ہندوستان میں لڑکیوں سے متعلق اعداد و شمار دستیاب نہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-12

ہندوستان میں لڑکیوں سے متعلق اعداد و شمار دستیاب نہیں

نئی دہلی
یو این آئی
ہندوستان میں سماجی ترقی کا اشارہ دینے والے اہمیت کے حامل اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں ۔ بچوں کے بین الاقوامی دن کے موقع پر ایک مطالبہ سے یہ پریشان کن صورتحال سامنے آئی ہے ۔ اگر کچھ شعبوں میں یہ ڈاٹا موجود بھی ہے تو وہ8یا دس سال کے وقعہ کے بعد آتا ہے ، جس کی وجہ سے حکومت کو اس پر موثر اسکیمیں بنانے میں دقت پیش آتی ہے ۔ ہندوستان کے بچوں میں اڑتالیس فیصد لڑکیاں ہیں مگر ایک بچی کو مادر رحم سے ہی تعصب جھیلنا پڑتا ہے ۔ جنس کے بنیاد پر عدم مساوات کی وجہ سے ان کی بہبود پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ نہیں دی جاتی ہے ۔ لڑکیوں کے بارے مٰں موجودہ اعداد و شمار بہت ناکافی ہیں جن کی بنا پر ملک میں ان کی حالت سدھارنا مشکل ہے۔ ایک رضا کار تنظیم کی جانب سے کئے گئے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر ہمیں ان کی حالت بہتر بنانی ہے ان کی سماجی حیثیت میں تبدیلی لانی ہے منصوبہ بندی کرنی ہے تو اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ مسئلہ کتنا بڑا ہے اور اس کے لئے ہمیں کتنے وسائل کی ضرورت ہوگی تبھی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے اس کے لئے اعداد و شمار مہیا ہونا ضروری ہے۔ ہندوستان میں اس ضمن میں منصوبہ بندی موثر نہیں ہے کیونکہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہے اور جو ہیں بھی تو وہ 8سے10سال کے وقفہ پر سامنے آتے ہیں ۔ ہندوستان میں لڑکیوں کی زندگی کے ہر شعبہ کی ہر سطح پر مسلسل اعدادو شمار نہیں ملتے۔ مثلا اگر بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ جیسے اسکیم کا کیا نتیجہ نکلا اور یہ کہ لڑکا اور لڑکی کے درمیان تناسب میں فرق کتنا بڑھایا کم ہوا یہ معلوم کرنا ہو تو ہمارے پاس اسے ناپنے کا کوئی آلہ نہیں ہے ۔ جنسی تناسب کا ڈاٹا تو ملتا ہے مگر وہ ہر دس سال کے بعد ہونے والی مردم شماری سے ملتا ہے ۔ علاوہ ازیں بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکوں، بچیوں کی صحت کے لئے گھر وں میں توجہ ، اخراجات ، طبی نگہداشت کے بارے میں الگ الگ ڈاٹا ضروری ہے تاکہ بچیوں کی صحت کے بارے میں سماجی، ثقافتی پہلوؤں کا اندازہ کیاجاسکے ۔ ہندوستان میں بچیوں کی حقیقت کے بارے میں سب سے جامع اعداد و شمار صرف تعلیم کے بارے میں ہین جو اسکولوں پر مبنی ہوتا ہے جو پڑھائی کے بارے میں تو بتاتے ہیں مگر بچیوں کے بارے میں نہیں ۔ ان سے بھی آپ یہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ بچیوں کی تعلیم کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں ۔ اسکول تک رسائی کیوں مشکل ہے ۔ سماجی رکاوٹیں کیا ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔ لڑکیوں کو اسکول میں کتنا تحفظ حاصل ہے انہیں کیا تعلیمی سہولیات ہیں اس بارے میں بھی معلومات نہیں ہیں ۔ اس طرح آٹھ سال کی عمر کی کتنی بچیاں شادی شدہ ہیں اس کے بارے میں صرف دس سالہ مردم شماری سے پتہ چلتا ہے ۔ علاقہ کے لحاظ سے رجحان کا پتہ نہیں چلتا نہ ہی اس کے اسباب پر تحقیق کی جاتی ہے ۔ اسی لئے اسکیمیں بنانا مشکل ہے۔ مردم شماری سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ کروڑوں لڑکیاں معاشی رول ادا کررہی ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ وہ کن شعبوں میں کام کررہی ہیں اور کیا کام کررہی ہیں ۔ اس کے علاوہ اجرت والے اور غیر اجرت والے کام کی تفریق بھی نہیں ہے ۔ بیشتر بچیاں گھر کا کام، بہن بھائی کی پرورش اور معاون کی ذمہ داری سنبھالتی ہیںٰ ۔، اس کے علاوہ کام کی جگہ پر استحصال اور زیادتی، پیشہ وارانہ خطرات وغیرہ ان چھوئے رہ جاتے ہیں ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں