ہمارے ابا - از جاوید نہال حشمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-07-19

ہمارے ابا - از جاوید نہال حشمی

Hasham-ur-Ramazan
اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے ابا ہم سے بہت محبت کرتے تھے تو آپ کہیں گے یہ کون سی نئی بات ہے۔ ہر باپ اپنی اولاد سے بہت پیار کرتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے اور ہمارا مستقبل سنوارنے کے لئے اپنے شوق کی خاموش قربانی دی، دیرینہ خواہشات کا گلاگھونٹا، اور اپنے خوابوں کوحصارِ چشم سے باہر آنے نہیں دیا تو آپ پھر کہیں گے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ظاہر ہےولدیت شفقت، محبت اور قربانی سے ہی منسوب ہوتی ہے جو ایک آفاقی حقیقت ہے۔ تاہم اظہارِ محبت کا سلیقہ اور قربانی کی نوعیت جدا ہو سکتی ہے اس سے آپ انکار نہیں کر سکیں گے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اولاد جب تک والدین کی قربانیوں سے فیض یاب ہوتی رہتی ہےاسے اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اور جب احساس ہوتا ہے تو والدین کی تکلیف سے زیادہ اولاد کی تکلیف دامن گیر ہوتی ہے، ان کے آرام سے زیادہ اولاد کی خواہشات کا خیال رہتا ہے۔بیٹے کو نئے خوش رنگ کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر فوراً اسٹائی لِش سیاہ چشمے کا خیال آتا ہے لیکن بوڑھے باپ کی عینک کے ڈھیلے ہینڈل کو کَسوانے کا خیال بار بار یاد دہانی کے باوجود نہیں آتا، افسوس! شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ والدین کی محبت اور قربانیوں کی قیمت چکانا اولاد کے لئے ممکن ہی نہیں...
اور قربانیاں بھی وہ جن کا علم ہو۔ ان خاموش قربانیوں کا کیا جن کا کبھی پتہ ہی نہ چلا ہو؟
ابا نے صرف ہمارے ساتھ ہی شفقت اور مہربانیوں کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہمارے ہم جماعتوں، دوستوں، پڑوسیوں اور قریب و دور کے رشتے داروں کے ساتھ بھی وہجس جذبۂ ہمدردی سے پیش آتے رہے وہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔یقین جانئے انہوں نے ساری زندگی تلقین یا نصیحت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا ہم سے مگر عملی طور پر سراپا اعلیٰ انسانی قدروں کی مثا ل بنے رہے۔غریب پڑوسیوں یا ضرورت مند طلبا و طالبات کے لئےدستِ تعاون دراز کرنے کا معاملہ ہو یا کسی مصیبت میں مبتلا رشتے دار کی مالی اعانت کی ضرورت پیش آئی ہو، وہ ہمیشہ آگے آگے رہے۔اس کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ بعض رشتے داروں اور ضرورت مندوں کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی گھر کر گئی کہ ابا کی آمدنی اچھی خاصی تھی، جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی جس کا اندازہ خود ہمیں بھی نہیں تھا، کیوں کہ ابا نے ان باتوں کو ہم سے اپنے کسی ذاتی راز کی طرح پوشیدہ رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی تھی۔یہی وجہ تھی کہ جب ایک بار امّی نے مشورہ دیا کہ بچوں کواحساس دلایا جانا چاہئے کہ پیسے کتنی محنت سے گھر میں آتے ہیں تاکہ فضول خرچی کی طرف ذہن مائل نہ ہو تو ابا نے ایسا جواب دیا کہ امّی تو قائل ہو کر خاموش ہو گئیں لیکن ہم ...ہم آج تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ امّی کا کہنا زیادہ درست تھا یا ابا کا۔ابا نے کہا تھا کہ اگر بچوں کو ابھی سے یہ احساس دلایا جائے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بچپن سے ہی حسّاس واقع ہو جائیں اور اپنے ضروری اخراجات کے لئے بھی پیسے مانگنے میں جھجھک محسوس کریں! بلکہ اپنی اس منطق پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایک بار انہوں نے ہم تینوں بھائیوں کو ایک ساتھ بیٹھا کر واضح لفظوں میں کہا تھا کہ ہمیں اکاڈمک تعلیمی ڈگریوں کی حصولی پر دھیان نہیں دینا ہے بلکہ میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے پروفیشنل ڈگریوں کی جستجو میں رہنا ہے جس کے لئے جتنے پیسوں کی ضرورت ہوگی دئیے جائیں گے، چاہے ٹیوشن یا کوچنگ کلاسوں کی فیس کے لئے ہو یا زائد کتابیں خریدنے کے لئے۔ہم سات بھائی بہنوں میں سے پانچ نے سائنس اسٹریم سے تعلیم حاصل کی۔اخراجات کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے اپنی اولادوں کو سائنس سے پڑھایا ہو۔ ہر ایک کے لئے دو سے تین جگہ پرائیویٹ ٹیوشن کی فیس کے علاوہ سائنس کی موٹی موٹی مہنگی کتابوں کی خریداری...اور وہ بھی ایک اسکول ٹیچر کے لئے جس کی تنخواہ اس زمانے میں ایسی تھی کہ لوگ اپنی لڑکیوں کا ہاتھ بڑی مجبوری میں دیتے تھے۔قریبی ضرورت مند رشتے داروں کی مالی اعانت اور ہماری پرورش و تعلیم میں ہونے والے اخراجات صرف اسکول کی تنخواہ سے تو کسی طور پورے نہ ہو سکتے تھے۔ یہ احساس ہوتے ہی ابا نے پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانے کی طرف بھی دھیان دینا شروع کر دیا۔ اور یہی وہ دَور تھا جب انہوں نے اپنی کئی خواہشات کا گلا گھونٹا تھا۔ اپنے شوق اپنی ضرورتوں کو دباتے رہے اور ہمیں زندگی میں اُبھرنے کے مواقع فراہم کرتے رہے۔اپنے خوابوں کے ملبے پر ہمارے مستقبل کی تعمیرات میں لگے رہے۔مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک کشمیری نوجوان سے ان کی قریبی شناسائی ہو گئی تھی۔ ابا اس سے تقریباً ہرسال جاڑے میں شال یا چادر خریدا کرتے تھے۔ شاید کچھ عرصے اس نے ابا سے انگریزی کی ٹیوشن بھی لی تھی۔ اسے ابا سے اتنی انسیت ہو گئی تھی کہ اس نے انہیں کئی بار کشمیر آنے کی دعوت دی۔بار بار یہ کہہ کر اصرار کرتا رہا کہ صرف آنے جانے کے کرایے کےا خراجات وہ خود اٹھائیں لیکن ان کے قیام و طعام کی اور دیگر ذمہ داریاں اس کی ہوں گی۔لیکن کوشش بسیار کے باوجود ابا شاید آمدنی اور اخراجات کے بیلنس شیٹ میں سیاحت کا کوئی کالم نکال نہیں پائے۔
ہمارے اسکول اور کالج کے د نوں میں انہوں نے ایک روبوٹ کی سی مشینی زندگی گزاری تھی۔ان کی روز مرہ کی مصروفیات کا ایک ایک منظر ہماری آنکھوں میں آج بھی بسا ہوا ہے۔وہ ہمارے جاگنے سے بہت پہلے اٹھ جاتے تھے۔ جس جس دن بستر پر ہماری آنکھ سویرے کھلتی، ہم ایک ہی منظر دیکھتے۔ کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہوتے، اور بلب جل رہا ہوتا۔ ابا اپنی میز کے قریب کھڑے سامنے دیوار پر آویزاں چھوٹے سے آئینے کے سامنے شیو کر رہے ہوتے۔ بائیں ہاتھ کی جانب چوڑے شیلف پر رکھے قدیم طرز کے بڑے سے ریڈیو پر آکاش وانی سے پروگرام نشر ہو رہا ہوتا۔ہم تینوں اور ابّو کی، چاروں گھڑیاں سامنے میز پر ایک قطار میں سجا کر رکھی ہوتیں۔جیسے ہی ریڈیو سے اناؤنسر کی آواز آتی ”اس وقت ہماری اسٹوڈیو کی گھڑی میں پانچ بج کر تیس منٹ ہوا چاہتے ہیں...“ابا شیونگ کے درمیان میں ہی سیفٹی ریزر رکھ کر باری باری سے چاروں گھڑیوں میں چابی بھرنا شروع کر دیتے اور کسی میں ذرا سا بھی وقت کا فرق ہوتا تو اسے ریڈیو کے وقت کے مطابق ٹھیک کر دیتے۔پھر ہم تو دوبارہ چادر تان کر اور کروٹ بدل کر سو جاتے مگر ابا اپنے معمول کے مطابق ضروریات، برش اور غسل سے فارغ ہونے کے بعد جلدی جلدی ناشتہ کرتے (ناشتہ تیار رکھنے کے لئے امّی کو اور سویرے اٹھنا پڑتا تھا کہ اس زمانے میں گیس چولہے تو دور کراسن اسٹو بھی استعمال نہیں ہوتے تھے۔کوئلے کی انگیٹھی والے چولہے پر سب کچھ پکانا پڑتا تھا جس کے لئے آگے سے تیاری کرنی پڑتی تھی۔)اور پھر باہر والے کمرے میں چلے آتے جہاں طلبا کا پہلا گروپ ان کا منتظر ہوتا۔ ایک گروپ کے اٹھنے سے پہلے باہر دوسرا گروپ انتظار میں تیار کھڑا ملتا۔یوں یہ سلسلہ دس ساڑھے دس تک چلتا جس کے دوران انہیں کرسی سے اٹھنے کی بھی فرصت نہ ملتی۔ امّی اندر سے ہمارےہاتھوں چائے کی پیالی بھیجواتیں۔ساڑھے دس بجے ان کا دوپہر کا کھانا تیار رکھا ملتا۔ کھانا کھاتے ہی فوراً کپڑے تبدیل کرتے، جوتوں پر ڈرائی برش چلاتے اور اپنی سائیکل لے کر اسکول کو روانہ ہو جاتے۔ساڑھے چار بجے اسکول سے لوٹتے تو طلبا و طالبات کا گروپ میز کے گرد گھیرا ڈالے تیار ملتا۔ہاتھ منہ دھو کر فوراً کرسی سنبھالتے۔پہلے یا دوسرے گروپ کے دوران امّی چائے کے ساتھ کچھ ہلکا پھلکا ناشتہ بھیجواتیں۔پھر یکے بعد دیگرے طلبا کے گروپس کے آنے اور جانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ درمیان میں دو ایک بارصرف چند سکینڈ کے لئے کرسی سے کھڑے ہوتے، انگڑائیاں لیتے، جسم کی کئی ہڈّیاں بیک وقت بج اٹھتیں اور پھر ایک جمائی کے ساتھ دوبارہ کرسی پر بیٹھ جاتے۔رات نو بجے آخری گروپ کے ر خصت ہونے کے بعد تھوڑی دیر کرسی پر خاموش بیٹھے گویا توانائی بحال کرنے کی کوشش کرتے۔ پھر رات کا کھانا کھانے کے بعد دس پندرہ منٹ کے لئے گھر کے سامنے سڑک کے کنارے کنارے ٹہلتے، کچھ دوستوں سے ادھر ادھر کی گفتگو ہوتی اور پھر واپس آکر تھوڑی دیر اخبار یا ابن صفی کےناول پڑھتے اور پھر نیند کا غلبہ ہوتے ہی سو جاتے۔چھٹیوں کے دن سہ پہر کو اکثر بستر پر لیٹ کر ہم سے پیٹھ، کمر اور ہاتھ پاؤں دبواتے۔ دبانا کیا، ان کے بدن پر کندھے سے تلوؤں تک ہم ”چہل قدمی“ کرتے جو ہم بخوشی کرتے بلکہ بعض اوقات حکم کے منتظر رہتےکیوں کہ بطور ”اجرت“ ہمیں ہمارے پسندیدہ مونگ کے لڈّو کھانے کو ملتے جو سامنے کی دکان میں ہمیشہ دستیاب ہوتے۔ بعض اوقات انگلیاں چٹخانے کی بھی الگ سے اجرت ملتی۔کچھ برسوں کے بعد جب ان کی ہڈیاں چوبی کرسی کے تختوں کی سختی برداشت کرنے میں ناکام رہنے لگیں تو اس پر اسفنج کا ایک کشن رکھ کر اس کی سختی کم کرنے کی کوشش کی گئی۔درجہ نہم کےطالب علم ہوں یا دوازدہم کے، وہ ہر گروپ کو پورے پانچ دن لگاتار پڑھاتے تھے۔ سنیچر اور اتوار کے دو دن اپنے لئے رکھتے تھے۔خاص طور سے اتوار کو وہ صبح ناشتہ کر کے جو دوستوں میں نکلتے تو پھر دوپہر کھانے سے قبل گھر نہیں لوٹتے تھے بلکہ اکثر و بیشتر انہیں بلوانا پڑتا تھا۔شطرنج کی بساط بچھتی، شاعری ہوتی، دوسروں کے کلام پر اصلاح دیتے۔
پرائیویٹ ٹیوشن دینے کے معاملے میں ابا کا ایک منفرد اصول تھا۔انہوں نے دور کے رشتے داروں، ساتھیوں، دوستوں اور قریبی شناساؤں کے بیٹے بیٹیوں کو تو بلا معاوضہ پڑھایا ہی، کسی بھی ٹیچر کے بیٹے بیٹیوں کوپڑھانے کی بھی کبھی فیس نہیں لی ، چاہے وہ اجنبی ہوں، غیر مسلم ہوں، یا پھر ہندی یا بنگلہ میڈیم کے ہوں۔ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ کسی اسٹوڈنٹ کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ اس کے والد کسی پرائمری اسکول میں ٹیچر ہیں۔بس پھر کیا تھا...اس وقت تک کی ادا کی گئی کل تین مہینوں کی فیس ایک ساتھ واپس کر دی اور آئندہ فیس نہ دینے کی ہدایت دے دی۔میرے ہم جماعتوں میں سے کئی ایک ساتھ ایک ہی ٹیچر کے پاس ٹیوشن پڑھتے تھے۔ لائف سائنس کے ایک ٹیچر نے ہمارے ایک غریب ہم جماعت کو دو مہینے سے فیس ادا نہ کرسکنے کی پاداش میں ٹیوشن میں آنے سے منع کر دیا۔ ہم تمام دوستوں نے اپنی اپنی طرف سے پیسے یکجا کر کے اس کی فیس ادا کی اور اس کا کورس مکمل کروایا۔ میرے وہ تمام دوست ابا کے پاس بھی انگریزی کی ٹیوشن پڑھتے تھے سوائے اس غریب ہم جماعت کے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ابا سے اسے فری میں ٹیوشن پڑھانے کی التجا کی اور انہوں نے فوراً اسے جوائن کرنے کو کہلوا دیا۔ ایک دوسرے موقع پر ایک غیر مسلم طالب علم نے اچانک ٹیوشن آنا بند کر دیا۔ ابا کو فکر ہوئی۔ گروپ کے لڑکوں سے معلوم ہوا کہ مالی تنگی کے باعث وہ ٹیوشن جاری رکھنے سے معذور ہے۔انہوں نے دوسرے ہی روز اسے بلوا بھیجا اور کہا کہ جب پیسے ہوں تب دینا، نہ ہوں تو مت دینا مگر فائنل امتحان تک پڑھائی جاری رکھو۔
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ابا کو سائیکل پر ہی اسکول جاتے آتے دیکھا۔ گرچہ انہوں نے کئی بار اپنے طلبا کے سامنے بائیک خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن دوسرے ہی جملے میں بظاہر از راہِ مذاق اس منصوبے کو رد بھی کردیتے یہ کہتے ہوئے کہ ’ پھر سوچتا ہوں ہوں اسکول کے بہت سے بچے جو میرے نام سے واقف نہیں ہوں گے مجھے ’بائیک والے ماسٹر جی‘ کا نام دے دیں گے‘۔لہٰذا سائیکل کا سفر تیسری دہائی میں داخل ہو گیا۔ لیکن تیسری دہائی مکمل ہونے سے قبل ہی ڈاکٹر نے سائیکل سواری پر پابندی لگا دی کیوں کہ ان کے ہرنیہ کے لئے تقریباً تین دہائیوں کی سائیکلنگ ذمّہ دار قرار پائی۔ مقامی سرکاری اسپتال میں داخل ہوئے ۔آپریشن ہوا۔ پھر بیڈ ریسٹ کے بعد بذریعہرکشہ ماہانہ معین کرائے پر ملازمت کے آخری دو ایک سال اسکول آتے جاتے رہے۔اسی بیڈ ریسٹ کے دوران جب میں ابا کی تنخواہ لینے اسکول پہنچا تو نہ صرف پہلی بار ان کی تنخواہ کا علم ہوا(مجھے آج بھی ایک ہزار چھ سو پینسٹھ روپےکی رقم اچھی طرح یاد ہے) بلکہ کچھ ایسے انکشافات ہوئے کہ آنکھیں نم ہو گئیں۔اسکول کی منیجنگ کمیٹی کے سکریٹری اور دو ایک اساتذہ جو ابا سے بہت قریب تھے نے بتایا کہ ابا کے پروویڈنٹ فنڈ میں بہت کم پیسے بچے ہیں اور سبکدوشی کے وقت کوئی خاص رقم نہیں ملے گی۔ان کے مطابق، ان لوگوں نے ابا کو بارہا اووَر ڈرون سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن بےتحاشہ گھریلو اخراجات کے سبب وہ مجبور تھے۔پھر سکریٹری صاحب نے میرے کندھے پر اپنا ہا تھ رکھتے ہوئےبڑی نرمی سے کہا ”آپ لوگوں کو نہیں معلوم کہ آپ کے ابا نے آپ لوگوں کی پرورش اور پڑھائی لکھائی کے لئے کیا کیا نہیں کیا...“
ان کی سبکدوشی سے چند مہینے قبل ایک روز شام کو کلکتے سے ہمارے ایک رشتے دار اچانک آ گئے۔ وہ ایک ڈبلو بی سی ایس آفیسر تھے اور کسی سرکاری کام سے بارک پور آئے ہوئے تھے۔ سوچا چلتے چلتے کانکی نارہ میں ہم لوگوں سے ملاقات کر لیں۔گرچہ ابا کا اسکول چار ساڑھے چار بجے ختم ہو جاتا تھا مگرواپسی میں کسی سے ملاقات یا کچھ شاپنگ کرنے کے سبب وہ کبھی کبھار دیر سے گھر لوٹتے تھے۔ امّی نے اسی خدشے کے تحت مہمان کی آمد کی اطلاع دینے کے مقصد سے مجھے ان کے اسکول بھیج دیا۔ جب میں ماموں کی سائیکل لے کر اسکول پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔اسکول کی چھٹی ہو چکی تھی۔ تمام بچے اور ٹیچر جا چکے تھے۔ میں سنسان راہداریوں سے ہوتا سیڑھیوں سے لپکتا ہوا دوسری منزل پر ہیڈماسٹر (رام دھنی پرشاد) کے کمرے میں پہنچا۔دیکھا وہ اپنے بیگ میں کاغذات سمیٹتے ہوئے روانگی کی تیاری کر رہے تھے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ دوسری منزل پر ہی سامنے دائیں گوشے والے روم میں الیون آرٹس کا کلاس لے رہے ہیں۔میں دم بخود اس کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔ چپراسی دیگر تمام کمروں کی کھڑکیاں ، دروازے اور پنکھے بند کرتا جا رہا تھا۔میں باہر انتظار کرتا رہا۔ کلاس ختم ہونے پر جب وہ کمرے سے باہر نکلے تو مجھے دیکھ کر تھوڑے چونکے۔ جب میں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا تو کہا ’ٹھیک ہے تم چلو، میں آتا ہوں‘۔ میں بھی تدریسی پیشے سے منسلک ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ سینئر اور سبکدوشی کے قریب ٹیچروں کو کم پیریڈ دئیے جاتے ہیں، اور آخری دو ایک پیریڈ سے تو انہیں خاص طور سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے۔لیکن ابا کا اس عمر میں اتنی دیر تک کلاس لینا ان کی فرض شناسی، احساسِ ذمّہ داری، توانائی اور تعاون بہ سلسلۂ روٹین کا بین ثبوت تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی بہت سی جمع شدہ میڈیکل چھٹیاں بھی ضائع ہو گئیں۔ اگر وہ چاہتے تو سبکدوشی سے چند مہینے قبل گھر بیٹھ کر بھی تنخواہ لے سکتے تھے۔
اپنا مکان ہر شخص کا خواب ہوتا ہے،زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے جس کی تکمیل عموماً سبکدوشی کے وقت یا اس کے بعد ہی ہوتی ہے۔ابا کے سپنوں کا مکان ایسا تھا جس کے ہر کمرے میں منسلک باتھ روم ہوتا مگر بڑی فیملی اور چھوٹی زمین کے سبب اس خواب کو حقیقت کا لبادہ پہنانا ممکن نہ ہو سکا۔جب مکان کی بنیاد رکھی جار ہی تھی اور ستون کھڑے کئے جا رہے تھے تو ابا کا بیشتر وقت مزدوروں کے ساتھ گزرتا۔ وہ ان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے گپ شپ کرتے جس کی وجہ سے مزدوروں کا بھی کام میں خوب من لگا رہتا۔ لیکن کام میں دلچسپی کا سبب صرف ابا کی گفتگو نہیں تھی بلکہ چاکلیٹ کا وہ پیکٹ بھی ہوتا جس میں سے ہر مزدور اور مستری کو وہ وقفے وقفے سے ایک ایک چاکلیٹ یا ٹافی کھلاتے رہتے۔یہ دن میں دو تین بار چائے کے دوَر کے علاوہ ہوتا۔بعض اوقات یہ مزدور ابا کی فیاضی کا کچھ غلط فائدہ بھی اٹھاتے گو ابا ان کی بہانے بازی کی عادتوں سے بخوبی واقف ہوتے۔ہمارے نبیؐ کی حدیث ہےکہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری دے دو، مگر ابا اکثر ان کا پسینہ نکلنے سے پہلے ہی ان کی مزدوری دے دیتے (پیشگی یا قرض کی التجا پر)اور وہ بعض اوقات کئی کئی دن پسینہ نکالنے کی زحمت ہی نہ اٹھاتے (بلا اطلاع ناغہ کر جاتے)۔
ابا ہمارے خاندان (دادیہال و نانیہال دونوں )کے مربی تھے۔ اپنی تعلیمی لیاقت، ادبی حیثیت اور سوشل اسٹیٹس کے سبب پورے خاندان میں ہی نہیں بلکہ پورے کانکی نارہ وگارولیا (شیام نگر) میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ادبی و تعلیمی لحاظ سے وہ مضافات کی سب سے قدآور شخصیت تھے۔محلّے میں کوئی بھی ادبی یا تعلیمی تقریب ان کی شمولیت کے بغیر ادھوری مانی جاتی تھی۔کسی بھی خاندانی تنازعے کا تصفیہ ان کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ شادی بیاہ کے بیشتر معاملے میں بھی ان کی رائے اور فیصلے کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی۔یہاں تک کہ محلے کے بعض تنازعے جب دیگر بزرگوں سے حل نہ ہو پاتے تو دونوں فریقین کے بےحد اصرار پر منصفی کا کردار ادا کرنے پر راضی ہوتے مگر اس شرط پر کہ دونوں فریقین فیصلے کو قبول کریں گے۔ایسے ہی ایک تنازعے میں جس میں ایک فریق ہمارا رشتے دار تھا ابا کا فیصلہ رشتے دار کے خلاف گیا کیوں کہ وہ خود اپنے اس شعر کی تشریح نہ بن سکے ؂
درد اپنوں کا ہر انصاف کے سینے میں حشم
لاکھ انکار کریں آپ مگر ہوتا ہے
نتیجہ، اس رشتے دار سے اَن بن ہو گئی اور اس نے پھر ابا سے کبھی بات نہیں کی۔
ابا بلا کے خود دار تھے مگر انانیت نام کو نہیں تھی۔خود دار اتنے کہ صاحب فراش ہونے سے قبل جب ریلنگ کے سہارے آہستہ آہستہ چھت کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہوتے اور کوئی انہیں سہارا دینے کی کوشش کرتا تو آہستگی سے ہاتھ جھٹک دیتے اور ایسی نگاہوں سے دیکھتے گویا کہہ رہے ہوں ’ابھی اتنا معذور نہیں ہوا ہوں‘۔ بےروزگاری کے دنوں میں کسی اسکول میں آٹھ نو مہینے کی ڈیپوٹیشن وکینسی پر تقرری کے لئے میں نے بھی دو ایک بار درخواست دی تھی۔لیکن جب پتہ چلا کہ انٹرویو سےقبل دیگر امیدواروں کی جانب سے منیجنگ کمیٹی کے سکریٹری اور سلیکشن کمیٹی کے دیگر ممبران کے نام سفارشی خطوط کا تانتا لگ جاتا ہے تو میں نے بھی ایک موقع پر ابا سے ایک سفارشی خط لکھ دینے کی گزارش کر ڈالی کیوں کہ اس اسکول کے انچارج ابا کے سابق اسٹوڈنٹ ہوا کرتے تھے۔ابا نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں جس قابل بنا سکتے تھے بنا دیا اب آگے کچھ بھی صرف اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر حاصل کرنا تھا۔ایک بار کلکتہ دور درشن کی اردو نیوز سروس کی طرف سے اردو نیوز ریڈر کے لئے انٹرویو دینے گولف گرین جانا تھا۔ یہ سوشیل گپتا کا دَور تھا۔ معلوم ہوا کہ انٹرویو پینل میں انیس رفیع صاحب بھی ہوں گے۔ مجھے علم تھا کہ انیس رفیع صاحب سے ابا کے مراسم تھے۔ جب لوگوں نے کان بھرنا شروع کیا کہ وہاں تو خاص طور سے سفارش اور پیروی کے بغیر کام نہیں بنے گا تو میں نے ڈرتے ڈرتے ابا سے انیس رفیع صاحب کے نام ایک سفارشی خط لکھ دینے کی گزارش کی۔ توقع کے مطابق جواب انکار میں آیا یہ کہتے ہوئےکہ اس قسم کے جاب کے لئے سفارش نہیں صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔تم بےفکر ہو کر آڈیشن میں جاؤ، صلاحیت ہوگی تو تمہارا انتخاب ہو جائے گا۔
دیانت داری ا ور اصول پسندی کا یہ عالم تھا کہ کئی دوستوں کی ناراضگی مول لی تھی۔جب ابا میٹرک اور ہائر سکنڈری کے ممتحن تھےتو آئے دن دوست یار اپنے بیٹے بیٹیوں اور رشتے داروں کے رول نمبر بھیجوایا کرتے۔ابا کے معذرت چاہ لینے پر تعلقات کشیدہ ہو جاتے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ نظر آیا۔ ابا نے ایگزامنر شپ ہی چھوڑ دی۔ایک بار ایسا ہوا کہ ابا کے کچھ دوستوں نے اطلاع دی کہ بڑے بھائی احمد کمال حشمی کے میٹرک امتحان کے کسی مضمون کی کاپی کلکتے کے ایک ممتحن کے یہاں ہے۔ اگر وہ ان سے مل لیں تو اس مضمون میں بآسانی زائد مارکس کا اضافہ ہو جائے گا۔ابا نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔ میٹرک کا نتیجہ نکلنے پر پتہ چلا کہ صرف دو مارکس کی کمی کے سبب بھائی فرسٹ ڈویژن سے محروم رہ گئے !
ابا تلفظ کے معاملے میں بڑے سخت تھے۔ گھر میں آپسی گفتگو کے دوران بھی اگر کسی کی زبان سے کسی لفظ کا غلط تلفظ سن لیتے تو فوراً ٹوک دیتے تھے۔ہمارے ناموں کے ٹائٹل کے معاملے میں وہ کچھ زیادہ ہی حسّاس تھے۔جہاں کسی کی زبان سے ”حشمی“ کے بدلے ”ہاشمی“ سنتے فوراًپوری وضاحت کے ساتھ تصحیح فرماتے۔اُن دنوں اکثر اخبارات و رسائل میں جہاں جہاں ہم چھپتے تھے، مدیران یا کاتبین ہمارے ناموں میں اس طرح کی ”اصلاح“فرما کر ہمیں بڑی کوفت میں مبتلا کر دیتے۔ابا سخت ناراض ہوتے اورہمیں متعلقہ اخبار یا رسالے کے مدیر کو فوراً خط لکھ کر وضاحت کرنے کا حکم دیتے (اس مسئلے سے ہم آج بھی ایک حد تک نبرد آزما ہیں)۔لیکن جہاں تک ہماری تخلیقات کا تعلق تھا بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ ابا نے پوری زندگی کبھی بھی ہماری تخلیقات کی اصلاح نہیں کی۔ ہم نے کبھی انہیں اپنی تخلیقات دکھانے کی ہمت کی، نہ ہی انہوں نے کبھی اس کا مطالبہ کیا۔الٹے، ہمیشہ ہمیں ان ”فضول کاموں“ سے باز رکھنے کی کوشش کی، سختی کی ، یہاں تک کہ ڈانٹا بھی، یہ کہتے ہوئے کہ ”ان سب کاموں کے لئے ساری عمر پڑی ہوئی ہے۔ ابھی صرف پڑھائی پر دھیان دو۔ یہ کیرئیر بنانے کا وقت ہے جس کا موقع دوبارہ کبھی نہیں ملے گا...“۔بعد میں معلوم ہوا کہ جب وہ سنٹرل کلکتہ کالج (موجودہ مولانا آزاد کالج) میں زیر تعلیم تھے تو انہیں شاعری کرتے دیکھ کر ان کے استاد پروفیسر عباس علی خاں بیخود صاحب نے تقریباً ان ہی الفاظ میں ان کی سرزنش کی تھی۔ہماری ادبی سرگرمیوں سے وہ اس قدر لاتعلق رہے کہ جب بڑے بھائی احمد کمال حشمی کا اوّلین شعری مجموعہ ”سفر مقدر ہے“ منظرِ عام پر آیا تو انہوں نے کسی موقع پر اپنے بیٹے کی شاعرانہ صلاحیت پر مسرت آمیز حیرت کا اظہار کیا۔ قیصر شمیم صاحب نے ان کے اظہارِ حیرت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ”آپ ہی کا خون ہے، صلاحیت تو موروثی ہے۔اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟“
ابا کی لسانی و تنقیدی صلاحیتوں کے تعلق سے اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر انہوں نےادبی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار نہ کی ہوتی تو آج وہ ہندوستان کے ماہرینِ اقبالیات میں شمار کئے جاتے۔ہمیں نہیں معلوم یہ پرخلوص اعتراف تھا یا شاگردوں کی عقیدت اور دوستوں کی محبت بول رہی تھی مگر ایک بات تو پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر وہ ادب سے کنارہ کش نہ ہوئے ہوتے تو آج ان کی اولادوں میں چار ٹیچر اور دو اعلیٰ عہدے پر فائز گورنمنٹ آفیسرز نہ ہوتے۔ انہوں نے تدریسی و خانگی ذمہ داریوں کی قربان گاہ پر اپنے ادبی ذوق کا گلا گھونٹ ڈالا تھا۔
جب باپ کا جوتا بیٹے میں فٹ ہونے لگے تو اسے دوست بنا لینا چاہئے۔ابا اس قول کے کبھی قائل نہیں رہے۔انہوں نے اپنی تمام تر شفقت کے باوجود باپ بیٹوں کےدرمیان ایک مخصوص دوری بنائے رکھی۔ یہی وجہ تھی کہ ابتدائی دَور میں جب بھی ہمیں کسی سنیما گھر میں کوئی فلم دیکھنی ہوتی، سرکس شو دیکھنے یا میلے میں جانے کی خواہش ہوتی تو پہلے ”ذیلی عدالت“ میں عرضی داخل کرتے ، یعنی امّی کے توسط سے ابا تک درخواست پہنچتی اور اسی چینل سے اجازت نامہ بھی وصول ہوتا۔البتہ ابا کو کبھی پان سے شغل کرتے دیکھتے (جو کہ شاذ و نادر ہی ہوتا) تو بلا خوف و تردد براہِ راست ”عدالت عظمیٰ“ میں عرضی دیتے کیوں کہ پان منہ میں ہونے کا مطلب تھا ابا کافی اچھے موڈ میں ہیں۔ہم انہیں ہنسی مذاق کے موڈ میں بہت کم دیکھتے تھے۔ لہٰذا ایسے کسی موقعے پر ہم پہلے چونکتے،بعد میں محظوظ ہوتے۔ایک بار ہم سب رات کے کھانے پر بیٹھے تھے کہ ابا کمرے میں داخل ہوئے اور کہا ”تم سب کے سب لَت خور ہو گئے ہو...لات کھانے سے باز نہیں آؤگے۔“ کمرے میں ایک دم سنّاٹا چھا گیا۔ ایسی کیا بات ہو گئی؟ کس سے کیا قصور ہو گیا؟ ہم دم بخود ابا کو تکنے لگے۔ پھر انہیں ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ہماری پیالیوں کی طرف دیکھتے ہوئے پایا تو ان کے جملوں کا مفہوم سمجھ میں آیا اور ہم بےساختہ ہنس پڑے۔امّی نے اس دن پائے پکائے تھے!
منجھلے بھائی (ارشد جمال حشمی) کی شادی کی لگن سے ایک روز قبل ابا کوbrain haemorrhage ہوا جس کے نتیجے میں ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ فالج کی نوعیت بھی ایسی کہ مقامی ڈاکٹر بھی کچھ سمجھنے سے قاصر تھے۔لہٰذا ابتدائی جانچ کے بعد کلکتہ ریفر کر دیا۔وہ منہ میں کچھ بھی کھانے یا پینے کی چیز لیتے تونگلنے کی کوشش میں وہ فوراًباہر چلی آتی۔ ابا اپنی کیفیت کے اظہار میں صرف اتناہی کہہ پائے کہ انہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے انہوں نے زندگی میں کبھی نگلنا سیکھا ہی نہ ہو۔آواز بھی غیر واضح ہو گئی تھی۔ کلکتہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں نے Palatal Palsy (تالو کا فالج) تشخیص کی۔ ناک کے راستے معدے تک ٹیوب داخل کیگئی جو اسپتال میں دورانِ علاج اور ڈسچارج ہونے کے چند مہینوں بعد تک مستقلاًلگی رہی۔ اس کا باہری سِرا پیشانی پر ٹیپ کی مدد سے چپکا دیا گیا تھا۔کھانے کے وقت قیف کی مدد سے اسی ٹیوب کے راستے رقیق غذا معدے میں داخل کی جاتی۔اخبارات میں یہ خبر شائع ہوتے ہی شاعر، ادیب اور ادب نواز ملاقاتیوں اور دیگر بہی خواہوں کا گرین بلڈنگ میں ایسا تانتا لگ گیا کہ ڈیوٹی نرس نے ایک بار پوچھ ہی لیا ”کھوب بِکھّاتو لوک نا کی؟ (بہت مشہور آدمی ہیں کیا؟)“۔ادھر دن رات ہمیں یہ فکرکھائے جا رہی تھی کہ ابا کا گلا کب تک کھلے گا۔وہ کب تک اپنے منہ سے کھانا کھانے کے قابل ہو پائیں گے؟کیا ان کی آواز جو اس فالج کے زیرِ اثر غیر واضح ہو گئی تھی پھر سے بحال ہو پائے گی؟ ڈاکٹر نے بتایا کہ مسلسل کچھ مہینوں تک علاج کے بعد خود سے کھانے اور بولنے کے قابل ہو جائیں گے مگر صورتِ حال صد فیصد بحال کبھی نہیں ہو سکے گی۔مزید استفسار اور وضاحت کی التجا پر اس نے بتایاکہ حد سے حد ستر فیصد تک حلق کھل سکتا ہے مگر اس سے زیادہ ناممکن ہے۔گھر لوٹتے ہی سب سے پہلے علاقے کی مسجدوں کے ائمہ کے نام رقعہ بھیجوا کر نماز میں دعاؤں کی اپیل کی گئی۔ہم سب بھی نمازوں کے اور زیادہ پابند ہو گئے۔اب یہ ابا کی نیکیاں تھیں یا ان کے چاہنے والوں کی دعاؤں کا اثر کہ چند مہینوں میں ہی خود سے کھانا کھانے کے قابل ہو گئے (گو کہ نوالہ نگلنے میں تھوڑی مشقت کا احساس تا حیات رہا) مگر آواز صد فیصد بحال ہو گئی۔دعائیں دواؤں پر سبقت لے گئیں۔
وفات سے کوئی سوا تین سال قبل ایک بار پلنگ سے اترتے وقت اچانک ان کا بدن جو خم ہوا تو پھر وہ اسی حالت میں رہ گئے، ہاتھ پاؤں ہلانے سے قطعی معذور۔فوراً اسپتال لے جایا گیا۔متعدد طبی جانچوں کے بعد پتہ چلا کہ ان کی کمر کے حصّے میں ریڑھ کی دو ہڈیوں کے درمیان ایک مخصوص عصبہ دب گیا ہے جس کے باعث دونوں پاؤں مفلوج ہو چکے ہیں۔ماہرین کی رائے کے مطابق، آپریشن کے ذریعہ اس عصبے کو آزاد کیا جا سکتا ہے لیکن ابا کی عمر اور ذیابطیس کی شکایت کے سبب آپریشن خطرے سے خالی نہ تھا لہٰذا اس کی سفارش نہیں کی جا سکتی تھی۔ مزید برآں، اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ متاثرہ عصبہ آزاد ہونے کے بعد نارمل بھی ہو جائے اور ابا کی جسمانی حالت بحال ہو جائے۔ لہٰذا ڈاکٹروں کے مطابق ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انہیں گھر لے جائیں اور ان کی خدمت کر کے ثواب کمانے کی کوشش کریں۔تین سال تین مہینے تک گھر کے سبھی لوگوں اور کچھ قریبی رشتے داروں نے ان کی خدمت کی لیکن ثواب کا بہت بڑا حصہ چھوٹے بھائی شاہد جلال حشمی اور چھوٹی بہن فرحت نشاط حشمی نے اپنے نام کئے۔بتدریج پاؤں کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی حرکت سے معذور ہونے لگے۔ پھر حالت یہاں تک پہنچی کہ صرف گردن ہلانے اور گفتگو کرنے کے قابلرہے مگر پہلو اور کروٹ بدلنے سے قطعی معذور۔ان ہی دنوں ان کی تیسری اور آخری کتاب ”میری غزلیں“ کا اجراء ہوا جس میں وہ بہ نفس نفیس شرکت کرنے سے معذور تھے۔ لہٰذا ہم نے پوری تقریب کی مکمل ویڈیو ریکارڈنگ انہیں لیپ ٹاپ پر دکھائی۔
اپنی وفات سے چار پانچ روز قبل انہوں نے خود کو زیادہ سےزیادہ ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔شایدپے درپے درہم برہم ہوتے اندرونی نظام میں انہیں اپنے آخری سفر پر روانگی کا بگل سنائی دینے لگا تھا۔
انہوں نے زندگی میں کبھی ہمیں نماز روزے کی تلقین نہیں کی مگر ہم سب حتی المقدور نماز روزوں کے پابند ہیں۔ہماری تخلیقات پر اصلاح تو دور کبھی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی مگر ہماری جو بھی ادبی شناخت ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔انہوں نے پوری زندگی ہمیں قابل بنانے کی کوشش کی، کامیاب بنانے کی نہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ’قابل بنو، کامیابی خود قدم چومے گی‘۔ اگر ہماری کامیابیوں میں کوئی کمیاں ہیں تو اس کی ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہیاں ہیں۔انہوں نے تو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

***
jawednh[@]gmail.com
موبائل : 09830474661
B-5, Govt. R.H.E., Hastings, 3, St. Georges Gate Road, Kolkata-22
جاوید نہال حشمی

Our Father - Article by Jawed Nehal Hashami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں