ظفر گورکھپوری کا تخلیقی سیلِ رواں زندگی کے تمام مسائل سے الجھتا ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-09

ظفر گورکھپوری کا تخلیقی سیلِ رواں زندگی کے تمام مسائل سے الجھتا ہے

Zafar Gorakhpuri
ظفر ؔ گورکھپوری کا شعری سفر ان کے مجموعۂ کلام ’’تیشہ ‘‘( 1962ء )سے ’’ہلکی ٹھنڈی تازہ ہوا‘‘ (2009ء )تک نصف صدی پر محیط ہے ۔ اس دوران ان کے ۸؍ مجموعہ کلام شائع ہوئے ۔ جن کے خاطر خواہ پذیرائی ہوئی مگر ان کا تیسرا مجموعہ کلام ’’ گوکھر و کے پھول ‘‘ سنگ میل ثابت ہوا اور اس مجموعہ نے اردو ادب میں ان کا قد متعین کر دیا ۔ اس دوران اپنے عہد کے عظیم نمائندہ شاعر فراقؔ گورکھپوری ، علی سردار ؔ جعفری ، احمد ندیم قاسمی ؔ ، حمایت علی شاعر ؔ ، ظ انصاری، ؔعزیز قیسی ؔسے لیکر موجودہ عہد کے ڈاکٹر قمر رئیس اور ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی نے بھی ان کی شاعر انہ عظمتوں کا اعتراف کیا ہے انھیں شعری اسلوب کا ایک اہم شاعر تسلیم کیا ہے ۔ کسی بھی شاعر کے لئے اس سے بڑا تمغہ امتیاز اور کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے امریکہ ، سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے مشاعروں میں شرکت بھی کی ملک کے مختلف اردو اکیڈیمیوں نے انھیںیکے بعد دیگر ے بہت سے اعزازات سے نوازا ۔ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کا ریاستی ایوارڈ ، اور فراق سمان جیسے اعزاز بھی انھیں ملے ۔ظفرؔ کی تخلیقات ریاست ِمہاراشٹر میں پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی نصاب میں شامل ہیں۔ ان کی شخصیت وفن پر تحقیقی کام بھی ہوا ہے ۔ انھوں نے اپنے 50 سالہ شعری سفر کے مانوس اسلوب کو یکلخت ایک ایسا موڑ دیا ہے جو پڑھنے والوں کے لئے بڑا سنسنی خیز تجربہ ہے ۔ حالانکہ اسلوب کی یہ تبدیلی اردو ادب میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس سے پہلے ناصر کاظمی ؔ ، افتخار عارفؔ اور جاں نثار اخترؔ بھی اس تجربہ سے گزر چکے ہیں ۔ جنھوں نے عمر کے آخری حصے میں ایک نئے اسلوب کی بازیافت کی اور کامیاب بھی ہوئے ۔ ظفر ؔ کے اس نئے مجموعے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے تخلیقی ابعاد نے اپنے عمود سے انحراف کر کے دفعتاً ارتفاعی راہ اختیار کر لی ہے ۔
پچھلے دہے کہ شعری ادب کا جائزہ لینے پر معلوم ہو تا ہے کہ اردو نظم میں نئی شاعری نے اپنی اہمیت کھودی ہے ۔ آج سے چالیس سال پہلے کے نظم گو شعراء کے نام آج بھی اردو ادب کے اُفق پر اسی طرح جگمگا رہے ہیں۔اس کہکشاں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے نظم گوئی گویا شہر افراسیاب ہو گئی ہے کہ پیچھے مڑ کے دیکھااور پتھر کے ہو گئے ۔ انگلیوں پر گنے جانے والے کچھ شعرا البتہ اس تاریکی کے خلاف منظم جہاد کر رہے ہیں ۔ مگر اکثر نظموں کا شعری مجموعہ اسلوب ابہار م ایمانیت اور پیچیدگی سے اس قدر بوجھل ہے کہ ان نظموں کو سر سری طور سے پڑھنا بھی ایک بیزار کن عمل ہے ، اس دوران جواں فکر شاعر جمال اویسی ؔ کا ایک ضخیم نظموں کا مجموعہ ’’ نظم نظم ‘‘ شائع تو ہوا ہے مگر ان کے فکری تخلیقی ، ہیئتی اور اسلوبی تجربات نے اسے بے معنی کر دیا ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے ان نظموں کے متعلق لکھا ہے ’’ یہ نظمیں واقعات کو احساسات پر وارد ہونے والے ایک تجربہ کی نشاندہی کرتی ہیں شاید اسی لئے انھیں خیالات کے گنجینے سے زیادہ بے نام اور مبہم کیفیتوں کی روداد کے طور پر دیکھا جانا چاہئے‘‘ ۔
کچھ امیدیں عبدالاحدساز سے ان کی کامیاب نظموں ’’ نانی اماں ‘‘ ’’ عوج بن عنق‘‘’’ اور آخری دور کے انسان ‘‘کے بعد کی جارہی تھیں ۔مگر اس کے بعد وہ بھی جیسے ایک جگہ ٹھٹک سے گئے ہیں ۔ یہ انتہائی مایوس کن حالات ہیں۔ زبیر رضوی ؔ اور دیگراہم شخصیات نے کافی کوششیں کی کہ نئے شعرا نظم کی طرف متوجہ ہوں ۔ مگر یہ بھی صدابصحرا ثابت ہو ئیں ۔ نظم گوئی ایک ریاضت چاہتی ہے عمیق مطالعہ ، علمی تجربہ ، انہماک ، اور جذبوں کا سراغ پا نے کی شدید جستجو کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جب کہ غزل گوئی اتنی آسان ہے کہ معمولی سا اردو کا طالب علم بھی تھوڑی سی کوشش کے بعد غزلیں کہہ لیتا ہے اور اردو کے کچھ تجارتی رسالوں میں شائع کرواکہ خوش ہو جا تا ہے ۔ایسے جاں گداز حا لات میں ظفر ؔ کی غزلوں اور نظموں کے اس نئے مجموعہ نے کچھ روز ن واتو کئے ہیں ۔ جن سے ’’ ہلکی ٹھنڈی تازہ ہوا‘‘ کے جھونکے محسوس کئے جا رہے ہیں ۔
ناصر کاظمی ؔ، ابن انشا، احمد مشتاق، ظفر اقبال، محمد علوی ، شہریار ، ساقی فاروقی ، زیب غوری کے ہاتھوں غزل میں داخلی اورخارجی ہیئت میں خاصی تبدیلیاں ہو ئیں ہیں ۔ مگرگھوم پھر کے یہ صنف اپنے روایت کے دائرے میں ہی رہی ۔ اس لئے ایک حد تک ان سب کی غزل اپنے صنف کی روایتی شرطوں کو بھی پوراکرتی ہے ۔ غزل کی نئی شعریات وضع کر نے کی کوشش بیشک ہو ئی مگر یہ شعریات غزل کی پرانی شعریات پر خط تنسیخ نہیں کھینچتی زیادہ سے زیادہ یہ کہ بعض لسانی اور حسی عادتوں کی ترک کر نے پر زور دیتی ہے اور اس ضرورت کو یاد دلاتی ہے کہ نئی انسانی صورت حال اور تجربوں کی پس منظر میں انحصار کی سطحیں دریافت کی جائیں اور کچھ نئے راستے نکالے جائیں ‘‘۔
ظفر ؔ کی نظمیں ’’ نمو‘‘’’ بہت کمزورہو تم ‘‘ اور ’’ زمین کا دکھ ‘‘ شمیم حنفی کی اس بحث کا مقدمہ معلوم ہو تی ہیں ’’ میرے بے شمار لمحے ’’ اور ’’Dead‘‘
مو ضوعاتی تنوع کے تناطر میں مدنی جدلیات اور شہری عذاب واذیت سے بھر پور نظمیں ہیں ۔ جن پر جواب سے زیادہ سوال حاوی ہیں ۔ ظفرؔ کی نظموں میں استعاراتی ابعاداور لسانی شگفتگی ایک نئی صف کا پتہ دیتی ہیں ۔نئی شاعری کے منظر نامہ پر ظفر کی تقریباً تمام نظمیں تفاہیم مدراج کی طرف قاری کو دعوت فکر ہی نہیں دیتیں بلکہ انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ ظفر ؔ کے اسلوب کی اس ندرت میں ان کے لسانی شعور کی بالید گی کا بڑا حصہ ہے جو ان کی فکر میں رچ بس گئی ہے ۔ شعریات کی افہام وتفہیم کے سلسلے میں یہی لسانی شعور کلیدی رول ادا کر تا ہے ۔اس سلسلے میں بہت مختصر تبصرہ نئی شاعری کے تناطر میں محترم صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے مضمون ’’انحراف کی شاعری ‘‘ میں کیا ہے ’’ جدید شاعر بہت اونچے مر مر یں مناروں پر بیٹھا ہے اور وہ مینارے اور بھی اونچے ہو تے جا رہے ہیں ۔ شاعری جب تک اس زبان کے بولنے والو ں کی (نقادوں اور شاعروں کی نہیں ) تہذیب کی جزو نہ بن جائے وہ عظمت سے محروم رہے گی ۔ ‘‘
زبان وادب پر یہ اہم تبصرہ ظفر گو رکھپوری کے نئے اسلوب کا دیباچہ ہے جو اپنی عظمت کی تلاش میں نظریات کا اظہار کس شیریں سخنی سے کر تے ہیں ۔
بہت ہے کہنے کو پاس میرے
(کچھ اس قدر کہ لگے یہ عمر عزیز بھی کم )
زمیں پہ ہیں پاؤں
کھڑکیاں ذہن کی کھلی ہیں کہ ان سے تازہ ہو ائیں وہ چاہے مشرق ہو یا مغرب
میں آدمی کے دکھ اور سکھ کی دبیزمٹی سے پھوٹتا ہوں۔ ‘‘
آج کے شکست وریخت کا عمل ، اقتدار کی اتھل پتھل ، صارفی عہد کی بے رحمی، ٹیکنا لوجی کی سپر یئر یٹی اور رفتہ رفتہ تمام تہذیبوں کی گمشد گی کسی سانحہ سے کم نہیں ہے ۔ ظفر ؔ پورے عہد کو ایک لیبارٹری قرار دیتے ہیں ۔ ان کی نظم ’’ جانچ گھر‘‘ خوابوں کے ٹوٹنے اور بکھر نے کے عمل کا محاسبہ ہے ۔ ’’ میرے چراغوں کو دفن کردو ‘‘
Generration Gap پر ایک خوبصورت نظم ہے ۔ مگر نظم کا اختتام نظم کی فکری روانی سے انحراف کرتا ہوا لگتا ہے ۔نظم تو دراصل وہیں ختم ہو گئی تھی جہاں انھوں نے کہا تھاکہ ’’ آج کہ دنیا ؍ یہ وہ نہیں ہے کہ جس میں کھولی تھیں تم نے آنکھیں ۔ "
ظفر کا تخلیقی سیل رواںزندگی کے تمام مسائل سے الجھتا ہے ۔ انسانیت کی قدروں ، جنگوں اور فسادات سے نبردآزما ہو تا ہے نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے جگہ جگہ سیاسی شعور ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔ ان کا شعری اسلوب ایران کی تہذیبی اور لسانی بالا دستی سے ہٹ کر ہندوستانی معاشرے میں اپنی جگہ بنارہا ہے ۔ جو ایک خوش آئند امکان ہے ۔
نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن
سوال یہ ہے کہ کس کس سوال سے نکلوں
ابھی تک نیند میں رہ رہ کے بچے چیختے ہیں
جو اس بستی پہ گزری آپ نے دیکھا نہیں کیا
آگ کس ہاتھ میں ہے کون دیتا ہے ہوا
کس کا کیا کھیل یہاں بستیاں جانتی ہیں
انسان کی سفاک تمناؤں کے ہاتھوں
لاچار زمیں کی طرح کٹتا رہا پانی
اسکول کے دن تھے ابھی کیا بیتی ہے ان پر
بندوق لئے ہاتھ میں بچے نکل آئے
وہ جو ہری بھری دُنیا کے خواب بیچتا ہے
لہو سے کتنی زمینوں کولال اس نے کیا
یہ آخر کون پانی کو جڑوں سے کھینچ لیتا ہے
نیا موسم ہے لیکن پیڑ پَہ پتہ نہیں باقی
( طویل مضمون سے اقتباس)
***
ضمیر کاظمی (میرا روڈ، ممبئی)
رابطہ:9768818688

موت ایک ایسی سچائی ہے جس کاانکار ممکن ہی نہیں۔جوآیا ہے اُسے یقیناًجانا ہے ۔دُنیا کبھی کسی کی مستقل رہائش نہیں رہی۔موت وحیات کی یہ گردش تاقیامت یونہی چلتی رہے گی۔ہر موت متعلقین کو کچھ وقفے کے لیے متاثرضرور کرتی ہے مگربعد میں زندگی دوبارہ اپنے معمول پر آجاتی ہے۔اب تک نہ معلوم کتنے ساتھیوں کی رُخصتی جھیل چکا ہوں اُس میں ایک اضافہ اورہوگیا۔
ظفرگورکھپوری .....!غالباً۱۹۵۶ء کازمانہ تھا۔گھوگھاری محلہ (ممبئی) اردو پرائمری میونسپل اسکول میں میرا تقرربحیثیت مدرس ہواتھا۔میرے ایک ساتھی مدرس علی صاحب تھے جن کا تعلق مشرقی یوپی سے تھااُنہوں نے مجھے ظفرالدین سے متعارف کرایاتھا بعد میں علی صاحب کا واسطہ ختم ہوگیا اورظفر باقاعدگی سے میرے پاس آنے جانے لگے ۔اُس وقت تک وہ ظفرگورکھپوری نہیں تھے۔اُن کی شاعری ابتدائی درجات میں تھی کبھی کبھار دوچار شعرضرورسناجاتے تھے جواُن کے روشن مستقبل کاپتہ دیتے تھے۔حالات کچھ ایسے ہوئے کہ میں اچانک کالج اورملازمت کو خیر باد کہہ کر وطن لوٹ آیا۔میرا وطن بھساول تقریباً ایک صدی سے کل ہند مشاعروں کے تعلق سے ایک اہم مقام ومرتبے کا حامل رہاہے۔مرحوم شکیل بدایونی کو اس شہر سے ایک تعلق ِخاص تھا ۔انہی کی ایما واعانت سے میں نے بھساول میں ایک کل ہند مشاعرے کا اہتمام کیاتھا۔ برِصغیر میں شاید ہی کبھی ایک اسٹیج پر اس قدر شعرا یکجا ہوئےہوں شعرا کی فہرست یوں تھی۔فراق گورکھپوری ، پنڈت گلزار دہلوی، خماربارہ بنکوی،فنا نظامی کانپوری،نشورواحدی،بیکل اتساہی،شعری بھوپالی،دلاورفگار، ناظر خیامی، رازؔالہ آبادی، کرشن بہاری نورؔ، صبا افغانی،شمسی مینائی،مظفر شاہ جہان پوری، ہلال سیوہاروی،راحت اندوری اورظفرگورکھپوری۔
ظفر کے لیے اُن کی زندگی کاشاید یہ پہلا کل ہند مشاعرہ تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب سامعین علی سردار جعفری،کیفی اورساحر کے علاوہ کسی کو تحت میں سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ظفر ؔنے تحت میں غزل پڑھی اورخوب داد پائی۔بعدازاں اطراف میں جہاں بھی مشاعرہ ہوتا ظفرضرورمدعوکئے جاتے تھے۔میرے ہم وطن اوردوست مرحوم نعیم باسط کو پہلی مرتبہ ڈائریکشن کا موقع اداکارقادرخان نے دیاتھا فلم تھی شمع اورموسیقی اوشاکھنہ کی تھی اس کے تین گیت کار تھے وٹھل بھائی پٹیل،اسدبھوپالی اور ظفرگورکھپوری مگر ظفر کے لکھے گیت ہی مقبول ہوئے ۔
چونکہ ظفر نے زندگی کو ہر اعتبار سے دیکھا،پرکھا،آزمایا اورنبھایا اس لیے صبر وقناعت اُن کے مزاج کا خاص عنصر تھا۔عام لوگوں کی طرح وہ کبھی حالات کے شاکی نہ تھے۔ظفر کی شاعرانہ عظمت میراموضوعِ سخن نہیں اس کام کے لیے مجھ سے زیادہ قابل اورکامل حضرات ابھی موجود ہیں۔میں اپنےمحدود مطالعے کے باعث صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُردوادب کے شعری حصے میں سراج الدین بہادرشاہ ظفر کے بعدکسی اورظفر پر نظرٹھہرتی ہے تووہ ظفرگورکھپوری ہیں۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔آمین
اب ہم جیسے ’’۔۔۔۔ جو ہیں تیار بیٹھے ہیں‘‘
***
رشیدعباس (بھساول)
رابطہ:9326757493

ادب کو جو
نئ فکریں
تروتازہ ہوائیں دیتا رہتا تھا
جو نو مشقوں کو
منزل تک پہنچنے کی دِشائیں دیتا رہتا تھا
جو گھر آئے ہوئے مہمان کو دل سے دعائیں دیتا رہتا تھا
وہ ایسا خوبصورت رنگ تھا دیوار کا اپنی
ہمارے درمیاں سے
جو نہ آسانی سے نکلے گا
اُتر آئے گا
اِن آنکھوں میں،
جب جب یاد آئے گا
اُسے دفنانے والو
جاؤ اس کو دفن کر ڈالو
اُسے مٹّی کیا تم نے تو وہ پانی سے نکلے گا
***
منظور ندیم
(اکولہ)
رابطہ:9372501237

Zafar Gorakhpuri, demise of a prominent urdu poet. Article: Zameer Kazmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں