خدا علی گڑھ کے مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-05-09

خدا علی گڑھ کے مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے

Aligarh Muslim University
نہیں جناب، یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں۔ یہ تو آج سے قریب سوا سو سال پہلے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا جو بانی علی گڑھ سر سید علیہ الرحمہ سے ان کی زندگی بھر اللہ واسطے کے بیر کا سخنورانہ مظاہرہ کرتے رہے تھے۔ سر سید کے مدرسۃ العلوم مسلمانان کا افتتاح آج سے142برس پہلے اسی ماہ مئی کی24تاریخ کوہوا تھا جو پہلے محمڈن اینگلو اورنٹیل کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا ۔ کالج تو حضرت اکبر کو بالکل ہی ہضم نہیں ہوا تھا اور وہ یہاں تک کہہ بیٹھے تھے کہ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا ، افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی ۔ لیکن اس کے یونیورسٹی بن جانے پر انہوں نے کوئی اظہار خیال نہیں فرمایا تھا۔ غالباً ضعیفی اور نا توانی کے سبب کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ1920کے منظر عام پر آنے کے چند ماہ بعد ہی وہ بھی عالم بالا میں سر سید سے جا ملے تھے جو کہ اپنے مدرسے کے افتتاح کے23سال بعد ہی جنت نشین ہوچکے تھے ۔1931-81کی درمیانی آدھی صدی میں علی گڑھ کے ایکٹ میں مختلف مقاصدسے تبدیلیاں کرنے کے لئے نو عدد تر میمی ایکٹ پاس ہوئے ، پانچ آزادی سے پہلے اور چار اس کے بعد ، جن میں سب سے زیادہ مشہور اور بد نام1965ء کا ترمیمی قانون تھا جس کے نتیجے میں اس عظیم تعلیمی ادارے سے متعلق سپریم کورٹ آف انڈیا کا عزیز باشا کے نام سے معروف1968کا فیصلہ آیا تھا جسے ملک کی عدالت عظمیٰ کے بد ترین فیصلوں کی فہرست میں شامل مانا جاتا ہے ۔دستوریات ے ماہرین کی صف اول کے ایک نہایت معتبر نام آنجہانی ایم ایم شیر وائی نے آئین ہند پر اپنی کتاب میں جسٹس کے این وانچو کے اس قطعاً ناقص فیصلے اور تبدیلی مذہب سے متعلق آئینی دفعہ کی عجب و غریب تشریح کرنے والے1977کے جسٹس اے این رے کے ایک فیصلے پر لفظ بہ لفظ مشترک تبصرہ کیاتھا کہ یہ فیصلہ صاف طور پر غلط اور شدید عوامی فتنہ پیدا کرنے والا ہے اسے ضرور منسوخ کیاجانا چاہئے ۔
جس ادارے کو جوش ملیح آباد نے جواں قسمت دبستان کہن کے نام سے یاد کیا تھا وہاں ہماری پہلی حاضری بحیثیت طالب علم1961میں ہوئی تھی جب ہم لکھنو یونیورسٹی سے قانون کی ابتدائی ڈگری لے کرمزید تعلیم کے لئے وہاں پہنچے تھے ۔ دو سال بعد ہم خالی ہاتھ آئے تھے ساغربکف چلے ، اور قریب سوا سال مشرقی یوپی کے دو لاکالجوں کی خاک چھاننے کے بعدبہ حیثیت استاد علی گڑھ واپس آکر1966کے اواخر تک وہیں مصروف تدریس رہے۔ وائس چانسلر نواب علی یاور جنگ کے خلاف برپا ہونے والی طلباء کی اس شورش کے ہم چشم دید گواہ تھے جس پر تلملا کر وقت کے وزیر تعلیم محمد علی کریم بھائی چھاگلا نے یونیورسٹی سے متعلق1965ء کا مذکورہ بالا ترمیمی ایکٹ پاس کروایا تھا ۔ تین سال بعد مقدمہ عزیزب اشا کا فیصلہ آیا تو ہم دہلی منتقل ہوکر یہاں رہائش پذیر ہوچکے تھے اور ایک تاریخی حقیقت کو جھٹلانے والے اس فیصلے کے خلاف ملت کی مزاحمتی تحریک ے جملہ مراحل کو قریب سے دیکھا تھا جس کے چوٹی کے رہنماؤں میں ہمارے والدم حترم مرحوم و مغفور بھی شامل تھے ۔ چار سال کی طویل جدو جہد کے بعد علی گڑھ سے متعلق1972کا ترمیمی ایکٹ پاس ہوا تو ملت اس سے خاصی مطمئن نظر آئی، کیونکہ اس کے تحت بر سر اقتدار پارٹی نے (جسکے شاطرانہ دلائل کی بنیاد پر ہی عدالت عظمیٰ نے اپنا عزیز باشا والا فیصلہ سنایا تھا) اب سیاسی مجبوریوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہندوستان کے مسلمانوں کا قائم کردہ ادارہ جو کہ محمڈن اینگلو اورنٹیل کالج کی حیثیت سے شروع ہواتھا اور جسے بعد میں یونیورسٹی کا درجہ دیاگیا تھا۔تسلیم کرلیا تھا ۔ علی گڑھ کے معاندین کی کمی بہر حال اس کے بعد بھی نہیں رہی اور فتنے وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہے، کبھی وہاں کی رزرویشن پالیسیوں کے خلاف تو کبھی وہاں ہونے والی مبینہ انتظامی اور مالی بد عنوانیوں کے نام پر۔ 2005میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک متعصب جج نے علی گڑھ کا اقلیتی کردار بحال کرنے والے1972کے ترمیمی ایکٹ کو نہ صرف غیردستوری قرار دیا بلکہ پارلیمنٹ کے اسے پاس کرنے کے اختیار کو ہی چیلنج کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ اس نہایت احمقانہ فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی تو گیند ایک بار پھر سپریم کورٹ کے پالے میں آگری اور آج تک وہیں معلق ہے ۔ کانگریس پارٹی جو برسوں کی در بدری ے بعد کچھ ماہ پہلے ہی اقتدار میں واپس آئی تھی اب وہ دوبارہ کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی اس لئے عدالت میں اسے اپیل کنندگان کے حق میں موقف اپنانا ہی پڑا لیکن اپنے دس سال کے دور حکومت میں اس نے اپیل کا فیصلہ جلد کرواے کے لئے کو ئی جدو جہد نہیں کی یہاں تک کہ نئی حکومت آگئی اور پھر اسے تو ظاہر ہے وہی سب کچھ کرنا تھا جو اس نے کیا، اس سے کوئی امید لگانا آزمودہ را آزمودن جہل است کے مصداق تھا۔
علی گڑھ میں ہمارے تقریبا پانچ سال کے قیام میں وہاں پہلے بشیر حسین زیدی، پھر بدر الدین طیب جی ، ان کے بعد علی یاور جنگ اور آخر میں پروفیسر عبدالعلیم وہاں کے وائس چانسلر تھے ۔ ان کے بعد بتدریج علی محمد خسرو، سیدحامد، ہاشم علی ، نسیم فاروقی اور محمود الرحمن صاحبان نے کمان سنبھالی اور ان سب سے بھی ہمارے علمی روابط رہے ۔ چنانچہ ادارے کے اندر اور باہر سے ہم نے وہاں کے حالات اور اس سے متعلق مسائل و رجحانات کاخوب مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ ہم وہاں کی رگ رگ سے واقف ہیں ۔ محمود الرحمن صاحب کی سبکدوشی کا وقت قریب آیا تو ہم قومی اقلیتی کمیشن کی صدارت سے فارغ ہوچکے تھے اور ہمارے کچھ علیگی بھائیوں نے اس عہدہ جلیلہ کے لئے ہمارا نام تجویز کرنے کا پلان بنایا مگر جب ہمارے عزیز دوست شاہ محمد بجلی مرحوم نے منظوریکے لئے ہم سے رابطہ قائم کیا تو ہم نے اپنے تجربات و مشاہدات اور اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر بار گراں اٹھانے سے معذرت کرلی۔ اورعلی گڑھ کو بہر حال ایک کے بعد ایک نعم البدل ملتے رہے ۔
جو صاحب اب ملک و ملت کے اس عظیم علمی اور تہذیبی ورثے کے نگران اعلی مقررہوئے ہیں ان کے لئے ہم یہی کہیں گے کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ داد ا مولانا عبدالخلاق آزادی سے قبل 18برس اور پدر بزرگوار پروفیسر حفیظ الرحمن آزادی کے بعد27برس علی گڑھ میں شعبہ قانون کے سربراہ رہے اور انہیں دونوں بزرگوں نے شعبہ کو معیار کمالات بنایا۔ اس خاندان سے ہمارا بھی پشت در پشت تعلق رہا ہے ، ہمارے والد محترم مرحوم و مغفور مولانا عبدالخالق علیہ الرحمہ کے شاگرد تھے اور ہمیں حفیظ الرحمن صاحب جنت مکانی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔ علی گڑھ میں ہم گاہے بگاہے اپنے استاد محترم کے دولت کدے پر حاضری دیتے تو وہاں ان کے فرزندوں سے بھی ملاقات ہوتی جن میں بڑے مرحوم رشید الظفر عرف رشو میاں تھے(جو برسوں بعد دہلی کے جامعہ ہمدردمیں ہمارے تحقیقی مشاغل کے آخری سالوں میں وہاں کے وائس چانسلر بنے تھے) اور چھوٹے بیٹوں میں طارق میاں سلمہ بھی تھے جو اس وقت طفل مکتب تھے ۔ جوان ہوکر انہوں نے ڈاکٹری کی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی اور میڈیکل کالج میں مصروف تدریس ہوئے، وہی میڈیکل کالج جس کا علی گڑھ کے مایہ ناز استاد پروفیسر ہادی حسن مرحوم کے دست مبارک سے افتتاح ہونے کا روح پرور منظر ہم نے بھی بچشم خود دیکھا تھا ۔ ترقی کی پر خطر راہیں انہوں نے بڑی تیزی سے طے کیں، کالج کے پرنسپل بنے اور بالآخر اب پوری یونیورسٹی کی ذمہ داری سنبھالنے جارہے ہیں۔
اب سے سوا سو سال پہلے حضرت اکبر الہ آبادی نے علی گڑھ کے تمام امراض کا جو شکوہ کیا تھاوہ اس وقت کا صحیح نہیں تھا لیکن آج بہر حال اس تاریخی ادارے کے مختلف الاقسام وبائی اور موسمی امراض میں مبتلا ہونے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اب جب کہ علی گڑھ ہی کے پروردہ ایک نامور اور ماہر فن سرجن نے ادارے کی سربراہی سنبھالی ہے توہم ایک سینئر علیگیرین کی حیثیت سے بڑی امیدوں کے ساتھ حضرت اکبر کی دعاخدا علی گڑھ کے مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے، کو دہرانا چاہیں گے اور پوری قوم یقینا اس دعا کی قبولیت کی گھڑی آنے کی راہ دیکھے گی ۔

(مضمون نگار قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئر مین اور لا ء کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن ہیں)

Good wishes for the new VC of AMU. Article: Prof. Tahir Mahmood

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں