راشد آزر - خاکِ اَنا کا شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-20

راشد آزر - خاکِ اَنا کا شاعر

rashid-azar
والد ماجد رؤف خلش کا شمار 1975ء میں حیدرآباد کے ادبی افق پر ابھرنے والی مشہور ادبی انجمن حیدرآباد لٹریری فورم (حلف) کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ اس انجمن کے اجلاس ہمارے بنگلے داؤد منزل واقع جدید ملک پیٹ کے علاوہ شہر میں قائم تقریباً سبھی مشہور ادبی مراکز پر منعقد کئے جاتے رہے ہیں۔ 2010-1988 کے درمیان جب کبھی میں نے والد صاحب کو، ہماری رہائش گاہ سے پرے حیدرآباد ہی کے مختلف ادبی مقامات جیسے ادارہ ادبیات اردو، پنجہ گٹہ، اردو ہال حمایت نگر، ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ عابڈس وغیرہ پر منعقدہ انجمن کے اجلاسوں میں ڈراپ کیا یا خود بھی شرکت کی ہے تو اکثر و بیشتر سامعین و مندوبین کےلئے رکھی گئی نشستوں کی اولین صفوں میں سفید کرتا پائجامہ و سیاہ واسکٹ میں ملبوس سرخ سپید رنگت کی ایک پر کشش شخصیت کو بارہا دیکھا ہے جسے علمی و ادبی دنیا "راشد آزر" کی حیثیت سے جانتی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کے تقریباً سبھی مجموعہ ہائے کلام جو انھوں نے والد صاحب کو بطور تحفہ عنایت فرمائے ان میں سے بیشتر میرے مشاہدے بلکہ مطالعے میں رہ چکے ہیں۔

منگل 4 اکتوبر 2016ء کی سہ پہر برادر کلاں سید مکرم نیاز کے ایک واٹس ایپ ادبی گروپ میں لگائے گئے پیغام کے ذریعے جناب راشد آزر صاحب کے انتقال کر جانے کی افسوس ناک اطلاع ملی۔ اسے حالات کی ستم ظریفی سمجھئے یا گذرتے وقت کے سبب پیدا شدہ فطری بیگانگی، ادھر کچھ عرصے سے میں نے راشد آزر صاحب کو ادبی افق پر غیر فعال سا محسوس کیا ہے۔ شاید میں نے انھیں آخری دفعہ سال گذشتہ اردو اکیڈمی آندھرا پردیش کی جانب انھیں عطا کئے گئے مخدوم ادبی ایوارڈ کی تقریب منعقدہ رویندرا بھارتی آڈیٹوریم، حیدرآباد میں دیکھا تھا۔

بیسویں صدی کے اواخر میں شہر دکن حیدرآباد کے ادبی افق پر جو بیشمار ادبی شخصیات فعال رہی تھیں، انھیں بچپن ہی میں بہ نفس نفیس بارہا میں نے دیکھا پہلے لیکن پڑھا بعد میں ہے۔ اس کہکشاں کے تقریباً سبھی ستاروں میں جہاں عالم خوندمیری، محترمہ خدیجہ عالم خوندمیری، مجتبیٰ حسین، حمایت اللہ، انور معظم، محترمہ جیلانی بانو، عوض سعید، عاتق شاہ، اقبال متین، غیاث صدیقی، شاذ تمکنت، وحید اختر، مغنی تبسم، محترمہ شفیق فاطمہ شعری، تاج مہجور، احمد جلیس، مصطفٰی علی بیگ وغیرہ شامل رہے وہیں راشد آزر بھی ایک معتبر نام رہا ہے۔ جبکہ ان کے دیگر ہم عصروں میں قدیر زماں، مضطر مجاز، محمود انصاری، صفدر حسین، مصطفٰی کمال، یوسف کمال، ساجد اعظم، اعظم راہی، حسن فرخ، رؤف خلش، غیاث متین، صلاح الدین نیر، علی الدین نوید، مسعود عابد، علی ظہیر، مصحف اقبال توصیفی، مظہر مہدی، یوسف اعظمی، ناصر کرنولی، بیگ احساس، محسن جلگانوی، رؤف خیر، وغیرہ ایسے ادیب اور شعراء رہے ہیں جنھیں اور جن کی تخلیقات کو میں نے ان ہی کے دور میں دیکھا اور پڑھا ہے۔

گذشتہ صدی کے اختتام سے قبل محض آخری دو ڈھائی دہے کے عرصے میں ہی راشد صاحب کے قریب قریب پانچ مجموعہ ہائے کلام بشمول "خاکِ اَنا" اور "اندوختہ" زیور طباعت سے آراستہ ہو کر نہ صرف منظر عام پر آچکے تھے بلکہ ادبی حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل کرچکے تھے۔ 1974ء میں شائع شدہ ان کے تیسرے مجموعے "آبِ دیدہ"میں پیش لفظ کے بطور ان کے ہم عصر اور ممتاز شاعر شاذ تمکنت کا ایک بیحد طویل مضمو ن بعنوان "داستانِ بے ستون و کوہکن" شامل ہے جو راشد صاحب کی شاعری کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی کے کئی پہلوؤں کا بھی تفصیل سے احاطہ کرتا ہے۔ 1979ء میں منظر عام پر آنے والا مجموعہ "خاکِ انا"، اپنے لڑکپن کے باوجود راقم کی یادداشت میں اس لئے بھی محفوظ رہا ہے کہ اندرون صفحہ دی گئی تفصیل کے مطابق اس کا ٹائٹل راشد صاحب نے خود ہی ڈیزائن کیا تھا۔ سرورق پر لکیروں کے ذریعے منقش اپنے چہرے کے خاکے میں "خاکِ اَنا" کے الفاظ کو انہوں نے فنکارانہ چابکدستی و مہارت سے شامل کیا تھا۔

میری ناقص معلومات کے مطابق 1940ء کی دہائی میں ترقی پسند تحریک میں شمولیت کے سبب ان کا شمار حیدرآباد دکن کی مشہور شخصیات جیسے مخدوم محی الدین، شاہد صدیقی، سلیمان اریب کے ساتھ ہوتا تھا۔ ان کی پہچان کئی دہائیوں تک حیدرآباد کے ادبی افق پر سینئر و کہنہ مشق شاعر کے علاوہ ایک بے باک نقادکے بطور بھی رہی ہے۔ سرزمین ہند کے ممتاز شعراء مثلاً جان نثار اختر، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، سلیمان اریب اور شاذ تمکنت پر تحریر کردہ ان کے مضامین ادبی حوالے سے نہایت معتبر اور قابل ذکر ہیں۔
خود رائے، خود آگاہ اور خود مختار سی شخصیت کے مالک کی حیثیت سے مشہور راشد آزر صاحب نے روزمرہ کے معاملات ہوں کہ شاعرانہ رویوں کا انتخاب دیگر عام شعراء کے برعکس مکمل حیات اپنے ہی اصولوں کی پابندی، ثابت قدمی اور پاسداری میں بسر کی۔ میرے والد ماجد رؤف خلش، شاعروں و ادیبوں کی وقت کے تئیں ناقدری کے ضمن میں بتاتے ہوئے اکثر مخدوم محی الدین صاحب کی مثال دیا کرتے ہیں کہ صرف وہی ایک ایسے شخص تھے جو دفتری اوقات ہوں کہ ادبی محافل یا عام مشاعرے، وقت مقررہ پر موجود ہوا کرتے تھے۔ جب کہ میرے مشاہدے میں یہ بات رہی ہے کہ مخدوم صاحب کے بعد اگر کوئی اور ادبی شخصیت پابندی ِوقت کے اصولوں کی اسیر رہی ہے تو وہ راشدآزر صاحب ہی کی ہے۔

راشد صاحب کی گیارہ تصانیف کے عنوان اور سن اشاعت درج ذیل ہیں:
(1) نقش آزر ۔1963 ء
(2) صدائے تیشہ۔ 1971 ء
(3) آبدیدہ۔ 1974 ء
(4) خاک انا ۔ 1979ء
(5) جمع خرچ وفا۔ 1992 ء
(6) منزل شوق۔ 1992 ء ( دو سو رباعیات پر مشتمل جو اوزان میں ہیں)
(7) زخموں کی زبان ۔ 1997 ء
(8) اندوختہ۔ 1997 ء
(9) قرض جاں ۔ 2003 ء
(10) نقد حیات۔ 2007 ء
اور
(11) میر کی غزل گوئی ایک جائزہ۔

1993ء کے بعد سے بسلسلہ ملازمت، کیمپ میں بسر ہونے والے بیشمار فیلڈ سیزن کے دوران راشد صاحب کے تین مجموعہ کلام آبِ دیدہ، خاکِ اَنا اور اندوختہ میرے مطالعہ میں رہ چکے ہیں۔ اپنے اسی ناقص مطالعے کے مطابق عام روایتی شاعری اور جدیدیت و مابعد جدیدیت سے پرے ان کی تخلیقات ترقی پسند رجحانات ہی کی حامل محسوس ہوئیں۔ ہر مشہور شاعر کی طرح ان کے ہاں بھی شعری سفر رومانوی دورسے شروع ہو کر زندگی کی تلخ و ترش حقیقتوں ، تعمیر و تخریب کے کڑوے کسیلے تجربات ، دکھ سکھ کے زیر اثر بڑھتے گھٹتے جذبات و احساسات کا سامنا کرتے ہوئے بتدریج آگہی اور بصیرت کی جانب گامزن نظر آتا ہے۔ بطور خاص آبدیدہ کا بیشتر کلام جو زیادہ تر نظموں پر محیط ہے شاعر کے اس دکھ و درد کی زندہ تصویر نظر آتا ہے جو بظاہر ان کی شریک حیات فاطمہ کے اچانک سانحہ ارتحال سے پیدا شدہ جذبات و احساسات کی دین ہے جسے انھوں نے اپنی بیشتر نظموں میں بڑی خوبصورتی و مہارت کے ساتھ کچھ ایسا موڑ دیا ہے کہ قاری و سامع بے ساختہ اسے اپنے دل کی ترجمانی پر محمول کر بیٹھتا ہے۔
مثلاً "آبِ دیدہ" میں شامل خوبصورت سی نظم "لفظوں کی زندگی" کے آخری بند میں وہ یوں رقم طراز ہیں:
اور بھی لوگ مری طرح لئے یاد کے زخم
زندگی کاٹ دیا کرتے ہیں
اور مرتے ہیں تو سب کہتے ہیں بیچارہ شریف آدمی تھا
کتنے بے معنی ہیں الفاظ، نہ جذبات، نہ رنگ
اور جو لفظ ترے منہ سے نکلتے تھے کبھی !

"آبِ دیدہ" میں شامل تقریباً نظموں اور غزلوں سے لگتا ہے کہ فاطمہ جو کہ بقول خود راشدآزر، ان کی بیگم بھی تھیں اور محبوبہ بھی، کی دائمی جدائی نے راشدآزر کی شاعری کو گویا اک نیا موڑ عطا کیا۔ قاری اس کے مطالعے سے بخوبی محسوس کرسکتا ہے کہ نشاط آمیز جذبات و احساسات سے مزین شاعری میں غم والم کی تاثیر، خود فراموشی اور لہولہان دل کی کسک کچھ اس طرح در آئی ہے جسے شاعر نے اپنے ذات کے نہاں خانوں سے اٹھا کر آفاقی و کائناتی بنانے کی جانب کامیاب مراجعت کی ہے۔ ان سب کے باوجود ان کی انا کبھی جھکنے کو آمادہ نہیں ہوئی۔ بطور مثال ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
انھیں یہ ضد کہ میں زخموں کا اشتہار بھی دوں
مجھے تو شرم سی آتی ہے آہ بھرتے ہوئے

اور اک پابند نظم بعنوان:
" انا "

تمھیں شاید نہ ہو اس کا یقین، اب تک تمھارے بعد
بہت دیکھے ہیں میں نے چہرے، لیکن ایک ہی چہرہ
کچھ ایسا میں نے پایا، جن پہ آنکھیں ٹھیر جاتی ہیں
جبیں اس کی، کہ جیسے اک جہاں کی فکر سمٹی ہے
وہ آنکھیں، جن میں دن بھر کی تھکن سوتی رہی شب بھر
جو جاگی ہیں تو جیسے رات بھر یادوں میں گذری ہے
وہ لب، لبِ راز کہہ دینے کو کھلتے ہیں
وہ چہرہ دل میں لاکھوں دکھ چھپائے مسکراتا ہے
میں اب بھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہوں

"اندوختہ" سے ایک بےحد خوبصورت نظم
نظم : دوستی کی حد

معلوم ہے ہمیں کہ یہ دنیا کی ریت ہے
تنہا جہاں میں آئے تھے تنہا ہی جائیں گے
کچھ دوستی کی حد بھی ہے ، مجبوریاں بھی ہیں
کیا اپنے ساتھ کوئی لحد میں بھی جائے گا؟
اتنا ہی دوستوں نے کیا تو بہت کیا
آئے ، سپردِ خاک کیا ، اور چلے گئے

آخر میں 1979ء میں شائع شدہ مجموعہ کلام "خاکِ اَنا" سے ایک اور نظم بعنوان:
خاکِ اَنا

میری باتوں کی یہ نرمی، مرے لہجے کا گداز
میری آنکھوں کی اداسی، مرے چہرے کی تھکن
میرا لب بستہ تبسم، مرے ماتھے کی شکن
رازدارانہ خموشی سے مری مت سمجھو
بند مٹھی میں فقط خاکِ اَنا ہے میری
اس میں کچھ راز تمھارے بھی چھپا رکھے ہیں

ان کی ایک مشہور غزل کے کچھ اشعار:

سمجھ رہا ہے تری ہر خطا کا حامی مجھے
دکھا رہا ہے یہ آئینہ مری خامی مجھے

زماں کی قید ہے کوئی نہ ہے مکاں کی خبر
کہاں کہاں لئے پھرتی ہے تشنہ کامی مجھے

مزہ ملا نہ کبھی منزل آشنائی کا
کچھ ایسا کر گئی آوارہ تیز گامی مجھے

کوئی نہیں مرا سامع اسی میں خوش ہوں
کہ راس آتی بہت میری خود کلامی مجھے

میں فرش راہ یوں ہی تو نہیں ہوا آذرؔ
نڈھال کر کے رہی اس کی خوش خرامی مجھے

بیسویں صدی کے اواخر کو حیدرآباد دکن کے اس سنہرے دور سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ جس دور میں مشہور ادبی شخصیات کے علاوہ علم و ادب کے پیاسے بلکہ متوالے قارئین کی اک فوج ظفر موج سی ہمیشہ موجود ہوا کرتی تھی یہاں تک کہ کسی بھی شاعر یا ادیب کے نزدیک اپنی شائع شدہ کتاب کو دوستوں و عزیزوں میں تقسیم کرنے سے قبل اپنی فہرست پر بارہا "مکرر نظر ثانی" کرنا پڑتی تھی.
غالباً اسی تناظر میں مجھے اس بات کا کچھ اندازہ ان کے تیسرے مجموعہ کلام "آبِ دیدہ" کے فلیپ پر ان ہی کی تحریر بلکہ آٹو گراف سے اپنی کمسنی ہی میں ہوا تھا جس پر لکھا ہے :

عزیزم غیاث متین اور رؤف خلش کے لئے ، آدھی آدھی، محبت کے ساتھ
راشد آزر، 5 جون 1977ء

راشد آزر صاحب کے سانحہ ارتحال کے بعد اس آٹو گراف کو دیکھ کر یوں لگتا ہے گویا شہر دکن، حیدرآباد سے ایک اور زریں عہد کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ گویا والد ماجد (رؤف خلش) ہی کے الفاظ میں :
ہم کو پڑھا نہیں جو کسی نے تو کیا خلشؔ
تاریخ بن کے ہم تو کتابوں میں رہ گئے

***
سید معظم راز
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
mzm544[@]gmail.com

سید معظم راز

Rashid Azar an eminent poet of Hyderabad. Article by: Syed Moazzam Raaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں