ریو اولمپک کا رنگا رنگ تقریب میں آغاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-08-07

ریو اولمپک کا رنگا رنگ تقریب میں آغاز

ریوڈی جیزو
یو این آئی
دنیا کا سب سے بڑا کھیلوں کا میلہ اولمپک برازیل کے شہر ریوڈی جیزو میں موسیقی کی لہروں، بوسانووا، سامبا رقص اور ملک کے جنگلوں کے خوبصورت فطری مناظر کے تحفظ کے پیغام کے ساتھ شروع ہوگیا ۔ میزبان ملک برازیل کے تاریخی مارا کانا اسٹیڈیم میں ہندوستانی وقت کے مطابق آج صبح ساڑھے چار بجے31ویں اولمپک کھیلوں کا آغاز ہوگیا۔ بیجنگ اولمپکس2008اور لندن اولمپکس2012کی عظمت سے الگ ریواولمپکس نے اپنی سادگی بھری موسیقی اور فطرت کے تحفظ کے پیغام کے ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کا دل جیت لیا ۔ افتتاحی تقریب میں برازیل کی ثقافت جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی گئی اور سامبا رقص اور بوسانووا کے لئے پرتھرکتے ہوئے فنکاروں نے اپنے آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ پرفارمنس سے لوگوں پر جادو کردیا ۔ اتنا ہی نہیں میزبان ملک کی ثقافت کا اہم حصہ ریو کے ساحلوں پر آباد بڑی جھگی بستی، پھیویلا اور اس میں رہنے لوگوں کی جھلک بھی دنیا کو دیکھنے کو ملی ۔ کھیلوں کے اس سب سے بڑے میلہ کے انعقاد کو ٹی وی پر دیکھنے والے تقریبا تین ارب لوگوں تک دنیا کے سب سے بڑے ایمیزون جنگل کو بچانے کا پیغام بھی اس پروگرام کا محور رہا۔ ایمیزون کے جنگل، ان میں پائے جانے والی مخلوقوں اور مختلف قسم کے درخت پودوں کو بچانے کا پیغام دنیا کے ہر کونے تک پہنچایا گیا ۔ گزشتہ چند سالوں سے اقتصادی تنگی سے دو چار برازیل نے اس پروگرام میں گزشتہ اولمپک کھیلون کی طرح بہت زیادہ جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرنے کے بجائے اس میں برازیل کی ثقافت اور یہاں کے لوگوں کی زندہ دلی کو دکھانے پر زیادہ زور دیا ، ایک اندازے کے مطابق ریو کھیلوں کی افتتاحی تقریب کا خرچ لندن اولمپکس کے مقابلے نصف ہی رہا ۔ لندن میں4.2کروڑ ڈالر افتتاحی تقریب پر خرچ کئے گئے تھے ۔ اولمپک کی افتتاحی تقریب کے پروگرام میں برازیل کی سوپر ماڈل گزیل بنڈ چین اسٹیڈیم میں پہنچی اور بوسانووا کی مشہور لہر ، گرل پھرام ایپانوما پر رقص کی اور سامبا نغموں کے خالق پلنہو ڈاوایلا نے قومی ترانہ گایا ۔ برازیل میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیل لاطینی امریکہ میں پہلا ہے ۔ گزشتہ کئی دنوں کی اتھل پتھل ، برسوں کی محنت ، اقتصادی تنگی ، زیکا وائرس تو کبھی دہشت گردی کے خطرے اور پھر ڈپنگ کے الزامات جیسی کئی پریشانیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ان کھیلوں کا آغاز یقینا دل کو چھو جانے والی بات تھی ، جہاں اسٹیڈیم میں بیٹھے تقریبا74,738لوگوں میں ہر شخص کے چہرے پر اطمینان، خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ افتتاحی تقریب میں رنگا رنگ ثقافتی پیشکش کے بعد ملک کے عبوری صدر مائیکل تیمیر نے کئی ممالک کے سربراہوں کی موجودگی میں31ویں اولمپک کھیلوں کے آغاز کا اعلان کیا۔ اسی کے ساتھ مارا کا اسٹیڈیم سے اٹھتے ہوئے پٹاخوں سے برازیل کا پورا آسمان روشن ہوگیا ۔ برازیل کے لئے یہ دو سال میں دوسری خوشی کا لمحہ تھا ، جب وہ2014ء فیفا عالمی کپ کے بعد دنیا کے سب سے بڑے کھیل میلے کی میزبانی کررہا ہے ۔برازیل کے مشہور ڈائرکٹر فرنانڈومریلیس نے افتتاحی پروگرام کا کوآرڈنیشن کیاجس میں300پیشہ ور رقاصوں کے علاوہ پانچ ہزار دیگر آرٹسٹ موجود تھے ۔ فنکاروں کی پریزنٹیشن کے بعد مختلف قوموں کے کھلاڑیوں کا پریڈ شروع ہوا جس میں یونان کی ٹیم سب سے پہلے آئی جب کہ ہندوستانی ٹیم قوموں کی پریڈ میں95ویں نمبر پر اسٹیڈیم میں پہنچی ۔ ہندوستانی ٹیم کی قیادت اس بار ملک کے واحد اولمپک گولڈ میڈلسٹ شوٹرابھینو بندرا کے ہاتھوں میں رہی جو ترنگا اٹھائے ہوئے118رکنی ہندوستانی ٹیم کے ساتھ اسٹیڈیم میں آئے۔ ہندوستانی ٹیم میں خواتین کھلاڑیوں نے پیلے اور نیلے رنگ کی ساڑی اور بلاؤز پہنا تھا جب کہ مرد کھلاڑی نیلے رنگ کے سوٹ میں نظر آئے اور اسٹیڈیم میں بیٹھے تمام لوگوں کو ہاتھ ہلا کر انہوں نے سلام کیا۔ ہندوستان نے اس بار ریواولمپکس میں اپنی سب سے بڑی ٹیم بھیجا ہے اور اسے امید ہے کہ کھلاڑی لندن کے چھ میڈلس کی تعداد میں اضافہ کرکے تاریخ رقم کریں گے۔ اولمپک پریڈ میں جن کھلاڑیوں کی ٹیم نے سب سے زیادہ تالیاں بٹوریں، وہ تھی پناہ گزینوں کی دس رکنی ٹیم جو اولمپک پرچم کے تحت ان کھیلوں میں حصہ لے رہی ہے ۔ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے بحران اور اس سے متاثرہ لوگوں کے درد کے تئیں تمام لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کے لئے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے پہلی بار پناہ گزینوں کو ان کھیلوں کا حصہ بننے کا موقع دیا ہے ۔ پناہ گزین اولمپک ٹیم میں پانچ کھلاڑی جنوبی سودان سے، دو کھلاڑی شام سے ، دو کانگو سے اور ایک ایتھیوپیا سے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کی اس چھوٹی سے ٹیم نے جیسے ہی مارا کانا اسٹیڈیم میں قدم رکھا پورا اسٹیڈیم تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونج اٹھا اور سب نے بہت ہی گرمجوشی کے ساتھ ان کھلاڑیون کااستقبال کیا ۔ یہاں پریڈ میں میزبان برازیل کی ٹیم اسٹیڈیم میں سب سے آخر میں پہنچی اور لوگوں نے اپنی گھریلو ٹیم کا بھی بہت خوشی اور جوش سے استقبال کیا۔ برازیلی کھلاڑی سبز رنگ کی ڈریس میں ناچتے گاتے ہوئے اسٹیڈیم میں پہنچے ۔ مارا کانا اسٹیڈیم میں اولمپک کا مشعل پہنچنے کے بعد برازیل میرا تھن رنروینچھیرلی کورڈ یرودیلیمیا نے اس کو روشن کیا جس کے ساتھ ہی کھیلوں باقاعدہ آغاز ہوا ۔ مشعل روشن کرنے کے لئے کالڈران کو بھی اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس سے کم از کم دھواں نکلے اور ماحول کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے ۔ آئی او سی کے صدر تھامس باک نے کھیلوں کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لمحہ ہے جس کا ہم سب کو عرصہ سے بے قراری سے انتظار تھا۔ یہ جنوبی امریکہ کے پہلے اولمپک کھیل ہیں، جو برازیل میں ہورہے ہیں ۔ تمام برازیلی باشندے اس پر فخر کرسکتے ہیں ۔ اس ملک نے گزشتہ سات سالوں میں وہ چیزیں حاصل کی ہیں جو قوموں بہت جدو جہد کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہیں ۔ انہوں نے برازیل کے لوگوں سے خطاب کیا کہ اس ملک کے لوگوں نے برازیل کے شہر ریوڈی جنیریو کو بہت ہی خوبصورت بنادیا ہے ۔ ہم اس کے لئے آپ کی قدر کرتے ہیں ۔ آپ نے برازیل کی تاریخ کے سب سے مشکل وقت میں یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ آئی او سی کے صدر نے ساتھ ہی دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے بحران پر بھی اپنا پیغام دیا کہ اس اولمپک کی دنیا میں تمام لوگ یکساں ہیں اور یہی اسکا سب سے بڑا اصول ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو انسانیت کا اور اولمپک اصولوں سے جواب دینا چاہتے ہیں اور اسی لئے ہم اولمپک میں پناہ گزین ٹیم کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ یہ پہلے اولمپکس کھیل ہیں جو آئی او سی کے صدر تھامس باک کی صدارت میں ہورہے ہیں ۔ ریواولمپکس 2016میں206 قومی اولمپک کمیٹیوں کے گیارہ ہزار کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں جن میں کوسوواور جنوبی سوڈان پہلی بار ان کھیلوں کا حصہ بنے ہیں ۔ یہ تمام کھلاڑی28مختلف کھیلوں کے306مقابلوں میں حصہ لیں گے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں