غیر بی جے پی سیاسی دھاروں کا اتحاد ضروری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-10

غیر بی جے پی سیاسی دھاروں کا اتحاد ضروری

alliance-of-non-BJP-political-parties
غیر بی جے پی سیاسی دھاروں کا اتحاد ضروری
مختلف طبقات پر سنگھ کے حملوں سے ملکی حالت خستہ

ادھر حالات میں تبدیلی یا ابتری اس بری طرح سے آئی ہے کہ ملک کے اندر غریبی کے ، بیماری کے، مہنگائی کے ، وسائل کی کمی کے ، روزگار کے نئے مواقع کے فقدان کے، کسانوں کی خودکشی، خواتین پر جرائم کے تعلق سے کوئی بات پارلیمنٹ میں ہوپا رہی ہے نہ اسمبلی میں نہ عوامی جلسوں میں نہ نجی محفلوں میں نہ گھروں میں ۔
انفرادی اور اجتماعی دونو ں سطح پر فکر اور اظہار کو زبردستی اہم موضوعات سے موڑ کر ایسی بیکار باتوں کی طرف لے جا کر مرکوز کر دیا گیاہے جو ہندوستان میں قومی بیانیہ اور عوامی مکالمہ کی عمومی پہچان سے الگ ہیں۔ پارلیمنٹ میں پورا پورا دن حکومت کے گریز اور اپوزیشن کے نعروں کی گونج میں نکل جاتا ہے۔ نعرے نفرت آمیز تقریر کے خلاف لگتے ہیں ، نعرے حکومت کی چپی کے خلاف لگتے ہیں ، اجلاس ملتوی ہوتاہے ، دن کٹ جاتا ہے۔ پارلیمنٹ ملک میں عوام کی بھلائی کی تدبیروں پر مل کر سوچنے اور کسی نتیجے پر آنے کے اصل کام سے الگ غیر ضروری الجھنوں میں بری طرح سے پھنس گئی ہے۔ جو حال لوک سبھاکاہے وہی راجیہ سبھا کا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے اپنے حلقے کی مشکلات اور مسائل پر بات کرنے کی بجائے ایسے معاملات اٹھانے اور شور و غل کرنے پر مجبور ہیں جن کی گنجائش کم از کم پارلیمنٹ میں نہیں ہونی چاہیئے لیکن آ ج کا سچ یہ ہے کہ وہی چیزیں پارلیمنٹ پر چھائی ہیں اور ایک طرح سے فکر مندی شہریوں کو بیمار کرنے کیلئے کافی ہیں۔ آگرہ میں وی ایچ پی کا ایک لیڈر مارا گیا ۔ اس کے رسوم کی ادائیگی کی تقریب میں بی جے پی کے ایک منتخب ممبر اور وزارت فروغ انسانی وسائل میں جونیئر وزیر آر ایس کٹھیریا نے اشتعال انگیزی کی اور ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا۔کٹھیریا نے وہی باتیں کی ہیں جو کہ اب سے پہلے جیوتی نرجن، یوگی آدتیہ ناتھ ، ساکشی مہاراج ، پروین توگڑیا اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ کرتے رہے ہیں۔ یہ جیسے کہ آج کے ہندوستان میں سماجی مکالمہ کا ایک محاورہ بن گیا ہے۔ مرکزی وزیر کی زبان سے جب ایسی باتیں نکلتی ہیں جن میں انسان سے مذہب کی بنیاد پر انسان کی نفرت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ملک کے مجموعی بیانیہ میں زہر ناکی شامل ہوچکی ہے اور ڈھیٹائی یا جارحیت کے ساتھ۔سرکاری کارروائی کا ایک عالم تو یہ ہے کہ حکمراں جماعت کی طلبہ تنظیم کے ایک کارکن کے خلاف ہاتھ پائی کے الزام میں حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی کے ایک دلت اسکالر سمیت 5طالب علموں کو سزا یاب کر کے ذہنی طورپر اتنی تکلیف پہنچائی جاتی ہے کہ ان میں سے ایک روہت ویمولا خودکشی کر لے۔ 9 فروری کو جے این یو میں ایک تقریب کے دوران ہند مخالف نعرہ بازی کے الزام پر ایک کمیونسٹ طلبا تنظیم کے لیڈر کنہیا کمار پر ایک طرف غداری کا مقدمہ چلایا جاتا ہے اور دوسری طرف دیش بھگتی کا کالا کوٹ پہن کر پولیس کی موجودگی میں تین دن میں دو بار عدالت کے احاطہ میں ا س کی پٹائی کی جاتی ہے اور اس پورے معاملہ میں حکومت کی زبان یا توبند رہتی ہے یا کھلتی ہے تو مزید زہر پھیلانے کیلئے۔ وزیر داخلہ کو جے این یو میں لشکر طیبہ کا ہاتھ نظر آتا ہت مگر پولس اس کی تصدیق نہیں کر پاتی۔ وزیر تعلیم روہت کے ساتھ اس کے اپنوں کی بے حسی بیان کرنے مین ایسا کچھ بول جاتی ہین کہ ان کے خلاف استحقاق شکنی کے نوٹس کی نوبت آ جاتی ہے۔ ہندوستانی عوام حکومت کے سب سے اہم کارکن وزیر اعظم کی زبان سے یہ سننے کو بے چین ہیں کہ روہت ویمولا اور کنہیا کمار جیسے نوجوانوں کی نسل کے ساتھ سرکاری سلوک پر ان کا ردعمل کیا ہے۔ اس کی بجائے وہ آگرہ میں مرکزی بیان کی نفرت آمیز بیان بازی سننے پر مجبور ہیں اور اس پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہنگاموں کا بھی سامنا کررہے ہیں۔ کٹھیریا کا بیان اپنے آپ میں الگ اور جداگانہ بیان نہیں ۔ یہ ایک جاری سلسلے کی کڑی ہے۔ اسے روکنا حکومت کا کام ہے۔ سماج میں شدید قسم کی مذہبی منافرت پھیلاتے رہنے کانقصان بہر حال ہوگا۔ یہ نقصان شاید حکمران جماعت ، اس کے حلیفوں اور اس کی سرپرستی کرنے والی ہمشیر تنظیموں کیلئے تھوڑا بہت سودمند ہو۔ وہ بھی انتخابی سیاست کے نظر سے لیکن سماجی ہم آہنگی میں خلل اندازی کسی بھی قوم کے پنپنے میں معاون نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود ہندوستانی معیشت کو صحیح راہ پر نہیں ڈال سکی ہے۔ برآمدات میں کمی آئی ہے۔ ایسی رپورٹیں نگاہوں میں آرہی ہیں ۔ مینو فیکچرنگ گری ہے ۔ خدمات کا شعبہ کمزور ہوا ہے۔ یہ اقتصادی نمو کے اشاریے ہیں جو کمزور پڑ رہے ہیں اور جن کی طرف حکمرانوں کوفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن حکمرانی کی مسند پر بیٹھا ہوا طبقہ ایک عجیب طرح کی ضد اور جارحیت پر آمادہ ہے اور ایوانوں کے اندر سرکاری نمائندے عوام کے بپھرے ہوئے جذبات کو رام کرنے کی بجائے نئی اشتعال انگیزی سے عوام کے ان نمائندوں کو مزید بھڑکا رہے ہیں جو اتفاق سے اپوزیشن میں ہیں۔اس میں امید کی کرن یہ نظرآتی ہے کہ 16ویں لوک سبھا کے انتخابات کے بعد بی جے پی آر ایس ایس کے زور میں جو فکر مند طبقہ حالات پر نئے سرے سے غور کر کے کوئی حکمتِ عملی وضع کرنے سے پہلے الگ تھلگ ہوکر ایک گوشہ میں سمٹ گیا تھا، اس کے سامنے ایکشن پلان کی ضرورت ظاہر ہوچکی ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس گٹھ جوڑ کی سماج دشمن جارحانہ روش کے خلاف ہندوستان کے سیکولر ، سوشلسٹ ، جمہوریت نواز اور ترقی پسند عوام کو متحد ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ شاید حکومت کے نکمے پن پر شہری معاشرہ کی سرگرمی کسی تبدیلی کا باعث بن سکے کیونکہ سول سوسائٹی کی ہی بدعنوانی مخالف عوامی غیر سیاسی تحریک نے انا ہزارکے کی قیادت میں تب کے حمرانوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنا دیا تھا جس میں ان کے پاس دفاع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور من موہن سنگھ کی ای ک بہت درد مند اور عوام دوست حکومت کو بدعنوانی اور مہنگائی کے دہرے بھوٹ نے نگل لیا۔بی جے پی اپنی طاقت سے حکومت مین آ ئی ہوتی تو اسے اس وحشت کا سامنا نہیں ہوتا جس مین اب مبتلا ہے ۔یہ کانگریس کے مہنگائی اور بدعنوانی مخلاف کردار کے خلاف عوام کے منفی ووٹ بھی ہیں جنہون نے بی جے پی کو واضح اکثریت دلائی۔ کانگریس ادھر کے 30برسون مین صرف اپنی زمینیں کھو رہی ہے۔ بچا کھچا قطعہ اس لوک سبھا الیکشن مین اس کے ہاتھ سے نکل گیا لیکن کیا کانگریس ایسی کسی شکست کے بعد حرف غلط کے طور پر مٹ جاتی ہے۔؟ سابقہ تجربے اس سے مختلف ہین۔فیل گڈ اور شائننگ انڈیا کے نعروں کے درمیان بھی پارٹی نے دو معیاد کی حکومت کیلئے عوامی تائید حاصل کر لی تھی۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے مگر کانگریس کو دتگر ترقی پسند عوام دوست سیکولر اور جمہوریت نواز پارٹیوں ، طبقات، دانشوروں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ایک بڑی عوامی تحریک ہندوستان کے جمہوری مستقبل کی بقا کیلئے وجود میں آ نے کو تیار کھڑی ہے ۔ بائیں بازو کی پارٹیوں میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ہندوستان کے سیاسی مکالمہ مین لفٹ کی اصطلا ح کی واپسی ہوئی ہے۔بعض ریاستوں میں سیای اتحاد کی بات بھی چل رہی ہے مگر اسے قومی تحریک میں بدلنے کیلئے جس بہت بڑے پیمانہ پر تدبیر کی ضرورت ہے اس کا احساس شدت اختیار کرتا نظر نہیں آتا۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Necessity of alliance of non-BJP political parties. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں