پی ٹی آئی
پاکستانی میڈیا اداروں نے آج کہا کہ ہندوستانی ایر فورس کے پٹھان کوٹ میں واقع اہم اڈہ پر عسکریت پسندوں کے حملوں سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان مذاکرات کے عمل کو بحال کرنے کی کوششوں کے لئے چیلنج پیدا ہوگیا ہے حالانکہ ہندوستان اور پاکستان کے قائدین کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کی وجہ سے خیر سگالی کا ایک ماحول بنا ہے۔ اخبار ایکسپریس ٹریبون نے صفحہ اول پر نمایاں اہمیت کے ساتھ اس خبر کو شائع کیا اور کہا کہ حملہ تو ختم ہوگیا لیکن اس سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان مذاکرات کے عمل میں نئی جان ڈالنے کی کوششوں کو چیالنج لاحق ہوگیا ہے ۔ دی نیوز انٹر نیشنل نے اطلاع دی کہ بندوق برداروں نے یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب وزیر اعظم مودی نے باہمی مذاکرات کے احیاء کی کوشش کے طور پر اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ملاقات کے لئے اچانک دورہ کیا ۔ نیو کلیرطاقت کے حامل پڑوسیوں کے درمیان مذاکرات کی کوششیں اسی طرح کے واقعات کے باعث پٹری سے اتر گئی تھیں تاہم پاکستانی حکام نے اس حملہ کی مذمت کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تازہ مذاکرات زیادہ دیر پا ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اخبار ڈان نے کہا کہ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد ہندوستان کی جانب سے فوری طور پر سامنے آنے والے اشاروں سے یہی لگتا ہے کہ معتمدین خارجہ کے مذاکرات اس حملہ کے باوجود بھی آگے بڑھیں گے لیکن واقعہ کا مذاکرات کی فضا پر اثر رہے گا۔ ہندوستان توقع ہے کہ میٹنگ سے قبل واقعہ کی ابتدائی تحقیقات مکمل کرے گا اور مذاکرات میں اس کے موقف کا انحصار اس امر پر ہوگا کہ تحقیقات میں کیا نکل کر آتا ہے ۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ اسے امید ہے کہ حالیہ اعلیٰ سطحی رابطوں کی وجہ سے پیدا شدہ خیر سگالی پروان چڑھے گی ۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پرنٹ میڈیا نے زیادہ ترحملہ پر اس کے نتیجہ میں امن مساعی پر پڑنے والے امکانی اثرات پر توجہ مرکوز کی ہے جب کہ الکٹرانک میڈیا اس حملہ کو پاکستان سے جوڑنے کے لئے کوشاں ہندوستانی ٹی وی چیانلوں کا جواب دینے میں مصروف رہا ۔ اردو اخبارات نے بھی واقعہ کے بارے میں زبردست کوریج کیا ۔ بیشتر اخبارات نے حملہ کی تفصیلات اور ہندوستانی سیکوریٹی فورسیس کے رد عمل پر زور صرف کیا ہے ۔ نیز انہوں نے تحقیقات کے بغیر پاکستان پر الزامات پر تنقید کی ہے ۔ اخبار جنگ نے اطلاع دی کہ ہندوستانی عہدیداروں نے روایتی رد عمل دیتے ہوئے اس حملہ کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
Pathankot attack can affect Indo Pak talks
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں