مسئلہ طلاق - سپریم کورٹ اور مسلم پرسنل لا بورڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-26

مسئلہ طلاق - سپریم کورٹ اور مسلم پرسنل لا بورڈ

triple-talaq
طلاق ثلاثہ کے قضیہ میں سپریم کورٹ کو رٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نفس مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے یا پھر شریعت اسلامی میں مداخلت صاف دکھائی دے رہی ہے لیکن روشنی کی ایک کرن بھی نظر آرہی ہے کہ علماء ، فقہاء اور ارباب مسلم پرسنل لا اپنی اجتہادی قوت سے ایک مجلس میں تین طلاق کی زد میں آنے والی خواتین کے لئے راحت کی کوئی راہ نکالیں ۔ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں والی بنچ کا فیصلہ آنے کے بعد کچھ ٹی وی چینل اور چند خواتین پرچم لہرا لہرا کر یہ باور کرارہی تھیں کہ انہوں نے شریعت کو شکست دے دی ہے جب کہ یہ بات سراسر غلط ہے اور فیصلے کے مفہو م کے منافی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ججوں نے اس بات کو پوری طرح تسلیم کیا ہے کہ آئین کی رو سے وہ مسلم پرسنل لا میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتے ۔ اس لئے مسلم پرسنل لا شریعت کی روشنی میں ہی رول ہوں گے ۔ سپریم کورٹ نے چھ مہینہ کے لئے تین طلاق پر جو پابندی لگائی ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ مختلف مسالک کی رعایت کرتے ہوئے کوئی ٹھوس اور اجتہادی فیصلہ لے تاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ از خود سماج میں بے اثر ہوجائے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کو قبول عام حاصل ہوسکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کا وضع کردہ کوئی بھی قانون جو شریعت سے متصادم ہو ، کو اعتبار حاصل ہوسکتا ہے ، البتہ علماء مشائخ اور مفتیان و قضاہ حضرات کا کوئی بھی فیصلہ اگر سامنے آتا ہے تو اسے مسلم سماج میں قبول عام حاصل ہوسکتا ہے ۔یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمان یا مسلم خواتین اپنے مفاد یا آسانی کے لئے کبھی بھی اس پر آمادہ نہیں ہوسکتیں کہ وہ شریعت کے کسی اصول کو نظر انداز کردیں چاہے شریعت کا قانون ان کے لئے کتنا ہی گراں بار کیوں نہ ہو، ہندوستان کے مسلمان اپنی جان دے سکتے ہیں مگر ا پنے مذہبی قوانین سے دستبردار کبھی نہیں ہوسکتے ، اس لئے اس مسئلہ پر کتنی ہی عدالتوں میں چاہے جتنے فیصلے سنادئے جائیں اگر شرعی قوانین سے متصادم ہوں گے تو اسے دریابرد کردیاجائے گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امت خلفشار اور انتشار کے باوجود متحد ہے اور شریعت کے تئیں بیدار و حساس بھی، اور ان کی نگاہیں علمائے امت پر مرکوز ہیں کہ شرعی قوانین میں اصلاح کی جتنی بھی گنجائش ہے اس گنجائش سے مضطرب خواتین کو فائدہ دلانا چاہئے، اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ کو بھی قانون سازی کے لئے بیدار کیا ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ کوئی راہ ایسی نکالی جائے تاکہ طلاق زدہ خواتین کی رسوائی کا سد باب ہوسکے، ظاہر ہے کہ اس کے لئے حکومت ہند کو مثبت نظریہ کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا اور قانون سازی سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اراکین کو اس بات کی دعوت دینی چاہئے کہ وہ قابل قدر، اصلاح پسندانہ اور خواتین کو آسانی فراہم کرنے والا کوئی موقف پیش کرے اسی کے ساتھ میں اس حق میں بھی ہوں کہ آل اندیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھوپال میں منعقد ہونے والے اپنے آئندہ اجلاس میں اس بات پر شدت سے غور کرے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے کے ساتھ حضرت عمر فاروق ؓ نے جو رویہ اور سزا و زجروتوبیخ کی روش اپنائی تھی اسی روشنی میں سخت قدم اٹھائے جائیں جو کہ آن واحد میں تین طلاق دینے والے بے مہار سرکش اور شریعت بیزار افراد کے خلاف درس عبرت ہو۔
راقم الحروف اس پورے قضیہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو متحدہ نمائندہ پلیٹ فارم تصور کرتا ہے کیونکہ ہزار اختلافات کے باوجود یہی پلیٹ فارم ہے جس کے تئیں تمام مسالک اور مکاتب فکر میں توسع اور احترام پایاجاتا ہے ، دوسری طرف چونکہ طلاق کا مسئلہ خالص شرعی مسئلہ ہ اس لئے اس سلسلہ میں اسی موقف کو سواد اعظم کی حمایت حاصل ہوگی جو مسلمانان ہند کے اس نمائندہ پلیٹ فارم سے سامنے آئے گا۔ جہاں تک سپریم کورٹ نے تین طلاق کو چھ مہینہ تک کے لئے غیر قانونی قرار دیا ہے تو اس سلسلہ میں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ مسلک اہل حدیث اور حضرات تشیع کے یہاں پہلے سے ہی ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی طلاق تصور کیاجاتا ہے ، خوش آئند بات یہ ہے کہ ان دونوں مسلکوں کے اس عمل پر بقیہ مسلکوں کے علماء کو نہ اعتراض ہے نہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو، صرف معاملہ حنفی المسلک کے متعدد مکاتب فکر سے وابستہ افراد کے یہاں ایک مجلس کی تین طلاق نہایت قبیح ، بدبختانہ اور قابل سزا عمل ہے اور یہ کہ اس کے باوجود بھی اگر کسی نے ایک مجلس میں تین طلاق دے دی تو اس کی وقوع پذیری کے قائل ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ایک مجلس کی تین طلاق کی قباحت اس کے تئیں نفرت اور ایک مجلس میں تین طلاق دینے واے خاوند کے خلاف سوشل بائیکاٹ جیسی تجویزوں کو یکسر نظر انداز کردیا ، اپنے اس موقف سے مسلم پرسنل لابورڈ عدالت کو قائل نہ کرسکا۔ عدالت نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ ایک مجلس کی تین طلاق کی زد میں آنے والی خواتین کا تناسب اس ملک میں نہایت کم ہے۔ ایسی چند فیصد خواتین کے حق میں کچھ دیگر روشن خیال خواتین میدان میں آگئیں اور افسوس اس مسئلہ کو پوری سنجیدگی اور دیانتداری سے صحیح پلیٹ فارم سے حل کرنے کے بجائے حکمراں جماعت بی جے پی نے دیش کا سب سے بڑا ایشو بنادیا۔ حیرانی اس پر بھی ہوئی کہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی بھی اس مہم کا حصہ بن گئے ۔ اس قضیہ کو بے لگام بنانے میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی بھی مجرمانہ پالیسی رہی ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس قضیہ کی نوعیت میں کئی رنگ چڑھ آئے ہیں اس لئے اب اس مسئلے کے قابل قبول حل کی راہ تلاش کرنی ہو گی۔ ہمیں شریعت کی جانب سے عطا کردہ سہولت و آسانی کی راہ اپنانی ہوگی اور اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ ساتھ ان روشنی خیال خواتین و افراد کو بھی مطمئن کرنے کے لئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ قوانین اسلامی میں جمود نہیں ہے بلکہ بدلتے ہوئے احوال میں اصلاح پسندانہ نظریہ پہلے رہاہے اور فی زمانہ بھی راستے مسدود نہیں ہوئے ہیں۔ ایک بات یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت وقت یا کچھ دیگر عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر وہ ہندوستان کی تمام خواتین کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یا علماء و مشائخ سے بیزار کردیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ خود پر ظلم و زیادہ کے پہاڑ توڑے جانے کے باوجو د خواتین اسلام شریعت کا دامن کبھی چھوڑنا نہیں چاہتیں اور نہ ہی علماء و مشائخ سے عقیدت مندانہ رشتوں کو سبو تاز کرنا چاہتی ہیں۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی ، جودھ پور کے پریسیڈنٹ ہیں)

Triple Talaq, SC & Muslim personal law board. Article: Prof Akhtar ul Wasey

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں