عدالتیں مذہبی صحیفوں کے متن کی اپنے انداز میں تشریح نہیں کر سکتیں - مسلم پرسنل لا بورڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-19

عدالتیں مذہبی صحیفوں کے متن کی اپنے انداز میں تشریح نہیں کر سکتیں - مسلم پرسنل لا بورڈ

نئی دہلی
پی ٹی آئی
مسلمانوں کے ایک مشہور ادارہ نے آج سپریم کورٹ کی جانب سے طلاق بائین، نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کے عمل کے بارے میں تحقیق کی پرزور مخالفت کی اور بتایا کہ یہ بات عدالتی قانون سازی کی تعریف میں آتی ہے اور پرسنل لا کو اس بنیاد پر چیالنج نہیں کیاجاسکتا کہ ان سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تازہ حلفنامہ میں نریندر مودی حکومت کے اختیار کردہ اس موقف پر سخت اعتراض کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کو ان عوامل کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے کیوں کہ ان سے صنفی مساوات اور سیکولرازم کے اصولوں جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، جو دستور ہند کے بنیادی ڈھانچہ کا اہم ترین حصہ ہے۔ مسلمانوں میں رائج اس عمل کی پوری قوت کے ساتھ مدافعت کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری محمد فضل الرحیم نے کہا اگر عدالت مسلم پرسنل لاز کے معاملات کا جائزہ لینے کے لئے قدم اٹھاتی ہے اور شادی، طلاق اور نان و نفقہ کے امور میں مسلم خواتین کے لئے خصوصی قوانین کی تدوین عمل میں لاتی ہے یہ بات عدالتی قانون سازی کی تعریف میں آئے گی اور یہ اقدام اختیارات کی علیحدگی کے اصول کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ان عوامل کی عدالتی جانچ کے سلسلہ میں اپنی مخالفت کی وجوہات بیان کیں۔ حلف نامہ میں کہا گیا کہ درخواست میں جو سوالات اٹھائے گئے وہ قانون سازی کی پالیسی کے معاملات ہیں اور مزید یہ کہ پرسنل لاز کو اس بنیاد پر چیالنج نہیں کیاجاسکتا کہ ان سے دستور کے تحت مساوات کے حق جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حلفنامہ میں یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں کے پرسنل لاز کو سماج اصلاح کے نام پر از سر نو تحریر نہیں کیاجاسکتا ہے اور ان عوامل کو دستور ہند کے آرٹیکل،26,25اور29(مذہبی عمل کی آزادی) کے تحت تحفظ حاصل ہے ۔ یکساں سیول کوڈ پر لا کمیشن کی نئی کوشش کی مخالفت کرتے ہوئے ادارہ نے کہا کہ یہ دستور کی سرکاری پالیسی کے رہنمایانہ اصولوں سے تعلق رکھتا ہے اور لہذا اس کا نفاذ نہیں کیاجاسکتا ۔ مذہبی صحیفوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ عدالتیں صحیفوں کے متن کے بارے میں اس کے اپنے انداز میں تشریح اس صورتحال میں نہیں کرسکتیں جب کہ ایسے متن کو انوکھی اہمیت حاصل ہو ۔ سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ اس عمل کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے ’’طلاق بائین، نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کے قانونی جواز کے معاملہ پر صنفی انصاف کے اصولوں کی روشنی میں غور کیاجانا چاہئے اور عدم تفریق ، عزت اور مساوات اصول کو نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے ۔
کوچی
پی ٹی آئی
طلاق بائین کے مسئلہ پر ملک میں جاری بحث کے دوران مرکزی وزیروینکیا نائیڈو نے آج کہا کہ اس طریقہ کار کو ختم کیاجانا چاہئے، کیونکہ اس کی وجہ سے خواتین کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ وزیر شہری ترقی نے کہا کہ لا کمیشن اور سپریم کورٹ نے عوام کی رائے دریافت کی ہے اور طلاق ثلاثہ پر بحث جاری ہے ۔ کافی غوروخوض کے بعد حکومتِ ہند نے یہ رائے قائم کی ہے کہ طلاق بائین خواتین کے مفاد میں نہیں، اسے ختم ہونا چاہئے ۔ وینکیا نئیڈو نے جو وزیر اطلاعات و نشریات بھی ہیں، یہاں نامہ نگاروں کوبتایا کہ یہ حکومت ہند کی رائے ہے اور ہمین( اس کے اظہار میں) کوئی ہچکچاہٹ نہیں ۔ ہمارا موقف بے حد واضح ہے کہ اس طریقہ کار کی وجہ سے خواتین کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ متعدد مسلم تنظیموں اور قائدین بشمول آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے اس بات پر زور دیاجارہا ہے کہ شریعت کے قانون کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا ۔ اس تناظر میں نائیڈو کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ظفریاب جیلانی نے حال ہی میں یہ تجویز پیش کرتے ہوئے کہ مرکزی حکومت طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر ریفرنڈم کرائے،، دعویٰ کیا تھا کہ90فیصد مسلم خواتین شرعی قانون کی حمایت کرتی ہیں۔ مرکز نے7اکتوبر کو سپریم کورٹ میں طلاق بائن ، نکاح حلالہ اور مسلمانوں میں تعدد ازدواج کے طریقہ کار کی مخالفت کی تھی اور صنفی مساوات اور سیکولرازم کی بنیادوں پر اس معاملہ پر نظر ثانی کی حمایت کی تھی ۔ وزارت قانون و انصاف نے اپنے حلف نامہ میں صنفی مساوات ، سیکولرازم ، مذہبی رسوم اور رواج اور مختلف اسلامی ممالک میں قانون ازدواج کے اصولوں کا حوالہ دیا تاکہ یہ ثابت کیاجاسکے کہ طلاق بائین اور تعدد ازدواج کے طریقہ کار پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی اور تازہ فیصلہ صادر کیے جانے کی ضرورت ہے ۔
نئی دہلی
پی ٹی آئی
سی پی آئی ایم نے یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے اقلیتوں کی شناخت پر ایک بڑا حملہ کیا ہے ، آج کہا کہ یکساں سول کوڈ مسلط کرنے کا کوئی بھی اقدام جیسا کہ حکومت کی جانب سے کیاجارہا ہے ، خواتین کے حقوق کے لئے نقصاندہ ہوگا۔ بہر حال پارٹی نے تمام مذاہب بشمول ہندوؤں کے پرسنل لاز میں اصلاحات کی حمایت کی ۔ بائیں بازو جماعت نے من مانی اور فوری طلاق ثلاثہ کے طریقہ کار کے خلاف مسلم خواتین کے ایک گوشہ کے مطالبہ کی حمایت کی اور کہا کہ اکثریتی برادری کے پرسنل لاز میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے ، کیوں کہ وہ خواتین کے خلاف کافی امتیازی ہیں ۔ سی پی آئی ایم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اقلیتوں کی بنیادی شناخت پر فرقہ پرست طاقتوں کے حملہ کے ساتھ یکساں سول کوڈ کا ایجنڈا مسلط کرنے کا کوئی بھی اقدام جیسا کہ حکومت کی جانب سے راست طور پر اور اس کے اداروں کے ذریعہ کیاجارہا ہے ، خواتین کے حقوق کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ پارٹی نے کہا کہ یکسانیت،مساوات کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ سرکاری ترجمان کے ان دعووں پر کہ خواتین کے لئے پرسنل لاز میں پہلے ہی اصلاح ہوچکی ہے ، حکومت کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے سی پی آئی ایم نے کہا کہ اس تبصرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خواتین کے لئے مساوات سے دلچسپی نہیں، بلکہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے دلچسپی ہے ۔ پارٹی نے کہا کہ اب بھی متبنی کرنے، جائیداد کے حقوق اور یہاں تک کے اپنا شریک حیات منتخب کرنے سے متعلق قوانین میں ہندو خواتین کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے ۔ سی پی آئی ایم نے طلاق ثلاثہ کے طریقہ کار کو ترک کرنے کے مطالبہ کی تائید کی اور کہا کہ بیشتر اسلامی ممالک میں اس کی اجازت نہیںہے ۔ پارٹی نے کہا کہ اس مطالبہ کو قبول کرلینے سے متاثرہ خواتین کو راحت حاصل ہوگی۔ تمام پرسنل لاز بشمول اکثریتی برادری کے پرسنل لاز میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں