ رونما ہوا اس سے دو اہم اور بنیادی ایشوز ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ وائس چانسلروں کی تقرری کا پیمانہ کیا ہے ؟ دوسری بات شکایات، خصوصی طور پر جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی شکایات کے ازالہ کے لئے موثر نظام کا فقدان ہے ۔ عمومی طور پر وائس چانسلر کو با صلاحیت اور آزاد ہونا چاہئے ، جن کا تعلیمی شعبہ اور سماجی زندگی میں بلند وقار ہو اور جو آئینی اقدار کی پاسداری کرتے ہوں ۔ لیکن اس کے برعکس جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں ، وہ بی ایچ یو کے وائس چانسلر کے تقرری کی مانند اختیار کی جانے والی روش جو کہ بالکل واضح ہے ۔ اس طرح کے افراد نہ صرف غیر آئینی نظریات کے حامل ہیں ، بلکہ کچھ کے خلاف تو عدالتوں میں مجرمانہ معاملات زیر التوا ہیں۔ چنانچہ وائس چانسلر کی تقرری سے متعلق امو رپر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی( جے این یو) اور حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی(ایچ سی یو) کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی کا واقعہ ہماری یونیورسٹیوں کو بھگوار نگ میں رنگنے کے ایک بڑے چیلنج کی جانب دیگر سخت ترین اشارہ ہے ، جہاں پر چنندہ وائس چانسلر حکمراں طبقہ کے نظریاتی اور سیاسی ایجنڈہ کو من مانے طریقہ سے نافذ کر کے خصوصی طور پر خواتین اور سیاسی طور پر طالبات پر سخت نوعیت کی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ لائبریری کے اوقات ، کالجوں کے گیٹ قبل از وقت بند کرانا، شام کے وقت طالبات کے ذریعہ موبائل استعما ل نہ کرنے دینا، کسی سیاسی سر گرمی میں شرکت نہ کرنے کے حلف نامہ پر دستخط کرنا۔ گوشت والی تغذیہ کو ممنوعہ قرار دینا وغیرہ یہ سب بی ایچ یو کے وائس چانسلر کا موروثی نظری ہے، جس کی وجہ سے ہمارے آئین کی سائنٹفک اور سیکولر روح مجروح ہورہی ہے ۔
ایسا تصور کرنا بھی عبث ہے کہ وزیر اعظم جن کے پارلیمانی حلقہ میں یہ یونیورسٹی واقع ہے شہر میں ہونے کے باوجود نہ تو طالبات کے احتجاج سے واقف ہوں اور بنارس سے واپس جانے کے بعد طالبات پر کیے جانے والے لاٹھی چارج کے واقعہ سے بھی واقف نہ ہوں ۔ اسی لئے ان کے روٹ میں دانستہ طور پر تبدیلی کی گئی تھی تاکہ وہ بی ایچ یو کی احتجاج کرنے والی طالبات کو نظر انداز کردیں۔ طالبات کے مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ فوری طور پر غوروخوض کرنے اور کیمپس میں ان کے تحفظ کو یقینی بنانے میں یونیورسٹی کے حکام نہ صرف اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں ناکام رہے ہیں، بلکہ انہوں نے غیر مناسب پابندیاں عائد کرتے ہوئے باہری لوگوں کے ذریعہ کھیل بگاڑنے کا نام دیا اور داخلی طالبات کو شرمندہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ طالبات کے حقوق کی پامالی کرنے والوں کے خلاف سخت کارورائی کی جاتی ، کیمپس میں پولیس کو داخل ہونے کی اجازت دینے کے لئے بھی وہ واضح طور پر ذمہ دار ہیں جنہوں نے طالبات کے خلاف تقریباً ایک ہزار ایف آئی آر درج کی تھیں۔ ایسے مطالبات بھی کیے جارہے ہیں کہ اس واردات کے رونما ہونے اور غفلت برتنے کی پاداش میں بی ایچ یو کے وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی کے خلاف بھی ایک ایف آئی آر درج ہونی چاہئے اور اخلاقی و قانونی بنیاد پر انہیں فوری طور پر عہدہ سے برطرف کردینا چاہئے کیونکہ صرف انہوں نے ہی یونیورسٹی کے ماحول کو خراب ہونے دیا تھا ۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی نے اپنی حکومت کے تحت یہاں پر ہونے والے نقصان اور تساہلی کے لئے عومی طور پر سیکڑوں طالبات سے معذرت کی ہے اور تمام طالبات کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کو خارج کردیا ہے ، لیکن طالبات پر لاٹھی چارج کرنے کا حکم دینے والے سینئر پولیس افسران اور انتظامیہ کے دیگر افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے، علاوہ ازیں یہ بھی کہا ہے کہ جن طالبات کو جسمانی یا ذہنی طور پر تکلیف پہنچی ہے ان کو معاوضہ دیاجائے گا۔ ایسی صورتحال میں یونیورسٹی انتظامیہ کو طالبات کے تحفظ اور وقار کو یقینی بنانے کے لئے طالبات سے جلد از جلد بات چیت کرنی چاہئے تاکہ وہ کیمپس میں اپنی باقاعدہ تعلیم جاری رکھ سکیں ۔جب راقم الحروف گزشتہ پیر کو بنارس پہنچیں تو بنارس پولیس نے ان کا محاصرہ کر کے حراست میں لے لیا تھا ۔ اس وقت پنڈا کے ایس ڈی ایم ناگیندر ان کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ پولیس نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ بی ایچ یو جانے کے لئے یہاں آئی ہیں تو برائے کرم وہاں نہ جائیں ۔ حالانکہ وہ ان کی تشویش کو سمجھ گئی تھیں لین وہ ان سے متفق نہیں تھیں ۔ انہوں نے بار بار یہ بتایا تھا کہ راج گھاٹ میں سماج وادی جن پریشد کے یوتھ کیمپ میں شرکت کرنے کے لئے انہوں نے تقریبا ایک ماہ قبل ہی ٹکٹ بک کرایا تھا۔آخر کار ناگیندر نے انہیں جانے کے لئے پولیس کو ہدایت دے دی۔ ایک خاتون پولیس افسر کو ان کے ساتھ کار میں بیٹھنے کے لئے کہا گیا ۔ صرف ریکارڈ کی خاطر ہوائیا ڈے کا آفیسر انچارج ان سے جارحانہ طور پر پیش آیا، جس نے سیکوریٹی کے تعلق سے کوئی وضاحت نہیں کی تھی، لیکن ان کے ساتھ ایک ملزم کی مانند برتاؤ کیا گیا تھا۔ جب وہ وہاں سے روانہ ہوئیں تو کچہری دوراہے پر انہیں روک لیا گیا ۔ ایس ڈی ایم صدر سنیل ورما، سب انسپکٹر برجیندر سنگھ اور انسپکٹر نائک نے ان کی کار روک لی ، حالانکہ وہ ان کے ساتھ نہایت نرمی سے پیش آئے ، لیکن دیگر پولیس اہلکاروں نے ان کی دوست کی گاڑی کے ڈرائیو ر کو تھپڑ مارنے کی کوشش کی تھی، لیکن اسی وقت انہوں نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ ران گھاٹ ٹریننگ سیشن میں آجائیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ وہ بی ایچ یو نہیں جارہی ہیں، لیکن بغیر کسی وجہ سے ان کی آزادی کو پامال اور ٹریننگ پروگرام کو برباد نہ کریں ۔ آزاد ہونے سے قبل جیسا کہ انہوں نے درخواست کی تھی راقم الحروف نے اپنا پروگرام تحریری شکل میں ایس ڈی ایم کو سونپ دیا تھا ، اس کے بعد پلان کے مطابق ان کا پروگرام جاری رہا۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک غیر بی جے پی ریاست جہا پر اس طرح کا منظر نامہ اور صورت حال پیدا ہوجائے، کیا وہاں پر بی جے پی لیڈر وزیر اعظم نریندر مودی احٹجاج کرنے والی طالبات سے ملنا چاہیں گے ، جہا ں پر تمام راستے بند کردیے جائیں اور پورے شہر کا محاصرہ کرلیاجائے ۔ ایسی صورت حال میں جمہوریت پر ایک کاری ضرب کے مترادف ہوگی ۔ اس کے لئے ہم سب زمہ دار ہیں اور قومی میڈیا تو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ رہا ہے ۔ یہ بات قوم کے لئے باعث شرم اور ہماری کمزوری کی علامت ہے ۔ موجودہ حکومت اس بات سے اتفاق نہیں کرتی ہے کہ ایک متحرک جمہوری نظام میں مختلف تکنیکی عناصر باہمی طور پر کام کرتے ہیں، جوکہ یہاں پر دستیاب ہیں۔

BHU case accountability. Article: Teesta Setalvad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں