مالی نظام سے 86 فیصد کرنسی کو ردی بنانے کا فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-11-14

مالی نظام سے 86 فیصد کرنسی کو ردی بنانے کا فیصلہ

demonetization-aftershocks
مالی نظام سے 86 فیصد کرنسی کو ردی بنانے کا فیصلہ
انسان کو پیسہ پیسہ کیلئے محتاج بنانے کا قابل مذمت فعل

پہلے سناٹا
پھر سنسنی
پھر سراسیمگی
اور اب سرپھٹول
چار دن میں 500اور 1000کے نوٹوں پر مشتمل ہندستانی مالیاتی نظا م میں گردش کرتی ہوئی 86فیصد کرنسی کو ردی کردینے کے فیصلے نے یہ رخ بدلے ہیں۔
ہندستان میں اس وقت کالا دھن ،جعلی کرنسی اور ٹیررفنڈ رکھنے والوں کا کیا حال ہے نہیں معلوم لیکن عام آدمی پیسے پیسے کی جو محتاجی جھیل رہا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ 10نومبر سے لوگ پیسے بدل وا نے کے لئے بینکوں میں لمبی لمبی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔ کل سے اے ٹی ایم کھلے تو بھی راحت نہیں ۔ کسی کے پاس دودھ کے پیسے نہیں ہیں ،کسی کے پاس دال نہیں ہیں کسی کے پاس دوا کے نہیں ہیں۔ یعنی ہندستان کا عام آدمی اپنا کما یا ہوا پیسہ اپنے پاس جما یا ہوا پیسہ ردی کاغذ وں کی طرح لے کر گھوم رہا ہے اور ضرورت کی چیز نہیں خریدسکتا ۔ جو 500اور 1000کے نوٹ ہیں وہ صرف کالا بازاری ،دھاندلی اور چوری میں استعمال ہورہے ہیں۔ ابھی بھی 500کے نوٹ 300میں بک رہے ہیں۔ 1000کے 600میں یعنی نوٹوں کی قوت خرید میں 40فیصد کی کمی ہوگئی اور اس کے بدلے نقدی کم آرہی ہے اور اونچی قیمت پر سامان زیادہ یہ صورتحال امکان سے بعید نہیں تھی کیونکہ دھاندلی ،بدعنوانی چوری موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ،دھوکا اور دھاندلی ہندستانی مزاج میں شامل ہے۔ شہر ،قصبات ،دیہات سب ایک طرح کی صورتحال سے گزررہے ہیں۔ نقدی سے سونا خریدنا تو ایک طریقہ تھا کالے دھن کو سفید بنانے کا لیکن یہ طریقہ دولت مندوں کا تھا اس عام آدمی کا نہیں جو اپنی حق حلال کی کمائی میں زندگی بسرکرنے کا عادی ہے ا ورجسے 500یا 1000روپئے کے نوٹ رکھنے میں کوئی دشواری نہیں تھی ۔ وہی نوٹ اس کے گلے کا پھندہ بن گئے ہیں۔ خود اپنا پیسہ بینک سے نکالنے کے لئے اسے دن دن بھر بینک کے سامنے کھڑا رہنا پڑ رہا ہے اور بعض صورتوں میں اپنی باری آنے کے بعد اسے یہ مایوس کن اطلاع ملتی ہے کہ بدل کر دی جانے والی قابل استعمال کرنسی ختم ہوچکی ہے۔یہ پوری مشق جس طرح کی تیاری کا تقاضہ کرتی تھی اس طرح کی تیاری نہیں کی گئی اور ہندستانی عوام پر کالادھن کی روک تھام یا جعلی کرنسی سے نجات کے نام پر ایک فیصلہ تھوپ دیا گیا ۔ا س فیصلے کو مزید جواز دینے کے لئے ایک اور پخ ٹیررفنڈنگ کی لگا دی گئی ۔
جس وقت مودی نے کرنسی بین کرنے کا اعلان کیا تھا لوگ سناٹے میں آگئے تھے۔ پھر پٹرول پمپوں پر نوٹ بھنانے کے لئے لگنے و الی بھیڑ کے ساتھ سنسنی آئی کیونکہ پمپ نقدی دینے کی بجائے پوری رقم کا پٹرول یا زیزل دے رہے تھے۔ اگلے دن بینک بند کرنے کا فیصلہ تھا ۔ اے ٹی ایم دودن کے لئے بند تھے۔ اور اس صورتحال میں ہندستان میں ہر صورت حال کا استحصال کرنے والے عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی ۔ نتیجے میں ایک زبردست قسم کا مالی بحران پورے ملک میں ہیجان پھیلائے ہوئے ہے۔ پورا کاروبار ٹھپ ہورہا ہے۔ جن جگہوں پر نقدی میں لین دین ہوتا ہے وہاں کاروبار نہیں ہے۔ چیک لینے کو کم لوگ تیار ہوتے ہیں۔ ڈھائی لاکھ روپئے جمع کرنے پر ٹیکس اور 200فیصد جرمانہ کی شرط مزید مانع ہورہی ہے۔ لہذا ایک ایسا منظر ابھرا ہے جو کسی بھی پھولتی پھلتی ہوئی معیشت کو کچھ دنوں کے لئے ٹھپ کردینے کو کافی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس پورے کھیل میں سازش کی بومحسوس کررہی ہیں۔ کچھ پارٹیوں نے کھل کر کہا ہے کہ بی جے پی کو 500اور 1000کے نوٹ بند کرنے اطلاع تھی ۔ اس لئے اس نے اپنے نوٹ پہلے ہی بدل لئے۔ اس وقت جب کہ گجرات ،پنجاب اور یوپی سمیت کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بعض پارٹیاں مالی طور پر اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کررہی ہیں۔ یہاں تک کہ اس فیصلے کے خلاف سیاسی پارٹیوں کا ایک بڑا اتحاد بنتا نظر آرہا ہے جس میں بنگال کی و زیراعلی ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس اپنے کٹر حریف سی پی آئی ایم کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بھی تیار ہیں۔ اس دوران ارون جیٹلی نے پہلی بار معاملے کی سنگینی محسوس کی ہے اور اس کا اعتراف کیا ہے کہ لوگ پریشان ہورہے ہیں۔ اور یہ پریشانی دوسے تین ہفتے تک جاری رہے گی ۔

منگل کو وزیراعظم نریندرمودی کے اس اچانک اعلا ن کے بعد کہ 500اور 1000کے نوٹ 8اور 9نومبر کے بیچ کی رات 12بجے سے بند ہوجا ئیں گے اور بہت خاص غیر معمولی حالات میں ہی ان نوٹوں کا استعمال ہوسکے گا ۔ پورا ملک ایک شدید قسم کے ہیجا ن میں مبتلا ہے۔ بینک کرنسی بدلنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اس کے باوجود آج تیسرے دن بھی لمبی لمبی قطاروں نے بینکوں اور اے ٹی ایم کے سامنے قابل استعمال کرنسی حاصل کرنے میں کوشاں لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے اور بعض مقامات پر احتجاج بھی شروع ہوگیا ہے۔
عام آدمی کافی پریشان ہے ۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لوگ کام چھوڑ کر بینکوں میں قطار بند ہیں اور شام کو انہیں یہ تکلیف دہ خبر ملتی ہے کہ کرنسی خبر ہوجانے کی وجہ سے ان کے 500یا 1000کے نوٹ کاؤنٹر سے بدلے نہیں جا ئیں گے۔ بینکوں سے جو 2000کے نوٹ مل رہے ہیں ان کو بھونانے میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ بازار میں 100کے اتنے نوٹ نہیں ہیں جتنے تبادکے لئے ضروری ہوتے ہیں گوکہ حکومت نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس کا ادارہ کالا دھن ،جعلی کرنسی او رٹررفنڈ ختم کرنے کا ہے۔ لیکن عملاً وہ عام آدمی پیسے کی شدید قلت سے دوچار ہوگیا ہے جس کا تعلق نہ کالا دھن سے نہ جعلی کرنسی سے نہ ہی ٹررفنڈنگ سے ۔ ایک پھلتی پھولتی معیشت میں اچانک 86فیصد کرنسی کو منجمد کردینے کا فیصلہ معیشت کے لئے شدید چو ٹ پہنچانے والافیصلہ بن کر سامنے آیا ۔ 500اور 1000کے نوٹ قیمت میں 40فیصد تک گراوٹ کے ساتھ بازار میں بک رہے ہیں۔ بے ایمان دکانداروں نے نمک کی قیمت اچانک بڑھا دی ہے اور بعض رپوٹوں کے مطابق 400روپئے کلو تک نمک بیکا ہے۔
ایسا نہیں کہ 500اور 1000روپئے کے نوٹ منسوخ کرنے کی یہ واردات اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلی ہو ۔ ریزروبینک آف انڈیا اس سے پہلے بھی بڑے نوٹوں کو رد کرچکی ہے۔ جنوری 1946میں 1000اور 10000کے بینک نوٹ آر بی آئی نے بند کئے تھے۔ 1954میں ان ہی قدروں کے نو ٹ دوبارہ جاری کئے گئے ۔ ان کے ساتھ الگ سے 5000کے نوٹ بھی آئے ۔ لیکن1978میں پھر ایک بار یہ سارے نوٹ بند کرادئے گئے۔ ابھی بہت حال میں 2014میں ریزروبینک آف انڈیا نے 2005سے پہلے چھپے ہوئے بینک نوٹوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا ۔
وزیراعظم نریندرمودی کو دوسروں کے علاوہ خود اپنے بڑے حمامیوں کی طرف سے بھی اس بات پر تنقید کا سامنا تھا کہ 2014کے انتخابات سے پہلے انہوں نے بیرونی ملکوں میں جمع ہوا کالا دھن واپس لانے کا جو وعدہ کیا تھا اسے نہیں نبھا یا ۔ اور مسٹر مودی نے اس کے واضح اشارے دےئے تھے کہ وہ ملک میں کالا دھن پر قابو پانے کے لئے جو کہہ رہے ہیں اس پر عمل کریں گے۔ مودی کا ایک بیان سامنے رہنا چاہئے۔ انہوں نے آدمی کے انکشاف کی جو اسکیم شروع کی تھی ۔ اور جس کی آخری تاریخ 30ستمبر 2016رکھی تھی اسکے ختم ہونے سے پہلے وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’جو لوگ اصل دھارے میں آنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کے لئے میں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ 30ستمبر تک آپ کے لئے ر استے کھلے ہیں۔ آپ نے چاہئے جس نیت سے غلطی کی ہو ،جان بوجھ کر کی ہو یا انجانے میں کی ہوآپ کے لئے 30ستمبر تک اصل دھارے میں آنے کا وقت ہے اس کے بعد میں کڑے قدم اٹھاؤں گا اور آپ کو یہ کہنے کی مہلت نہیں ہوگی کہ میں نے غلط کیا ‘‘۔
ا س طرح کے کھلے تنبہی اشاروں کے باوجود 500اور 1000کے نوٹ بند کرنے کا فیصلہ آیا تو لوگوں کو صدمہ ہوا کیونکہ یہ بڑے نوٹ ہندستان کی روزمرہ کی زندگی میں بہت عام ہوچکے تھے۔ جس وقت یہ نوٹ بند کئے گئے ہیں اس وقت سال 2015-16کے لئے ریزروبینک آف انڈیا کی سالانا رپورٹ کے مطابق جتنے بینک نوٹ گردش میں تھے۔ ان میں 86فیصد 500اور 1000کے نوٹ ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں یہ دونوں بڑے نوٹ بہت تیزی سے عام استعمال میں آئے ۔ 2011کے اعدادوشمار سامنے رکھے جا ئیں تو محکمے اقتصادی امور کے سکریٹری سکتی کانت داس کے مطابق 500کے نوٹوں کے استعمال میں 76فیصد کا اضافہ ہوا اور 1000کے نوٹوں کے استعمال میں 109فیصد کا ۔
مالی نظام سے 86فیصد نوٹوں کے اچانک نکل جانے سے جو افراتفری مچ سکتی تھی ،مچ رہی ہے ۔ اور عام آدمی اس تباہی کی مار جھیل رہا ہے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Demonetization aftershocks. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں