مغربی بنگال میں بی جے پی کے خیمے میں مایوسی کی لہر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-25

مغربی بنگال میں بی جے پی کے خیمے میں مایوسی کی لہر

کلکتہ
یو این آئی
لوک سبھا انتخابات میں بہتر نتائج کے بعد کلکتہ کے سنٹرل ایونیو میں واقع بی جے پی کا ریاستی دفتر ہمہ وقت میڈیا اہلکارون سے بھرا ہوتا تھا اور پارٹی لیڈروں کے چہروں پر بھی اعتماد کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی مگر دو سال بعد نہ بی جے پی کے دفتر میں میڈیا اہلکاروں کی بھیڑ ہے اور نہ ہی وہ عزم و حوصلہ اور اعتماد کی جھلک لیڈروں کے چہروں پر نظر آرہی ہے ۔ بلکہ ایک طرح سے بی جے پی کے دفتر میں خاموشی کا سماں ہے۔2014کے لوک سبھا انتخابات میں مودی لہر کی وجہ سے بی جے پی کا ووٹ 6فیصد سے بڑھ کر17فیصد تک پہنچ گیا اور دارجلنگ و آسنسول میں بی جے پی کو کامیابی بھی ملی۔ اس کے ساتھ ہی چوبیس اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کو سبقت حاصل رہی ۔ بی جے پی کا ووٹ فیصد کانگریس سے زیادہ بڑھ گیا ۔ سیاسی تجزیہ نگاریہ ماننے لگے تھے کہ بی جے پی جلد ہی ریاست کی دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اور ممتا بنرجی کے مقابلے اپوزیشن میں بی جے پی ہی رہے گی۔ بی جے پی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے نہ صرف بایان محاذ خوف زدہ تھی بلکہ ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کے خیمے میں بھی ہلچل تھی۔ یہاں تک کہ چیف منسٹر ممتا بنرجی نے اشاروں و کنایوں میں تمام سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتھاد کی وکالت بھی شروع کردی تھی۔ ستمبر2014میں ضمنی انتخاب میں بشیر ہاٹ جنوب اسمبلی حلقے میں بی جے پی کو کامیابی ملی، کئی دہائی بعد مغربی بنگال اسمبلی میں اپنی موجودگی بھی درج کرانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مگر2015بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کی کراری شکست نے بی جے پی کو عرش سے فرش پر پہنچادیا اور بی جے پی لیڈروں کا اعتماد و حوصلہ بھی ٹوٹ گیا اور بی جے پی میں خیمہ بندی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ 91میونسپلٹیوں میں سے کسی ایک میں بھی بی جے پی بورڈ بنانے کی پوزیشن تک میں نہیں پہنچ سکی ۔ اس کے بعد ہی بی جے پی میں میڈیا کی دلچسپی بھی کم ہوتی چلی گئی اس کے علاوہ دہلی اور بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کراری شکست ، تعلیمی اداروں میں ہنگامہ آرائی، ملک بھر میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی مہم ، انتہا پسند جماعتوں کی گرما گرم بیانات نے ریاست کے لبرل طبقہ جو2014میں مودی کو ترقی کی علامت سمجھ کر ووٹ دیا تھا وہ ایک بار پھر دوسرے خیمے جانے لگے ۔ آر ایس ایس کے قدیم قائد پردیپ گھوش کو بی جے پی بنگال کی کمان سونپ دی گئی مگر توازن برقرار رکھنے کے لئے بی جے پی نے مہیلا مورچہ کی کمان اداکارہ روپا گنگولی کو سونپی گئی تاکہ بنگال اسمبلی انتخابات کو ممتا بنرجی روپا بنایا جاسکے ۔ مگر نہ تو گھوش اور نہ ہی روپا بنگال کی سیاست میں اثر اندز میں ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور ان دونوں کا دائرہ کار صرف کلکتہ تک ہی محدود رہ گیا ۔ اس کے علاوہ ان دو سالوں میں بی جے پی ممتا بنرجی کے خلاف کوئی عوامی تحریک نہیں چلا سکی۔

Wave of disappointment in the BJP camp in West Bengal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں