لہو لہو سمندر - افسانہ از مکرم نیاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-04

لہو لہو سمندر - افسانہ از مکرم نیاز

"یہ سمندر کا رنگ یکایک سفید سے سرخ کیسے ہو گیا فراز؟ یہ نیا رنگ آخر کہاں سے آیا؟ گھروں میں، سڑکوں پر، کھیتوں کھلیانوں میں ، فضا میں اس لال رنگ کی بو کیوں رچ بس گئی ہے؟ لہو کا رنگ تو صرف ایک ہے اور ایک ہی ہوتا ہے۔ پھر ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر حملہ اور جوابی حملہ کرتے ہوئے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ ایک ہی سرخ رنگ والی انسانیت کی فصل کاٹ رہے ہیں؟"
وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں دکھ اور مایوسی کے ملے جلے احساس کے ساتھ اپنے جگری دوست حامد فراز سے مخاطب تھا۔
"تم کہتے ہو لہو کا رنگ ایک ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایک فرقے کو تمام مراعات ، سہولیات اور تحفظات دے کر دوسرے کو ان تمام سے محروم کیوں رکھا جاتا ہے؟ کیوں صرف ایک ہی فرقے کے معصوم نوجوانوں کو پکڑ کر قانون کے حوالے کر دیا جاتا ہے؟ لہو کا ایک رنگ ہونے کے باوجود دو فرقوں کے درمیان یہ امتیاز کیوں ہے؟ یہ تعصب کس لیے ہے آخر؟ نہیں میرے دوست! یہ مکافات عمل کا دور ہے۔ اینٹ کے جواب میں سفید گلاب کا پھول نہیں پیش کیا جاتا بلکہ پتھر اچھالا جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی میں اپنے فرقے کے کسی گھر سے دھواں اٹھتے دیکھتا ہوں، فائرنگ اور چیخ پکار کی آوازیں سنتا ہوں ، تب ہاں ! اسی وقت فوراً اپنے ساتھیوں کے ہم راہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر مخالف فرقے کے محلے میں پہنچ جاتا ہوں۔"
فراز کے لہجے میں ایک طوفان چھپا تھا جسے محسوس کر کے وہ چلا پڑا:
"تم۔۔۔ تو تم بھی قاتل ہو، خونی ہو ،لٹیرے ہو۔۔۔ نہیں ! تب تم میرے دوست نہیں ہو سکتے۔"
فراز کی ہنسی استہزائی تھی۔
"ہاں! شاید کانچ کے گھر میں رہنے والے میرے دوست نہیں ہو سکتے۔ شیشے کے گھروں میں بسنے والوں کو بھلا جھونپڑ پٹی کی بھوکی ننگی سسکتی دم توڑتی ہوئی زندگیوں کی کہاں پروا ہوتی ہے۔ وہ تو بس اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھے تقریریں جھاڑتے ہیں کہ ایسا مت کرو، ویسا مت کرو۔ یہ صحیح ہے، وہ غلط ہے۔ تمھیں شاید میری طرح کسی تکلیف دہ حادثے سے واسطہ نہیں پڑا۔ ورنہ جب اپنے پاؤں میں کانٹا چبھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دوسرے کتنی اذیت میں مبتلا ہوئے ہوں گے"۔

وہ کچھ اور سن نہ سکا۔ کیوں کہ اس دوران وہ اپنے گھر پہنچ چکا تھا۔ جیسے ہی اس نے گھر میں قدم رکھا، اس کی آنکھیں اندر کا نظارہ دیکھ کر ساکت ہو گئیں۔ شیشے کے گھر پر پتھر برس چکے تھے۔ خون میں ڈوبی تین تازہ لاشیں اس کی انسانیت پسندی کا مذاق اڑا ہی تھیں۔ اپنی دوسالہ بھتیجی کے دو ٹکڑوں میں بٹے ہوئے جسم کو دیکھ کر اس نے شدت کرب سے آنکھیں بھینچ لیں۔ اس کے پاؤں میں کانچ چبھ چکی تھی۔ ہاتھ میں تیز دھار والا چاقو تھامے وہ غیظ و غضب کے عالم میں باہر کو دوڑا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ایک ایسے مکان میں داخل ہو گیا جس کی دہلیز پر مخالف فرقے کا نشان ثبت تھا۔ مگر اس نے وہاں بھی لہو کا دریا بہتے دیکھا۔ خون میں لت پت ایک عورت کے مردہ جسم کے قریب ایک ننھی منی معصوم صورت لڑکی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ اس زندہ لڑکی کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر خون اتر آیا۔
لہو کا پیاسا چاقو ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھا۔ اسی پل لڑکی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اوپر کو اٹھ گئے ، یوں جیسے وہ اس کی گود میں چلی آنا چاہتی ہو۔ چاقو والا ہاتھ کانپا اور اپنی ہی جگہ تھم کر رہ گیا۔ اسے لگا جیسے اس کی دو سالہ بھیجی اپنے چہیتے چچا کی محبت بھری گود میں آنے کو بے قرار ہو۔
دہشت ناک سناٹے میں ایک چاقو کے زمین پر گرنے کی آواز گونجی اور اگلے ہی پل وہ نم ناک آنکھوں کے ساتھ معصوم لڑکی کو سینے سے لگائے اسے بے تحاشا چوم رہا تھا۔ وحشی پن پر پیار و محبت کے لازوال جذبوں نے فتح حاصل کر لی تھی۔

اچانک باہر سے مختلف آوازوں کا شور اٹھا۔
" مارو حرامزادے کو۔۔ یہی سالا ہوگا۔"
اس نے تیزی سے پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھنا چاہا مگر اسی وقت تیز دھار خنجر کی نوک اسے اپنی پشت سے ہو کر دل تک پہنچتی محسوس ہوئی۔
انسانیت کے آخری علم بردار پر حیوانیت کے ایک بلم بردار نے حملہ کر دیا تھا۔ دھندلاتی ، روشنی کھوتی ہوئی آنکھوں سے پھڑپھڑاتے طائر نے جب شکاری کو دیکھنے کی کوشش کی تو اس کی نظریں حیرت، دکھ اور صدمے کے باعث اور زیادہ خون آلود ہوگئیں۔ قاتل کوئی دوسرا نہیں ، اس کا اپنا ہی یار تھا۔
وہ۔۔ وہ اس کا قریبی قلبی اور جگری دوست فراز تھا۔


***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
taemeer[@]gmail.com
syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز

Urdu short story 'Lahu Lahu Samundar'. By: Syed Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں