اب کس سے منصفی چاہیں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-12

اب کس سے منصفی چاہیں؟

Art-of-Living-event-World-Culture-Festival
اس وقت جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں دہلی میں جمنا کے کنارے ایک ہزار ایکڑ زمین پروہ تین روزہ متنازعہ ، غیر قانونی اورہمالیائی پروگرام ختم ہوا چاہتا ہے جس کے انعقاد میں ماحولیات، آبیات، جنگلات، آبادیات، لینڈ، لااینڈ آرڈر ، سیلاب کنٹرول، پولس ، فائرسروسزاور دوسرے تمام متعلقہ محکموں کے قوانین وضوابط کی کھل کر دھجیاں اڑائی گئیں۔یہی نہیں بلکہ ماحولیات سے متعلق اعلی عدالت تک کو کھلا چیلنج دیدیاگیا اور سری سری روی شنکر نے صاف طورپرکہہ دیا کہ "جیل چلا جاؤں گا مگر جرمانہ نہیں بھروں گا"۔اس چیلنج پرعدالت نے اپنی برہمی توظاہر کی مگرسری سری روی شنکرکو 25لاکھ روپیہ جمع کرانے اور باقی رقم تین ہفتوں کے اندر جمع کرانے کی مہلت دیدی۔
ملک کی اعلی ماحولیاتی عدالت نیشنل گرین ٹریبونل(این جی ٹی)نے مذکورہ بالا تمام محکموں کی سرزنش کرتے ہوئے سری سری روی شنکر پر پانچ کروڑ کا جرمانہ اس لئے لگایا تھا کہ ان کی تنظیم نے مختلف محکموں سے اس پروگرام کے لئے مطلوب اجازت نامے حاصل نہ ہونے کے باوجودجمنا کنارے ایک ہزار ایکڑزمین کو پروگرام کی تیاریوں کے دوران ہی ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا تھا۔مگر سری سری روی شنکر نے عدالت کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور سینہ ٹھونک کر پورے 24گھنٹہ تک یہی کہتے رہے کہ" جیل چلاجاؤں گا مگر جرمانہ ادا نہیں کروں گا۔"یہاں ایک بات معزز عدالت سے کہنی ہے:عزت مآب جج صاحب، آپ نے جرمانہ کی کل (تجویز کردہ )رقم 120کروڑمیں سے محض پانچ کروڑروپیہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے پہلے جمع کرانے کی ہدایت دی تھی مگر آپ نے سری سری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی بجائے تین ہفتوں کی مہلت دے کربہت اچھا کیا۔ وہ تو آپ کا فیصلہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوئے اور جیل جانے کو ترجیح دیتے رہے لیکن آپ نے ان کو جیل نہیں بھیجا، یہ آپ کی رحم دلی اور وسعت نظری کا بڑا ثبوت ہے۔حالانکہ کسی کے پاس اس کی ضمانت نہیں ہے کہ جب سری سری پروگرام شروع ہونے سے پہلے آنے والے اتنے اہم موڑ پر جرمانہ بھرنے کو تیار نہیں ہوئے تو پروگرام ختم ہوجانے کے بعد وہ کیسے اداکرنے پر آمادہ ہوجائیں گے؟ آپ نے اس کے لئے ان سے کوئی ضمانت نہ لے کرجس وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا، اس کے لئے پورا ملک آپ کا ممنون ہے۔مگرہمیں دکھ آپ کے اور فاضل عدالت کے وقار کے کم ہوجانے کا ہے۔جب لاکھوں لوگوں کا پیر(مرشد)عدالت کے فیصلہ کی کھلے طورپر مذاق اور دھجیاں اڑائے گا تو عام ہندوستانیوں کا کیا ہوگا؟ لیکن کیا کسی عام ہندوستانی کو بھی اسی طرح عدالت کے فیصلہ کی بے حرمتی کرنے دی جائے گی؟اگر سری سری کی جگہ مسلمانوں کا کوئی قائد ہوتا تو کیا اسے بھی ایسی ہی چھوٹ دی جاتی؟یقیناً نہیں۔اس لئے کہ عزت مآب ہم تو دوسرے درجہ کے بھی شہری کہلانے کے لایق نہیں۔ہماری اقلیتی امور کی وزیر تو پہلے ہی ہمیں اس فہرست سے نکال چکی ہیں۔ان کی نظر میں اگر کوئی اقلیتی طبقہ مراعات کا مستحق ہے تو وہ اس ملک کا متمول اور خوشحال پارسی طبقہ ہے۔ایسے میں کون مسلمانوں کی بات پر کان دھرے گا۔
اب ایک سوال سری سری روی شنکر اور ان کے چاہنے والوں سے ہے:گروجی !عدالت کے حکم کو کھلے طورپرچیلنج کرنے کو آخر کیا نام دیا جائے؟کیا اسے آپ کی دیش بھکتی کہا جائے؟عدلیہ کا احترام کہا جائے؟آئین اور قانون کی پاسداری کہا جائے؟تو پھر کنہیااور آپ میں کیا فرق رہ جائے گا؟حالانکہ کنہیا نے تو عدلیہ کی ایسی بے حرمتی کبھی نہیں کی۔
آئیے اب" گروجی"کا پیچھا چھوڑتے ہیں۔اب اس ڈی ڈی اے کی بات کرتے ہیں جس کے قبضے میں نہ صرف جمناکی ایک ہزار ایکڑ زمین ہے بلکہ دہلی کی سو سے زیادہ مسجدیں، خانقاہیں، مزارات اور قبرستان بھی ہیں۔ڈی ڈی اے نے ایسا کھیل کھیلا کہ کچھ سمجھ میں بھی نہیں آیا اورگروجی کا کام بھی ہوگیا۔عدالت تک یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اتنا بڑا پروگرام کرنے کی ڈی ڈی اے نے اجازت دی یا نہیں دی۔گروجی کی تنظیم کہتی ہے کہ ہم نے تمام متعلقہ محکموں سے اجازت لے لی تھی۔لیکن ڈی ڈی اے کے سوا کوئی محکمہ عدالت میں یہ کہنے کو تیار نہیں ہوا کہ اس سے اجازت مانگی گئی تھی یا اس نے اجازت دیدی تھی۔خود ڈی ڈی اے نے بھی یہ کہہ دیا کہ اجازت لیتے وقت گروجی نے یہ بتایا ہی نہیں تھا کہ پروگرام اس بڑے پیمانے کا ہوگا۔اوما بھارتی کی وزارت آبپاشی نے تواپنا دامن ہی جھاڑ لیا۔انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ایک اور خبر یہ ہے کہ دادری میں مظلوم اخلاق کے قتل کو جائز ٹھہرانے والے وزیر ثقافت نے گروجی کی تنظیم کو اس پروگرام کے لئے ڈھائی کروڑ کی رقم عطاکردی۔اس وزارت کا کل بجٹ 50کروڑ کا ہے۔اور اسے پورے ملک میں ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہوتا ہے لیکن محض ایک ہی تنظیم کو اس نے بجٹ کا پانچ فیصد دیدیا۔
ڈی ڈی اے کا سربراہ دہلی کا لیفٹننٹ گورنر (ایل جی)ہوتا ہے۔خیر سے ایل جی صاحب تو پہلے ہی مرکز کے آقائے ولی نعمت کے اشارہ چشم وابرو پر جان چھڑکتے ہیں۔لہذاس وقت دہلی وقف بورڈکی مقبوضہ 123جائیدادوں میں سے 80فیصدجائیدادیں اڈی ڈی اے کے قبضہ وتصرف میں ہیں۔ان مقبوضہ جائیدادوں میں61قبرستان ہیں جن کا الگ الگ رقبہ دوبیگہ سے لے کر38بیگہ تک ہے۔ اسی طرح اس کے قبضہ میں22مسجدیں ہیں جن کا رقبہ ایک سے 18بیگہ کے درمیان ہے۔باقی 40جائیدادیں ، درگاہوں، مکانات اور دوسرے قسم کے پلاٹوں کی شکل میں ہیں اور ان کا رقبہ ایک بسواں سے لے کر 11بسواں تک ہے۔یہ تمام جائیدادیں نوٹیفائڈہیں اور گزٹ میں درج ہیں۔مگر ان پر ڈی ڈی اے اور دوسرے سرکاری اداروں اور نجی اکائیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔جب مسلمان کسی قبرستان، درگاہ یا کسی مسجد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ڈی ڈی اے آڑ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔دہلی میں قبرستانوں کی کتنی کمی ہے لیکن ڈی ڈی اے سینکڑوں ایکڑ قبرستانوں پر قابض ہے اور مسلمانوں کے حوالے نہیں کر رہا ہے۔یہی نہیں ایسا لگتا ہے کہ اس کی ساز بازسے وشوہندوپریشد بار بارمسلمانوں کے اوقاف پر اپنا دعوی پیش کرتا ہے۔مثال کے طورپر123جائیدادوں کو پچھلی حکومت نے نوئیفائی کرکے وقف بورڈ کے حوالہ کرنے کا حکم دیدیا تھالیکن اس عمل میں اتنی تاخیر کی گئی کہ وشو ہندو پریشد نے پھر عدالت سے رجوع کرلیا۔جسٹس بدردریز احمدنے وی ایچ پی کی سخت سرزنش کی اور پوچھا کہ کیا اب ملک میں مسجدوں کا انتظام بھی وی ایچ پی دیکھے گی؟ 25سال کی تاریخ میں پہلی باردہلی وقف بورڈ نے عدالت کا ایسا رخ دیکھا تھا لیکن اگلی ہی سماعت پروی ایچ پی نے جسٹس بدر دریز احمد کے سامنے "مفادات کا ٹکراؤ"کا نکتہ رکھا اور انہوں نے اس مقدمہ سے علاحدگی اختیار کرلی۔آج صورت یہ ہے کہ مقبوضہ مسلم اوقاف اور مسجدوں وخانقاہوں کو ڈی ڈی اے ہاتھ لگانے نہیں دیتا۔لیکن جب سری سری روی شنکرعالمی ثقافتی پروگرام کے لئے جمنا کنارے ایک ہزار ایکڑ زمین مانگتے ہیں تو انہیں نہ صرف یہ کہ پوری جمنا ہی اٹھاکر دیدی جاتی ہے بلکہ ڈی ڈی اے ، فوج ، دہلی اور مرکزی حکومت اور دوسرے تمام سرکاری محکمے ان کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔یہاں کجریوال اور مودی کے درمیان کوئی ٹکراؤ بھی نہیں ہوتا۔ معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو وہاں بھی انہیں راحت مل جاتی ہے۔وہ عدلیہ کو ہی چیلنج کردیتے ہیں تب بھی ان کا کچھ نہیں بگڑ تا۔لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ دہلی میں ہی ایک مسجد کو شہید کرکے اس پرتین منزلہ عمارت تعمیر ہوجاتی ہے۔اور جب مسلمان عدالت میں جاتے ہیں تو یہ کہہ کر انہیں بھگادیا جاتاہے کہ "اب تک کہاں سورہے تھے؟"اب کچھ نہیں ہوسکتا۔چونکہ مسلمانوں نے آنے میں دیر کردی اس لئے اب ان کی مسجد انہیں واپس نہیں دی جاسکتی۔اور شہید مسجد کی جگہ پر تعمیرتین منزلہ عمارت کو اب گرایا نہیں جاسکتا۔لیکن جب اوکھلامیں مسلمان ، خون پسینہ کی کمائی سے خرید ی ہوئی جگہ پراپنا جھونپڑا بنالیں اور ڈی ڈی اے یا کوئی اور اس کی شکایت عدالت سے کردے تو اس کے انہدام کے احکامات فوراً صادر کردئے جاتے ہیں۔اس وقت ڈی ڈی سے یہ نہیں کہا جاتاکہ تم نے آنے میں دیر کردی اور یہ کہ اب تک کہاں سورہے تھے؟جاؤ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔وزیر اعظم صاحب!اسی کو کہتے ہیں عدم رواداری اور تعصب، جو آپ کے آنے کے بعداور تیزی کے ساتھ معاشرہ کے ہر میدان میں سرایت کرگیا ہے۔اب آپ ہی بتادیجئے کہ کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں؟

***
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-chief VNI & Media Adviser to President IICC, New Delhi
ایم ودود ساجد

Sri Sri Ravi Shankar's Art of Living controversial event 'World Culture Festival'. Article: M. Wadood Sajid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں