پی آئی اے - کالم از جاوید اقبال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-02-07

پی آئی اے - کالم از جاوید اقبال

PIA
میں نے اس دن سے پہلے اپنی زندگی میں اتنا لحیم شحیم اور طویل القامت آدمی اتنے غصے میں چنگھاڑتا، اچھلتا ، اودھم مچانا نہیں دیکھا تھا اور اس دن کے بعد بھی ابھی تک دیکھ نہیں پایا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر جہاز سے اتر کر میں دوسرے مسافروں کے ساتھ سامان کی وصولی کے لئے متحرک بیلٹ کے پاس پہنچا تو وہاں یہ تماشا لگا تھا چیخم دھاڑ کرنے والا ایک امریکی تھا ۔ پی آئی اے اسے عدن سے لے تو آئی تھی لیکن اس کا سامان وہاں چھوڑ آئی تھی ۔ جولائی92ء کے اوائل کی بات ہے ۔ اسے دو گھنٹے بعد کولمبو کے لئے پرواز لینی تھی ۔ گریٹ پیپل ٹو فلائی وِو۔۔۔۔مائی فٹ ۔ وہ بار بار ہاتھ نچاتا یہ جملہ طنزیہ انداز میں دہرارہا تھا ۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر قریبی کرسی پر بٹھالیا اور پھر اس سے سوال کیا : مسٹر! تمہارا جو کچھ بھی نام ہے ، کیا ایسا ناخوشگوار واقعہ کبھی یورپ یا امریکہ میں پیش نہیں آتا؟ کیا وہاں ہوا بازی کی کمپنیاں اپنا ہر کام بہترین اور مثالی انداز میں کرتی ہیں؟اپنی بے ترتیب سانسوں پر قابو پاتے ہوئے وہ بولا: میرے سفر کا آغاز جنوبی افریقہ سے ہوا تھا ۔ عدن پہنچا ، میر ا ہیڈ بیگ میرے پاس تھا۔ وہاں تک ایسٹ افریقین ایئر لائنز مجھے لائی تھی ۔ انتہائی پرسکون سفر رہا ۔ عدن میں پی آئی اے کے اہلکاروں نے مجھ سے ہینڈ بیگ لے کر اسے میرے سامان کے ہمراہ کار گو میں ڈال دیا۔ اب میں یہاں ہوں ۔ نہ سامان آیا ہے ، نہ ہیڈ بیگ اور صرف دو گھنٹے بعد میری اگلی پرواز ہے ۔ کولمبو میں چند اعلیٰ حکام میرے استقبال کے لئے ہوائی اڈے پر موجود ہون گے۔ سوچا تھا کراچی کے ہوائی اڈے پر ہینڈ بیگ سے تہہ کیا ہوا سوٹ نکال کر پہنوں گا اور اب میں ہوں اور میری بے بسی ہے۔ گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد۔۔۔۔وہ عاجزی سے بولا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے کسی امریکی پر ترس آیا ۔
پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز کی بنیاد تقریباً 7دہائیاں قبل رکھی گئی تھی۔ 1946میں جب پاکستان کے خدو خال واضح ہوئے تو بانی پاکستان محمد علی جناح کو احساس ہوا کہ تشکیل مملکت کے بعد ایک قومی ایئر لائن ہونی چاہئے ، چنانچہ انہوں نے دوباثرت تاجروں مرزااحمد اصفہانی اور آدم جی حاجی داؤد سے مدد کی درخواست کی۔ قبل ازیں23اکتوبر1946کے دن کلکتہ میں اوریئنٹ ایئرویز نام کی ایک ہوا باز کمپنی قائم کی جاچکی تھی ۔ اس نے1947کے ابتدائی مہینوں میں کلکتہ سے اپنی پروازوں کا آغاز کیا تھا ۔ 14اگست1947کو قیام پاکستان کے بعد اوریئنٹ ایئرویز نے ہجرت کے متاثرین کے لئے اپنی خصوصی پروازوں کا آغاز کیا ۔ برطانوی راج کے دوران اپنا وجود پانے والی یہ کمپنی 1947ء سے 1955ء تک ملک کے مغربی اور مشرقی حصوں میں کام کرتی رہی تاہم دونوں صوبوں کے درمیان پروازوں کا آغاز6جون1954ء کو ہوا۔ کراچی ڈھاکا پروازوںکے علاوہ کراچی، لاہور ، پشاور اور کراچی ، کوئٹہ ، لاہور کے لئے بھی جہاز اڑنا شروع ہوگئے۔
ٍٍ 11مارچ1955ء کو حکومت پاکستان کی ہدایت پر اور یئنٹ ایئرویز اپن انام بدل کر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز بن گئی جب کہ اس کے فورا بعد کراچی لندن کی پروازوں کا آغاز ہوگیا۔ اس وقت تک اور بعد کے چند برسوں میں یہ قومی ایئر لائن خسارے میں رہی ۔1959ء میں ایئر مارشل نور خان کو پی آئی اے کا مینجنگ ڈائرکٹر مقرر کیا گیا تو ہماری قومی ایئر لائنز کے عروج کا آغاز ہوا ۔ دو برسوں کے اندر ہی کراچی لندن نیویارک پرواز شروع ہوگئی ۔ اسی برس یعنی1961ء میں پاکستانی کیپٹن عبداللہ بیگ نے اپنے بوئنگ جہاز میں لندن سے کراچی پرواز کے دوران تیز ترین اڑان کا اریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے938.78کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے مسافروں کو سفر کرایا جو آج تک ایک ریکارڈ ہے ۔ پی آئی اے کا ایک اور طرہ امتیاز یہ بھی تھا کہ اس نے1964میں بیرونی دنیا سے عوامی جمہوریہ چین کے لئے پہلی پرواز کی۔
70کی دہائی میں پی آئی اے نے اپنا پر پرواز بحر اوقیانوس پر پھیلا دیا اور نئی منزلوں کا اضافہ ہوا ۔ ان دس برسوں کے دوران ایئر مارشل نور خان دوبارہ ہماری قومی ایئر لائن کے سربراہ تھے ۔1971ء کے مشرقی پاکستان کے بحرا ن میں اس ادارے نے انتہائی فعال کردار ادا کیا اور ڈھاکا کے لئے اپنی پروازیں سری لنکا کی راہوں سے جاری رکھیں،1972ء میں جنرل قذافی کے پاکستان کے دورے کے بعد طرابلس کا ہوائی اڈہ بھی ایک نئی منزل مقصود بنا جب کہ اسی برس یوگو سلاویہ نے بھی اپنی بانہیں ہمارے طیاروں کے لئے کھول دیں ۔ اسی دہائی کے وسط میں1975ء میں پی آئی نے اپنی ایئر ہوسٹس کی نئی وردی متعارف کرائی جسے ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کے درزی سر ہارڈی ایمنز نے سیا تھا ۔70کی دہائی میں ہماری قومی ایئر لائن کو ایشیاء کی بہترین کمپنی گردانا جاتاتھااور اس نے متعدد دوسرے ممالک کے ہوا بازی کے اداروں کو نہ صرف منظم کیابلکہ انہیں اپنے ہوائی جہاز کرائے پر دیکر انہیں آغاز فراہم کیا۔ صومالی ایئر لائن، فلپائن ایئر لائنز ، ایئرمالٹا اوریمنیہ ایسی ہی کچھ کمپنیاں ہیں اور اسی دہائی کے اواخر میں پی آئی اے کے کیٹرنگ یونٹ نے متحدہ عرب امارات کو اپنی خدمات فراہم کرنا شروع کیں ِ،1985ء تک ہمارا یہ ادارہ ایشیا بھر میں پہللے نمبر پر اسی لحاظ سے آچکا تھا کہ اس کے پاس ہوائی جہاز وں کی متعدد اقسام حالت پرواز میں تھیں اور پھر1980ء کی دہائی کے وسط میں پی آئی اے نے اپنے دو ہوائی جہاز ایئر بس اور بوئنگ737کرائے پر دے کر امارات ایئر لائن کو قائم ہونے میں مدد دی ۔1994ء میں پی آئی اے نے جکارتہ، فجیرہ، باکو اور العین کے لئے جب کہ1993میں زیورخ کے لئے پروازوں کا آغاز کیا ۔ اس وقت منیجنگ ڈائریکٹر ایئر وائس مارشل فاروق عمر تھے جنہوں نے پی آئی کو ایک انتہائی منافع بخش ادارہ بنادیا تھا ۔ پھر فاروق عمر کی روانگی کے بعد ہر کمالے راز والے کی داستان کا آغاز ہوا ۔
1990ء کے اواخر میں واشنگٹن،2006میں ہوسٹن اور2012ء میں شکاگو جانے والی پروازیں بند ہوگئیں ۔ 5مارچ2007کو یورپی کمیشن نے ہمارے42جہازوں کے بیڑے میں سے33کو یوروپ کے کسی بھی شہر میں پرواز سے روک دیا ۔2005ء سے قومی ایئر لائنز مسلسل خسارے کا شکار چلی آرہی ہے ۔ اس زوال کے اسباب تو کئی ہونگے لیکن سب سے زیادہ تباہ کن عنصر وہ سیاسی بھرتیوں کا سیلاب ہے جو مختلف حکومتوں کے دوران پی آئی اے کے قانونی دروازے توڑنا ہر قاعدے اور اخلاقی تقاضے کو خس و خاشاک کی طرح بہاتا رہا ہے ۔ 40جہازوں کے بیڑے کے لئے اتنے غیر تربیت یافتہ اور غیر متعلق افراد بھرتی کئے گئے کہ آج ایک جہاز کے کھاتے میں776پڑرہے ہیں اور یہ تعداد دنیا بھر کے ہوا بازی کے اداروں کی اوسط سے بہت زیادہ ہے ، عموماً ایک بوئنگ یا ایئر بس پر250افراد کا عملہ بھرتی کیاجاتا ہے ۔ حکومت یوں کیوں نہیں کرتی کہ پی آئی اے میں بھرتیوں کا جو اندھیر90کی دہائی اور پھر بعد کے دس برسوں میں مچا رہا ہے اس ریکارڈ کو کھولے اور کچا چٹھا قوم کے سامنے پیش کردے ، کون کب کس کی پرچی لے کر آیا اور گھر بیٹھے ماہانہ مشاہرہ لے رہا ہے ۔ قومی ملکیت کے سب سے بڑے داعی ملک چین نے بھی تبھی ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھا جب ڈینگ شیاؤ پنگ نے وہاں پرائیویٹائزیشن متعارف کرائی تھی۔

جاوید اقبال

The PIA. Column: Jawed Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں