یادِ ماضی - آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ - شعبہ جات اور اساتذہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-09-08

یادِ ماضی - آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ - شعبہ جات اور اساتذہ

arts-college-osmania-university
آرٹس کالج میں مراٹھی اور انگریزی شعبے دوسری منزل پر تھے جبکہ فارسی، ہندی اور عربی کے شعبے پہلی منزل پر تھے۔ اردو شعبے کی بغل میں ہندی شعبہ تھا۔ یہاں چار اساتذہ تھے، ایک بڑے پانڈے جی اور دوسرے چھوٹے پانڈے جی، محترمہ گیان آستھانہ اور کھنڈیلوال صاحب۔
بڑے پانڈے جی کو صوفی اور سنتوں کے ادب سے پیار تھا۔ اسی زمانے میں سالار جنگ کے کتب خانے کو آرٹس کالج کے سیلر [cellar] میں، جہاں اگزیبیشن برانچ تھی ، لا کر رکھ دیا گیا تھا، دوسرے معنوں میں کتب پھینک دی گئی تھیں۔ اس پر بڑے پانڈے جی کو بہت دکھ ہوا تھا، انہوں نے بہت محنت کی اور ان کتابوں کو عثمانیہ یونیورسٹی کی لائیبریری میں پہنچایا۔ پھر اسی دور میں ان کی نظر ملک محمد جائسی کی ایک کتاب "چتر ریکھا" پر پڑی۔ ملک محمد جائسی صوفی منش شاعر تھے، اپنی کتابیں فارسی رسم الخط میں لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی مشہور کتاب "پدماوت" بھی فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔
بڑے پانڈے جی نے 'چتر ریکھا' کو بڑے اہتمام سے ہندی میں چھاپا۔ بڑے پانڈے جی شیروانی، سفید دھوتی اور شیروانی کے کپڑے سے بنی گاندھی ٹوپی پہنتے تھے۔ کبھی کبھی صدری اور کرتے میں بھی ملبوس ہوا کرتے تھے۔ پیشانی پر لال ٹیکہ بھی لگاتے تھے، بہت تیز چلتے تھے، پمپ شو پہنا کرتے تھے۔
بڑے اور چھوٹے پانڈے جی دونوں تلسی داس کے عاشق تھے۔ ہندی کے طلبا ان کی کلاس میں تلسی بانی کے لیے ہی آیا کرتے تھے۔ وظیفے کے بعد بڑے پانڈے جی نے ایک انسٹی ٹیوٹ بھی یونیورسٹی کے احاطے میں قائم کیا تھا۔ یہاں پر اب بھی تلسی داس پر چھوٹے موٹے سمینار ہوا کرتے ہیں۔
چھوٹے پانڈے جی بھی صدری کرتا، دھوتی پہنتے اور کبھی کبھی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ بڑی ملائم گفتگو کرتے تھے۔ اس شعبے میں ڈاکٹر گیان استھانہ تھیں، بونا سا قد اور چشمہ لگاتی تھیں۔ بڑی ہی پیاری پیاری اور میٹھی میٹھی بولی بولتی تھیں، اور لوگ انہیں دیکھتے ہی کہتے تھے کہ کائستھ ہیں۔
ہندی کے لکھنے والوں میں جے پرشاد تھے، جن کو لوگ چھایاوادی کہتے تھے۔ ان کی پڑھائی کے وقت میں بھی ان کی کلاس میں بیٹھ جایا کرتی تھی۔
کھنڈیلوال جی بڑی ہی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ پاجامہ، کرتا اور صدری پہنا کرتے تھے۔ پتا نہیں کیوں اپنی نظریں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے۔
یہ چاروں اساتذہ دوسری یونیورسٹیوں سے آئے تھے مگر کئی عثمانین انہوں نے تیار کیے۔
اس کے بعد ہی شعبہ لنگوئسٹک تھا، جس کے صدر کرشنا مورتی صاحب تھے جن کا بیشتر وقت شعبہ اردو میں گزرتا۔ کبھی کبھی ان کی بات چیت سننے سے ہی کچھ نہ کچھ علم حاصل ہو جایا کرتا تھا۔ کرشنا مورتی صاحب بعد میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے۔

اس کے بعد فارسی کا شعبہ تھا۔ جہاں شریف النسا صاحبہ صدر تھیں۔ اس شعبے اور اساتذہ کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں کیونکہ یہ لوگ کب آتے اور جاتے تھے ، اس کا کچھ پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ اس کے بعد عربی کا کمرہ تھا۔ ایک صاحب عبدالستار تھے جو شیروانی اور پاجامہ پہنتے تھے اور سر پر ٹوپی کے ساتھ ایک رومال بھی ہوا کرتا تھا۔ اب یہ پتا نہیں کہ وہ کس طرح کے استاد تھے مگر ضرور اچھے استاد رہے ہوں گے کیونکہ اکثر ان کے ساتھ دو تین طالب علم ہوا کرتے تھے۔

انگریزی ، مراٹھی اور تلگو کے شعبے اوپری منزل پر تھے۔ انگریزی میں ڈاکٹر کمار، سراج الدین صاحب، تقی علی مرزا اور جوشی صاحب تھے۔ ہم کو سراج الدین صاحب انگریزی پڑھاتے تھے۔ وہ بڑے اچھے استاد تھے۔ چونکہ ہم لوگ اردو ذریعہ تعلیم سے آئے تھے، اسلیے اکثر چھوٹے موٹے جملوں کے ذریعے اردو میں سمجھایا کرتے تھے۔
ویسے کمار صاحب اور سراج الدین صاحب دونوں ہی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔ کمار صاحب تو فیض کا کلام ایسا سناتے تھے کہ انجان حضرات سمجھتے کہ یہ ان ہی کا کلام ہے۔ مگر کمار صاحب خود بھی اردو میں شاعری کرتے تھے ، ابھی کچھ دن قبل ڈاکٹر کمار کا انتقال ہوا ہے۔
تقی علی مرزا پستہ قد تھے اور اکثر ٹائی لگا کر آتے تھے۔ وہ بھی بہت اچھے استاد تھے۔ تیسرے استاد جوشی صاحب تھے، جن کے چشمے کے موٹے موٹے شیشوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ دیدہ ریزی سے پڑھے ہیں، اس پر فارغ البال بھی تھے۔ سیدھے سادے آدمی تھے، شیکسپئر کی کتب پڑھاتے تھے۔ اس جماعت میں طلبا کی تعداد بہت ہوتی تھی کیونکہ سائنس کے طلبا بھی شامل ہو جایا کرتے تھے۔ جوشی صاحب کے بعد ان کی دختر اترا جوشی بھی انگریزی کی استاد رہیں۔
انگریزی شعبے کی مقبول ترین شخصیت ایسی تھی جنہیں انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ وہ تھے غلام رسول ، جو ایسی چائے بناتے تھے کہ وہ سب کی چاہ ہوتی تھی۔ اس آرٹس کالج میں جہاں دور دور تک کچھ نہیں ملتا تھا، ان کی چار آنے کی چائے زندگی میں لطف بھر دیا کرتی تھی۔ وہ کھڑکی سے یہ کاروبار کیا کرتے تھے۔ سب کو پتا تھا مگر کوئی بھی شکایت نہ کرتا بلکہ سب یہ خیال کرتے تھے کہ یہ کام کر کے غلام رسول ثواب کما رہے ہیں۔ شاید ہی آرٹس کالج کا کوئی طالب علم یا استاذ یہ چائے پیے بغیر زندگی کا سفر طے کیا ہو۔

تلگو شعبے کے اساتذہ تو شاید ہی کبھی دکھائی دئیے ہوں مگر ایک طالب علم جنہیں سی۔نارائن ریڈی کہتے ہیں بہت ہی فعال شخصیت تھے۔ وہ نہ صرف اچھے شاعر تھے بلکہ اچھے منتظم بھی تھے۔ وہ بعد میں آندھرا پردیش اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ، پھر تلگو یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر بنے۔ وہ ایک بہت ہی نامور شخصیت تھی اور جامعہ عثمانیہ کو ان پر ہمیشہ فخر رہے گا۔

ایک شعبہ سنسکرت کا اور ایک مراٹھی کا تھا۔ سنسکرت کے شعبے سے میرا تعلق کم ہی رہا۔، مگر مراٹھی شعبے سے ایک عجیب سا تعلق رہا ہے۔ اس کے صدر ڈاکٹر کلکرنی ہوا کرتے تھے، ایک مرتبہ میرے والد نے ان تک ایک کتاب پہنچانے کے لیے کہا۔ میں کتاب لے کر ڈاکٹر کلکرنی کے کمرے میں پہنچی، اتفاق سے وہ کمرے کے سامنے ہی کھڑے تھے مگر میں نے تو ہندی، تلگو، فارسی اور عربی کے ایسے اساتذہ کو دیکھ رکھا تھا جو ہندوستانی لباس زیب تن کرتے تھے لیکن کلکرنی صاحب تو سفید شارک اسکن کے سوٹ اور کالی ٹائی پہنے ہوئے تھے، اس پر سیاہ چشمہ اور پمپ شو بھی تھا۔ انہوں نے انگریزی میں پوچھا کہ ہم کس کو ڈھونڈ رہے ہیں؟ ہم نے سوچا کہ انگریزی کے یہ نئے لکچرار صاحب بھلا کلکرنی صاحب کو کیا جانتے ہوں گے؟ لہذا کتاب والد صاحب کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ مراٹھی شعبے میں کوئی کلکرنی نہیں ہیں۔ دوسرے دن والد صاحب کتاب کے ساتھ ہمیں لے کر کلکرنی صاحب کے پاس گئے تو وہ ہلکے زرد رنگ کے شارک اسکن سوٹ میں ٹائی لگائے ہوئے بیٹھے تھے، ہم نے والد صاحب کو بتایا کہ یہ صاحب تو کل بھی موجود تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی کلکرنی جی ہیں۔

شعبہ معاشیات میں سب سے دلچسپ استاد تھے، مظہر حسن گیلانی صاحب۔۔۔۔۔۔تقریبا پچاس طلبا کی جماعت سنبھالتے تھے اور زرعی معاشیات میں ماہر تھے ۔ ان کا خاص جملہ ہوتا ’’جب یوگو ٹو بازار‘‘ پتا نہیں وہ کیوں اردو انگلش میں پڑھاتے تھے مگر ہر طالب علم سے واقف تھے ۔ اتفا ق سے ہمارے زمانے میں صرف دو لڑکیاں ہی معاشیات کی طلبا تھیں ۔ سامنے بیٹھتی تھیں مگر گیلانی صاحب حاضری لیتے تو خاص طور ر دیکھتے تھے کہ ہم اپنی نشست پر براجمان ہیں یا نہیں؟دوسرے استاد تھے نوجوان کے ٹی رام کرشنا جو صنعتی معاشیات یعنیindustrial economicsپڑھاتے تھے۔تیسرے استاد تھے اے ناگ راج جو مارکٹ اکنامی پڑھاتے تھے ۔ یہ پراکٹر بھی تھے، افسوس کہ جہاں سو اساتذہ طلبا کا کردار بنارہے تھے وہیں یہ صاحب کچھ طلبا کو غلط راستے پر ڈال رہے تھے ۔ اس وجہ سے ان کو56انچ کا سینہ دیکھانے کا شوق تھا، بشرٹ اور پتلون اور سینڈل پہنے رہتے، پتا نہیں تاریخ ان کو کیسے یاد رکھے گی؟اس شعبے کے سامنے سوشیالوجی یعنی سماجیات کا شعبہ تھا۔ اس کے صدر جعفر حسن صاحب تھے یہ اردو رسم الخط کی تبدیلی اور ایسی تمام اردو آوازوں کو ایک ہی شکل دینے کے قائل تھے ، مثلاً’’ع‘‘ کی جگہ الگ لکھا جائے ، بچے ان کو ج۔ا۔ف۔ریعنی جافر کہتے تھے ۔ جعفر صاحب سرخ و سفید رنگ کے مالک تھے ۔ شیروانی پاجامہ اور شیر وانی کے کپڑے کی بنی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ شعبے میں وہ سب سے بڑے تھے، کس کانگا بھی سوشیالوجی شعبے سے وابستہ تھیں۔ یہ بھی خوبصورت خاتون تھیں اور اکثر پارسی خواتین کی طرح ساڑی پہن کر ہی آتی تھیںجو بمبئی کشیدہ کاری کی بارڈروالی ہوتی تھی ۔ مدیر اج صاحب چوڑی دار پاجامہ اور صدری میں یعنی نہرو جیکٹ میں ملبوس ہوتے تھے ۔ طلباء میں بہت مقبول تھے ، اتفاق سے یہ سبھی اساتذہ مجرد تھے۔ ہمارے ایک ساتھی نے اس شعبے کا نام مجر د سماج رکھا تھا۔ اس شعبے کے مقبول استاد تھے حسن عسکری صاحب جو سوٹ میں ملبوس ہوتے ، سیاہ چشمہ لگاتے تھے ، اسی لئے ان کو طلبا ابن ہڈ کہتے تھے ۔ عسکری صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، ایک اور خاتون استاد کا تقرر ہوا ، وہ تھیں فاطمہ آپا یعنی فاطمہ شجاعت آپا، چھوٹی سی اور پر وقار شخصیت تھیں۔ ان سے ملاقات تو لیڈیز روم میں بھی ہوجاتی تھی ۔ فاطمہ آپا واحد استاد تھیں جو طلبا کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالیتیں اور ہماری پڑھائی کے بارے میں مشورے بھی دیتی تھیں۔
شعبہ سیاسیات میں صدر پی وی راج گوپال تھے بہت سیدھے سادے مگر بہترین استاد تھے ۔ ہنس مکھ اور کئی اساتذہ کے استاد، ہم کو پولیٹیکل تھاٹ یعنی مختلف سیاسی نظریات پڑھاتے تھے ۔ جیسے ہیگل، گارڈنر میکاولی یا پھر فیڈرک اینگلس ، کارل مارکس اور گاندھی جی کے نظریے۔ رشید الدین صاحب سیاسیات کی مبادیات پڑھاتے تھے ۔ کسی قدر ہکلاتے تھے ، مگر جب کلاس میں پڑھاتے تھے تو یہ کمزوری بالکل ہی غائب ہوجاتی تھی ۔ نہایت ہی تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، بشیر الدین صاحب اور وحید الدین صاحب سبھی تعلیمی شعبے سے وابستہ تھے ۔ رشید صاحب بعد میں پارلیمنٹ ممبر بنے اور پھر جے این یو سے وابستہ ہوگئے ۔ عبید الحق صاحب سیاسیات کی تاریخ بتاتے تھے ۔ بعد میں عبید صاحب سنگا پور یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور ہندوستان چھوڑ دیا۔ ایک اور استاد تھے ہاشمی صاحب ہمیشہ سوٹ میں رہتے تھے اور دراز قد تھے ۔ ہم کو وہ دستور ہند پڑھاتے تھے اور ایک ایک آرٹیکل کا ذکر بڑی وضاحت سے کیا کرتے تھے۔ پتہ نہیں وہ کہاں چلے گئے؟ ان کی جگہ گیلانی صاحب تشریف لائے وہ پاکستان سے آئے ہوئے سندھی تھے ۔ سندھی ادب پر بڑی گرفت تھی ، کچھ ہی دنوں میں وہ بھی اڈمنسٹر یٹیو سرویس سے وابستہ ہوگئے ۔ ان سے بعد میں ملاقاتیں ہوئی تھیں، جب ان کو بتایا کہ میں ان کی شاگرد ہوں تو بہت خوش ہوئے اور ان کے بعد جلد ہی شریمتی گیتا ریڈی آئیں مگر جلد ہی ان کی شادی اور وہ کولکتہ چلی گئیں ۔ دستور ہند پڑھانے کے کئی استاد آئے اور ہم کبھی اس پر حاوی نہ ہوسکے ، شاید بہت کم لوگ اس موضوع سے واقف ہیں۔ پولیٹکل سائنس شعبے سے پبلک ایڈ منسٹریشن شعبہ بھی جڑا ہوا تھا ۔ عبدالمطلب صاحب، ڈاکٹر رام ریڈی اس کے استاد تھے ۔ عبدالمطلب صاحب فربہ اندام تھے، بہت دھیرے دھیرے بولتے تھے اور سچ پوچھئے تو بی اے طالب علموں کے استاد نہیں تھے، وہ بہت بڑے عالم تھے۔ تحقیق کے میدان میں وہ آگے تھے ، ہمیشہ سوٹ میں آتے تھے ۔ وہ آخر وقت تک پرانے شہر میں رہے جب کہ اکثر لوگ پرانے شہر کو چھوڑنے کا ارادہ کرکے ن ئے شہر کو چلے گئے ۔ ڈاکٹر رام ریڈی انہی دنوں انگلینڈ سے ڈگری لے کر آئے تھے، وہ سب کے ہر دلعزیز لکچرر بن گئے مگر وہ جلد ہی ورنگل چلے گئے لیکن دوبارہ کالج کے پرنسپل ہوکر آئے ۔ ان کی تہذیب اور اخلاق کا اندازہ اس با ت سے ہوتا ہے کہ جب وہ پرنسپل تھے تب بھی وہ اپنے اجلاس سے اٹھ کر پی وی راج گوپالن سے ملنے جاتے تھے کیوں کہ راج گوپالن ان کے استاد تھے ۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی بنے، جب وہ وائس چانسلر بن کر نظام کالج کے دورے پر آئے تو وہاں ایک چپراسی کو جو کبھی آرٹس کالج میں کام کرتا تھا ، اس کی پیسے مانگنے اور پینے کی عادت نے اسے نظام کالج پہنچا دیا مگر، چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ جب رام ریڈی صاحب نظام کالج پہنچنے والے تھے تو اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ ایسی کوئی حرکت نہ کرنا جو بد تمیزی کہلائے ۔ بہر حال ، ریڈی صاحب پہنچے تو اس نے لاپروائی سے کہا: یہ وائس چانسلر ہیں اور پھر بڑی پھرتی اور ادب سے ان کو سلوٹ مار ااور ہاتھ بڑھا کر کہا: صاحب!وائس چانسلر بن گئے، چائے کے لئے دس روپئے تو دیجئے ۔ رام ریڈی صاحب نے مسکراکر اسے دس روپئے دیدئے۔ریڈی صاحب نے ایسے طلبا کے لئے جو آگے پڑھنے سے قاصر تھے ، فاصلاتی پروگرام شروع کیا اور پھر وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے صدر بھی بنے ۔ ہندوستان کے وہ واحد ماہر تعلیم ہیں جن کے حصے میں آخری سرکاری رسومات آئیں۔

The Academician & Departments of Arts College Osmania University. Article: Udesh Rani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں