انگریزی و اردو کا ذولسانی اخبار ۔ ضرورت و افادیت - واٹس اپ گروپ مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-01-31

انگریزی و اردو کا ذولسانی اخبار ۔ ضرورت و افادیت - واٹس اپ گروپ مکالمہ

whatsapp-debate-bilingual-newspaper
شائع شدہ: روزنامہ "خبریں" (نئی دہلی) ، بروز اتوار - 31/جنوری 2016ء
اخبار لنک
بشکریہ : زین شمسی

مغربی بنگال کے معروف شاعر و ادیب احمد کمال حشمی کے قائم کردہ واٹس اپ گروپ "قرطاس و قلم" کا ایک مکالمہ۔

مکرم نیاز
فیس بک کے ایک مکالمے میں جناب احمد ارشد حسین نے لکھا ہے کہ ۔۔۔ میرے خیال میں آج کی پہلی ضرورت ہے کہ اخبار دولسانی ہو۔ کم سے کم اس بہانے نئی نسل اردو تو پڑھے گی۔

جاوید نہال حشمی
ایک بالکل نیا اور منفرد آئیڈیا پیش کیا ہے انہوں نے : دو لسانی اخبار۔ واقعی اس پر سنجیدگی سے غور و فکر اور مباحثے کی ضرورت ہے ۔

ارشد جمال حشمی
فلاپ آئیڈیا ہے ۔ کوئی نہیں خریدے گا ذولسانی اخبار۔ دو روپے دے کر ایک روپئے کا مال کون خریدنا چاہے گا؟

جاوید نہال حشمی
غیر اردو داں حضرات میں سے کئی یہ جاننے کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ اردو والے کیا لکھتے ہیں اور ان کا اندازِ فکر کیا ہے جب کہ اردو والے چاہتے ہیں کہ ان کی بات غیر اردو داں طبقے تک بھی پہنچے . کچھ تو فرق پڑے گا۔

مکرم نیاز
ارشد حسین کا یہ بہت پرانا آئیڈیا ہے ۔ آئیڈیا کے مقبول/فلاپ ہونے کا معاملہ علاقے علاقے پر منحصر ہوتا ہے ۔ حیدرآباد میں اس طرز کے اخبار کا ڈیمانڈ مجھے بھی محسوس ہوا۔ لہذا مستقبل میں ارشد حسین کے ساتھ اس طرز کے پرنٹ اخبار کو لانچ کرنے کچھ ہمخیالوں کا ارادہ ہے ۔ اور دوسری مزیدار بات یہ کہ ارشد حسین کے مطابق اس اخبار کو اشتہارات کے ذریعے مفت نکالا جا سکتا ہے ۔

ارشد جمال حشمی
گویا یک نہ شد دو شد ۔ مفت اخبار سے زیادہ بے کار آئیڈیا ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ ایسی صورت میں اس کا ڈیمانڈ قارئین سے زیادہ دیگر "صارفین" میں ہوگا۔ پرچون والے لفافے بنانے کے لئے ، روزانہ کے مسافر ٹرین کی سیٹیں صاف کرنے کے لئے اور مائیں شیرخواروں کو "پوٹی" کرانے کے لئے لے جایا کریں گی۔ سستا ہی سہی مگر اخبار کی ایک قیمت ضرور مقرر ہونی چاہیئے ۔

مکرم نیاز
جناب عالی مغربی بنگال اور تلنگانہ کے اخبار بینوں میں کچھ فرق بھی ہے ۔ ویسے مفت اخبار کی سہولت ایک آدھ ہفتہ دینے میں کوئی خرابی نہیں ہوگی۔

ارشد جمال حشمی
ممکن ہے اخبار بینوں میں فرق ہو لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جن "دیگر صارفین" کا ذکر میں نے کیا ہے وہ تلنگانہ میں بھی ویسے ہی ہوں گے ۔

خورشید اقبال
بھائی تلنگانہ بھی انڈیا میں ہی ہے امریکہ میں نہیں۔۔۔ امریکہ میں اخبارات مفت ہوتے ہیں. لیکن لوگ "دیگر صارفین" جیسی حرکتیں نہیں کرتے ۔

ارشد جمال حشمی
بھئی تلنگانہ انڈیا میں ضرور ہے لیکن تلنگانہ کے جو لوگ سعودی عرب میں رہتے ہیں ان کی "رویہ جاتی مطابقت" ہو گئی ہے اس لئے وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے ۔

جاوید نہال حشمی
عموماً نئے رسائل و اخبارات کمرشیل مقاصد کے تحت نکالے جاتے ہیں۔ لیکن ارشد حسین صاحب نے آخری جملے میں اپنا مقصد واضح کر دیا ہے ، یعنی نئی نسل کو اردو پڑھنے پر مجبور کرنے کا۔ لہٰذا قیمت اور "دیگر صارفین" کی بحث مذکورہ تناظر میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دیر سویر بقا کا مسئلہ ضرور کھڑا ہوگا جس کی فکر ارشد حسین صاحب کو بھی ہے ۔

ارشد جمال حشمی
بقا کا سوال بعد میں آتا ہے ۔ اول تو مقصد ہی فوت ہو جائے گا جب اخبار اسٹال پر پہنچنے سے پہلے ہی پرچون کی دکان پر پہنچ جائے گا۔ میں نے ایک زمانے میں خود دیکھا ہے کہ اسپات ایکسپریس میں روزانہ سفر کرنے والے بیسوں مسافر سیٹ نہ ملنے پر ایک روپیہ میں ایشین ایج خرید کر فرش پر بچھا کر بیٹھ جاتے تھے اور پڑھنے کے لئے ٹیلیگراف خریدتے تھے ۔ جب ایک روپئے کا یہ انجام ہے تو فری کا عالم تصور کیا جا سکتا ہے ۔ مغربی بنگال میں ٹیلیگراف کی جو کھپت ہے اور جس قدر اشتہارات اسے ملتے ہیں اے بی پی گروپ آرام سے اسے فری میں دے سکتا ہے مگر ظاہر ہے ایسی حماقت وہ کیوں کرنے جائے ۔

مکرم نیاز
مفت اخبار کی بحث ختم کر کے یہ بتائیں کہ دو لسانی کس طرح خراب بات ہے ؟

ارشد جمال حشمی
میں نے پرسوں ہی بک فیر میں اردو کے چنندہ نظموں کی ایک ضخیم کتاب بڑے شوق سے اٹھائی مگر یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ ہر نظم کو مقابل کے صفحے پر دیوناگری میں چھاپنے کی وجہ سے کتاب اتنی ضخیم ہو گئی تھی۔ لہٰذا میں نے اسے پرے ہٹا دیا۔ میرا خیال ہے کہ اردو کے 90 فیصد سے زائد قارئین کا رویہ یہی ہوگا بلکہ ہندی کے ننانوے فیصد قارئین کا رویہ بھی یہی ہوگا سوائے ان ہندی دانوں کے جو اردو رسم الخط سیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ یقین مانئے اردو شاعری کے شوقین ہندی دانوں کی اکثریت اردو کو دیوناگری لیپی میں ہی سیکھنا چاہتی ہے ، اردو رسم الخط میں نہیں۔ جب شوقینوں کا یہ عالم ہے تو صرف خبر پڑھنے کے لئے کوئی ذولسانی اخبار کیوں خریدے گا، جب اس کی اپنی مادری زبان میں اخبار دستیاب ہے ۔ اگر مفت یا کم قیمت کی وجہ سے خرید بھی لیا تو اپنی زبان کا حصہ پڑھ کر اردو والے حصے کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو "دیگر صارفین" کرتے ہیں۔

مکرم نیاز
مجھے یہ دلیل کوئی وزنی نہیں لگی کہ خبر پڑھنے کے لیے دو لسانی اخبار خریدا نہیں جائے گا۔ میرے خیال سے اخبار صرف خبریں پڑھنے کے لیے خریدا نہیں جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر شہر میں صرف ایک ہی اخبار کا راج ہوتا۔ مواد کا تنوع انفرادیت اور انداز پیشکش زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

ارشد جمال حشمی
متفق۔ لیکن ذو لسانی اخبار میں اردو کو کون پڑھے گا؟ ابھی بھی کئی اشاعتی ادارے ہیں جو کئی زبانوں میں الگ الگ اخبار نکالتے ہیں۔ یہ طریقہ کامیاب بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔ ذولسانی کی تْک میری سمجھ میں تو نہیں آتی۔

احمد کمال حشمی
میں جب ہم لوگ کسی کے یہاں قرآن خوانی میں جاتے تھے تو ایک سپارہ دو بچّے ایک ساتھ پڑھتے تھے ۔ ایک بچّہ دائیں طرف کا صفحہ اور دوسرا بچّہ بائیں طرف کا صفحہ پڑھتا تھا تاکہ ایک سپارہ جلد ختم ہو سکے ۔ ذولسانی اخبار قارئین شاید اسی طرح پڑھیں گے ۔

مکرم نیاز
سنبھل کے ۔۔۔۔ مجھے غصہ آ جائے تو کہیں ذولسانی اخبار اگلے ماہ ہی سے جاری نہ ہو جائے ۔

جاوید نہال حشمی
Human being is all but argument-proof... So move on to the next topic, if any

مکرم نیاز
خیر مذاق برطرف ۔۔۔۔ ویسے یہ ڈسکشن مفید ہی ہے کہ جانا جائے ۔۔۔ ذولسانی اخبار کی آج افادیت ہے یا نہیں؟ یہ پوچھنا تھا کہ ۔۔۔۔ نئی و نوجوان اردو نسل کا اس ذولسانی اخبار کے متعلق کیا خیال ہے یا رہے گا؟ کیونکہ ہمارا دور ختم ہو چکا ۔۔۔۔ یہ ذو لسانی اسی نئے دور کی دین ہے ۔ موجودہ تکنالوجی کے کسی بھی گیجٹ کو ملاحظہ فرما لیجیے ۔۔۔۔ ایک بٹن دبانے پر زبان تبدیل۔ تو اسی موجودہ ٹرینڈ کے مطابق ۔۔۔۔ ایک ہی اخبار میں دو زبانیں کیوں کر نہیں ہو سکتیں؟ یہ بات چھوڑ دیں کہ پچھلے زمانے میں ایسا نہیں ہوا یا ناکام ہوا ۔۔۔۔ موجودہ نسل کو ذہن میں رکھ کر مکالمہ کیجیے ۔

ارشد جمال حشمی
گیجیٹ میں زبان تبدیل کرنے کا جھمیلہ وہی لوگ پالتے ہیں جنہوں نے مادری زبان کو گلے لگایا ہوا ہے اور انگریزی ان کے گلے پڑ گئی ہے ۔ ورنہ نئی نسل یہ جھنجھٹ نہیں پالتی۔ میں نے جو کچھ کہا ہے نئی نسل کو مد نظر رکھ کر ہی کہا ہے ۔

مکرم نیاز
لیکن میں اور ارشد حسین نے نئی نسل کے موجودہ ٹرینڈ کو نظر میں رکھ کر ہی اس پر ڈسکشن کیا تھا کہ ذولسانی آج کی ضرورت ہے ۔

ارشد جمال حشمی
ویسے ہر آدمی کے تجربے کے سیاق و سباق علاحدہ ہوتے ہیں۔ آپ کا تجربہ میرے تجربے سے مختلف ہوسکتا ہے ۔

مکرم نیاز
یہ درست ہے کہ کسی بھی زبان کی نسل ہو ، اخبار یا رسالے کے مطالعے سے آج کے دَور میں دور ہے ۔ ہم اردو کی نوجوان نئی نسل کو ۔۔۔ جس نے اسکول/کالج میں اردو زبان بحیثیت ایک زبان لی ہو ۔۔۔ صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ انگریزی کے ساتھ ساتھ یہ جو اردو اخبار آ رہا ہے وہ بھی پڑھو۔

ارشد جمال حشمی
اس لئے الگ تناظر کے تجربوں کو چھوڑ کر تجربہ کر لینے میں کچھ حرج نہیں۔ اس کے نتائج میرے لئے دلچسپ رہیں گے خواہ میرے اندازے کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔

***

The need and benefit of a bilingual urdu english newspaper, dialogue on a WhatsApp group.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں