قسط-1 : بروز اتوار - 3/جنوری 2016ء
قسط-2 : بروز اتوار - 10/جنوری 2016ء
قسط-3 : بروز اتوار - 17/جنوری 2016ء
بشکریہ : زین شمسی
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم (چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز ، اردو پی۔جی کالج ، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد) کے قائم کردہ فیس بک گروپ "ادبی محاذ" کا ایک مکالمہ
مکرم نیاز
ٹائمز آف انڈیا کے شمارہ 17/مارچ 2014 میں شائع شدہ محترمہ بشریٰ بصیرت کی ایک انگریزی رپورٹ (اعلیٰ تعلیم یافتہ حیدرآبادی مسلم خواتین کے لیے رشتہ کی تلاش کا مسئلہ ، Difficult to find grooms for Hyderabad's 'over qualified' Muslim women) کے مطابق ۔۔۔۔
"فری تعلیم اور فیس ری ایمبرسمنٹ کی اسکیمس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے پیمانہ پر مسلم لڑکیوں نے ایک سے بڑھ کر ایک اور اعلیٰ سے اعلیٰ پروفیشنل تعلیم حاصل کر لی۔ یہاں تک کہ ہر سال دس لڑکیوں میں سے 7 لڑکیاں اعلیٰ تعلیمی اسناد رکھتی ہیں۔ اور اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لئے اسی مناسبت سے مناسب رشتے نہیں مل پا رہے ہیں کیونکہ مسلم سماج میں لڑکیاں تو تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن لڑکے تعلیم کے میدان میں کافی بچھڑ چکے ہیں ۔ اب جو لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی ہیں وہ اپنے سے کم تر قابلیت والے لڑکے سے شادی کے لئے بادل نخواستہ ہی آمادگی کا اظہار کرتی ہیں۔"
میرے خیال سے اب اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں والدین بیٹیوں کی بہ نسبت بیٹوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیں۔ "توجہ" کا مطلب ۔۔۔ سختی بھی اور سہولیات کی فراہمی بھی۔ اور ان دونوں میں اعتدال ہو۔ زیادہ سختی کرنے پر لڑکے تعلیم سے بیزار ہو جاتے ہیں اور زیادہ ڈھیل یا سہولیات دینے پر لاپرواہ !
مہر افروز
دنیاوی ڈگری دلہا/دلہن کے رشتوں کے انتخاب کا پیمانہ نہ کبھی تھی اور نہ ہے۔ اصل پیمانہ تو مرد کی قابلیت، کمانے کی صلاحیت اور اہل خانہ کی بہتر نگہداشت کا رویہ ہوتا ہے۔ اگر لڑکی یہ سوچے کہ وہ تعلیمی لحاظ سے زیادہ قابل ہونے کے سبب برتری رکھتی ہے تو پھر وہ احمق ہے۔ دوسری بات یہ کہ زیادہ کمانے کے قابل مرد کو دوسری شادی کے ذریعے معاشرے کا یہ مفروضہ ختم کرنا چاہیے کہ صرف ایک ہی بیوی سے وفاداری ضروری ہے۔ یہ تو ہندو آئیڈیالوجی ہے جبکہ مسلمان بیوی کو قرآن و سنت کے احکام کے تحت شوہر کی دوسری شادی کی حمایت کرنا چاہیے۔
پروفیسر بیگ احساس
جناب مصطفی علی سروری نے بھی روزنامہ "سیاست" میں اس موضوع پر کالم لکھا تھا۔
مصطفیٰ علی سروری
جناب سلیم فاروقی کی فرمائش پر میں نے بھی اس موضوع پر روزنامہ "سیاست" کے اپنے ہفتہ وار کالم میں اس عنوان "کبھی گناہ سے پہلے ، کبھی گناہ کے بعد" کے زیرتحت قلم اٹھایا تھا، جسے آن لائن یہاں پڑھا جا سکتا ہے [http://goo.gl/aAYbbs] پروفسیر بیگ احساس صاحب کا اسی جانب اشارہ ہے۔ بشریٰ بصیرت جامعہ عثمانیہ کی طالبہ ہیں اور کافی عرصے سے ٹائمز آ ف انڈیا میں برسر کار ہیں۔
سلیم فاروقی
علیم خان فلکی سوشیو ریفارم سوسائٹی کے ذریعے جہیز مخالف مہم چلا رہے ہیں۔ میں تمام احباب کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ شادیوں میں بے جا رسومات اور اسراف کی لعنت کو ختم کرنے کا حل بتائیں۔ یا پھر جہیز لینے والے لڑکوں کی شادی کا بائیکاٹ۔
مکرم نیاز
جناب سلیم فاروقی ، آپ جس ایشو پر بات کر رہے ہیں وہ ایک مختلف مسئلہ ہے۔ اور سروری صاحب نے ایک مختلف معاملے پر قلم اٹھایا ہے۔ یہ ہمارے عہد کا ایک سنگین سماجی نفسیاتی مسئلہ ہے ۔۔ یعنی لڑکیوں کی زیادہ تعلیم اور اس کے نتیجے میں ان کے رشتے کے معاملے میں پیدا ہونے والی صورتحال۔ ظاہر ہے کہ اس معاملے کا تعلق براہ راست " انٹی ۔ ڈاؤری ۔ موومنٹ" سے نہیں ہے۔ البتہ اس موضوع پر افروزہ صاحبہ کا تبصرہ قابل غور و فکر ہے۔ لڑکیوں کی زیادہ / اعلیٰ تعلیم ۔۔۔ پروفیسر فاطمہ بیگم پروین اور پروفیسر بیگ احساس کی طرح میرا خود بھی یہی خیال ہے کہ اس مسئلہ کا حل یہ نہیں کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے روک دیا جائے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے ، یہ ہر دور میں رہا ہے۔ آج سے 20۔25 سال پہلے بھی یہ مسئلہ موجود تھا گو کہ اتنی سنگین تعداد میں نہیں جتنا آج ہے۔ یہی سبب تھا کہ اس دور کے اس معاشرتی مسئلہ پر میں نے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کی ذہنی نفسیاتی کیفیت کو اپنے ایک افسانہ "اداس رات کا چاند" کے ذریعے اجاگر کیا تھا۔
محمد علم اللہ
بہت بھیانک موضوع ہے۔ اس پر کچھ سوچ کے لکھنا پڑے گا۔ بہت سارے تجربات ، خیالات اور مشاہدات ہیں۔ راقم حیدرآباد میں 6 مہینہ رہا، دہلی میں 6 سال۔ بھٹکل اور اعظم گڈھ میں بھی مختلف صورتحا ل دیکھی، کوشش کروں گا کہ کچھ اپنے تاثرات بیان کر سکوں۔
دلجیت قاضی
لڑکی کی شادی بیاہ کا مسئلہ تو بہت پرانا ہے۔ ہاں تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لئے مناسب لڑکے کی تلاش سنگین رْخ اختیار کر گئی ہے۔آخر کیوں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب ہوئیں؟ اسکا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ آج سے 25۔30 سال پہلے جب لڑکیوں کی تعلیمی قابیلیت میٹرک، انٹر یا زیادہ سے زیادہ گریجویشن ہوا کرتی تھی۔ مسلم نوجوانوں میں تعلیمی شعور آنے لگا۔ سعودی عرب اور دوسرے ممالک جاکر کمانے کا رجحان بڑھنے لگا تو خود لڑکوں کو یا کہیں کہیں والدین کو قابل بہو کی خواہش ہونے لگی۔ یعنی کہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیمی قابیلیت کی ڈیمانڈ خود لڑکے والوں کی طرف سے ہونے لگی تھی۔۔اس وقت جو پڑھی لکھی لڑکیاں تھیں ان کی فٹافٹ شادیاں ہونے لگ گئیں تو اکثر والدین جو لڑکی کی اعلیٰ تعلیم کے قائل نہ تھے وہ بھی اپنی لڑکی کے بہتر مستقبل کا سوچ کر لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے پر راضی و مجبور ہونے لگے۔ ہر تجربے کا نتیجہ جاننے کے لیے چاہے وہ دواؤں کا ہو کہ سماجی رویوں و رجحانات کا، 20۔25 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اب یہ رزلٹ کہیں کہ موجودہ دور کے مسائل کہیں یہ نئے حالات سے نمٹنے کیلئے سنجیدگی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
شادی شدہ زندگی کے مسائل ہر دور میں رہے لیکن انکی نوعیت مختلف ادوار میں مختلف رہی ہے۔ ان مسائل کو اب لڑکے خود یا لڑکے کے والدین انا کا مسئلہ بنا کر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو نشانہ بنا رہے ہیں جو درست بات نہیں ہے۔ اب پھر سے کم عمر، فیئر کلر، تعلیم یافتہ، امور خانہ داری سے بخوبی واقف لڑکی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ ظاہر ہے ان حالات میں اعلیٰ تعلیم یافت لڑکیوں کی شادی ایک مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اعلیٰ تعلیم سے لڑکی میں اعتماد پیدا ہوتا ہے جو کبھی خود لڑکے کو یا اکثر لڑکے کے والدین کو نہیں بھاتا۔ اصل میں مسائل یہاں سے شروع ہوتے ہیں اور الزام لڑکی کی اعلیٰ تعلیم کو دیا جاتا ہے۔ کیا خود اعتماد لڑکی بہتر بیوی اور بہتر ماں نہیں ہو سکتی؟ اس سنگین مسئلے پر سماج کے دانشور طبقہ، مذہبی رہنما اور سوشیل ورکرز کی ملی جلی کوششوں سے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک حل تو مجھ ناچیز کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ لڑکی کی تعلیم کے دوران ہی اسکا رشتہ طئے کردیں یا شادی ہی کر دیں۔ چاہے لڑکی میڈیسن کررہی ہو کہ انجینیرنگ۔ یہ مکمل حل ہو یا نہ ہو کچھ تو کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
افروزہ صاحبہ کا یہ مشورہ کہ پڑھھے لکھے مرد کو دوسری شادی کرنی چاہیے تاکہ ان گھر بیٹھی بن بیاہی لڑکیوں کا مسئلہ حل ہوسکے بالکل غلط ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق ہر 500 لڑکوں کے مقابل 465 لڑکیاں ہیں۔ شمالی ہندوستان کے بعض علاقوں کا حال تو اور برا ہے۔ ٹی وی کے ایک سروے کے مطابق شمالی ہندوستان کے بعض علاقوں میں کئی سالوں سے رحمِ مادر میں لڑکی ہونے کی تصدیق پر یا شْبہ پر اسقاط کرا دیا جاتا ہے یا لڑکی پیدا ہوتے ہی مار دی جاتی ہے۔ جسکے نتیجے میں وہاں اب شادی کے لئے لڑکیاں ہی دستیاب نہیں ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ لوگ اپنے ذات برادری سے ہٹ کر کہیں اور شادی بھی نہیں کرتے لہذا اب حال یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے اس علاقے میں لڑکوں کی شادیاں نہیں ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر اسلم فاروقی
لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کے تناسب مین کمی کی بات غیر مسلموں میں زیادہ ہے جہاں دختر کشی عام ہے۔ عامر خان نے بھی اپنے سیریل ستیہ میو جیتے میں اس جانب توج دلائی تھی کہ راجستھان کے کسی علاقے میں شادی کے لیے لڑکیوں کی شدید کمی ہے۔ ویسے مسلم سماج میں یہ معاملہ نہیں ہے۔ ایک رشتہ جوڑ پروگرام میں 300 لڑکیوں کے رشتوں کے لیے صرف 10 لڑکوں کے رشتے آئے تھے اور پروگرام میں پس پردہ تقریر کرتے ہوئے ایک خاتوں نے یہ درد بھری اپیل کی تھی کہ اہل ثروت مرد حضرات ایک سے زائد شادیاں کریں تاکہ بن بیاہی لڑکیوں کو مناسب گھر مل سکے۔ یہ باتیں ابھی نظریاتی ہیں، ان پر عمل کرنے میں وقت لگے گا۔ ویسے عراق اور دیگر عرب ممالک میں جہاں خانہ جنگی کے سبب بیواؤں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے وہاں اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہاں کی خواتیں دیگر ممالک کے مردوں سے شادی کر سکتی ہیں۔ ویسے اصل موضوع جس پر یہ بحث چل رہی ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کی تعلیم کی مناسبت سے لڑکے نہیں مل رہے ہیں، اس کا یہ حل ہے کہ اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ فی زمانہ لڑکیاں تعلیم کے معاملے میں آگے چل رہی ہیں۔ لیکن شادی کے لیے تعلیم کا پیمانہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک انگریزی پوسٹ گرائجویٹ لڑکی کی شادی میٹرک کامیاب لڑکے سے ہوئی ابتداء ناچاقیوں کے بعد لڑکی نے ایڈجسٹ کر لیا اور اب دونوں کی زندگی بہتر گزر رہی ہے۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ والدین کم تعلیم یافتہ لیکن اچھے سنجیدہ گھرانے کے لڑکے سے رشتہ کریں اور اپنی لڑکی کو یہ سبق پڑھائیں کہ وہ کتنی بھی تعلیم یافتہ ہو یہ بات بھول جائے اور اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں کی توقیر کرے کہ اس کو باقی زندگی وہیں گذارنا ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب اعلی تعلیم یافتہ لڑکیاں شادی کے بعد اپنے گھر کا تقابل سسرال سے کرتی ہیں اور اسے کمتر ثابت کرتے ہوئے اپنی زندگی کو مسائل سے دوچار کر لیتی ہیں۔ سماجی شعور میں تبدیلی سے یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
لڑکیوں کی تعلیم حق بجانب ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہیکہ شادی طئے ہونے تک وہ مسلسل پڑھتی جاتی ہیں یہاں تک کہ پی ایچ ڈی بھی کرنا چاہتی ہیں ۔ گھر داری کی تعلیم سے وہ دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اب رحجان بدل رہا ہے لوگوں کو ملازمت پیشہ خواتین کے بجائے گھرداری میں پختہ لڑکیاں چاہیے کیوں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا دھیان رکھنا ضروری ہے اس لیے اکثر لڑکے زیادہ تعلیم یافتہ کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر اسلم فاروقی
حیدرآباد میں اب ایسے گھرانے مل رہے ہیں جہاں لڑکیوں کی بروقت شادی کو اہمیت دی جارہی ہے اور ایسے لڑکے والے بھی ہیں جہاں لڑکا تعلیم یافتہ اور کمانے والا ہے مگر دینی تعلیم کی حامل لڑکی چاہتا ہے ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والی لڑکیوں کے رشتے اعلی گھرانوں میں ہو رہے ہیں۔
مہر افروز
Worldly degrees are always secondary, as I said the criteria of marriage is health, religious practices beliefs , nasab(legacy), earning ability , caring n supporting ability of man, serving, submissiveness, caring of children hygincally,spritually,moraly and positively under the guidrnce of the man of the home is appreciable. woman at certain period is sometime unable to complete a man's wish, at that time if the man commits a sin that will be on the wifes head as she hasnt allowed him for second marriage is the right of a man given by Allah and sunnah, if any lady is denying it means its the denile of Allah's order and sunnah. About higher educcation of girls, I do support it as we need lady doctors for the hijab of our own women at the time of delivery, tooth ache, eyes testing and other illness. We need lady teachers to teach our girls who are growing and cannot get taught by men teachers to face modern challanges.
Let all muslim women be broad minded n understand the diplomacy behind the permission of second marriage.its better to have a second wife in our man's life rather having ten illegal girls friends.
Let all muslim women be broad minded n understand the diplomacy behind the permission of second marriage.its better to have a second wife in our man's life rather having ten illegal girls friends.
مکرم نیاز
افروزہ صاحبہ ، آپ کی گفتگو میں "دوسری شادی" کے موضوع پر جو کچھ کہا گیا ہے ، اس موضوع پر فیس بک پر ممبئی کے چند نوجوان علماء4 اور ان کے محبان کی باقاعدہ مہم جاری ہے۔ میں بھی ان کے مباحث میں حصہ لے چکا ہوں۔ حامی اور مخالفین دونوں ہی اپنے اپنے دلائل قرآن و سنت سے ہی لاتے ہیں ۔۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ علماء4 کی آراء4 و شرح کو طرفین نے "قرآن و سنت" باور کر رکھا ہے۔ جبکہ معاملہ سارا دراصل عدل اور انصاف کا ہے۔ عدل اور انصاف ۔۔۔۔!! کم از کم مجھے تو یہ تجربہ ہوا ہے کہ موجودہ دور کے بیشتر شعبوں میں یہ دو چیزیں عنقا ہیں۔ چاہے وہ سماجی معاشرتی زندگی ہو یا عائلی زندگی۔ ہاں استثنائی صورتیں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ لہذا وہ لوگ جو معاشی ، سماجی اور نفسیاتی طور سے دوسری شادی کے متحمل ہو سکتے ہیں انہیں ضرور اس کارخیر میں حصہ لینا چاہیے۔ ابھی کل ہی علم اللہ صاحب نے ذاتی گفتگو میں کچھ ایسا ہی سوال کیا تھا کہ : ترجیح کس کو ہونی چاہیے؟ (دینی) مدرسہ کی لڑکی کو یا اسکول/کالج کی اسٹوڈنٹ کو؟ میرا تو ماننا ہے کہ : اچھائی اور خرابی کے پیمانے کا برابر تناسب دونوں طرف ہے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ : دینی مدرسے میں پڑھنے والی اخلاق و اعلیٰ کردار ، امور خانہ داری وغیرہ کی صد فیصد حامل نکلے اور اسکول/کالج والی لاپرواہ بے باک اور آزاد خیال !
ڈاکٹر اسلم فاروقی
ماحول اور تربیت کا اثر ہوتا ہے امید ہے کہ دینی مدرسے کی اور با عمل گھرانے کی لڑکی گھر مین سکون لانے کا باعث بن سکے۔
مکرم نیاز
یہ کوئی کائیناتی کلیہ تو نہیں ہے ۔۔۔ ہاں "اچھی امید" یقیناً رکھی جا سکتی ہے۔ ویسے ایک سوال یہ ہے کہ ۔۔۔۔ ایسی "امید" کسی اسکول/کالج کی تعلیم یافتہ لڑکی سے کیوں نہیں رکھی جا سکتی؟ اس کے پس پشت کیا ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں؟
دلجیت قاضی
ایک ممکنہ حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گریجویشن ہی میں لڑکی کی شادی کر دی جائے۔ لڑکی کو آگے تعلیم کا شوق ہو اور خوش قسمتی سے شوہر بھی راضی ہو تو آگے تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ لڑکی کو اٹھتے بیٹھتے یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ سسرال ہی اسکا گھر ہے۔ کئی گھرانوں میں دیکھا گیا کہ زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے لڑکیاں ہر چھوٹی بات کا ذکر میکے میں کرتی ہیں اور بعض ناعاقبت اندیش والدین اسے بڑھاوا دیتے ہیں۔ پھر بات ناچاقی/علحیدگی تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ کیفیت ہر دو (کم تعلیم یافتہ و اعلیٰ تعلیم یافتہ) جوڑوں کے درمیان پیش آتی ہے لیکن ابھی ہمارا ہندوستانی معاشرہ اتنا بالغ نہیں ہوا ہے کہ لڑکی کی اعلیٰ تعلیم کو ہضم کر سکے ۔ میرے اپنے مشاہدے کے حساب سے میں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو سسرال میں بہتر طور پر ایڈجسٹ کرتے دیکھا ہے بمقابلہ فاریغینِ مدرسہ یا کم تعلیم یافتہ کے۔
اکرام ناصر
اس موضوع پر جہاں تک میری رائے ہے، سب سے پہلے لڑکا ہو یا لڑکی یا انکے گھر والے، سب کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اعلٰی تعلیم یافتہ ہونا اور اعلٰی اخلاق کے حامل ہونے میں کوئی پختہ تعلق نہیں ہوتا۔ اسی لئے ایک بہتر ازدواجی رشتے کو جانچنے کے لئے تعلیم کو معیار نہیں بنانا چاہئے بلکہ اخلاق اور دینداری کو مدنطر رکھنا چاہئے۔ ۔ اگر میاں بیوی کو اپنے رشتے کی صحیح پہچان ہو جائے تو شائد یہ مسئلہ خود بہ خود حل ہو جائے ۔ ۔ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں تعلیم کبھی بھی رکاوٹ ثابت نہیں ہوتی البتہ تعلیم انسان کے اندر احساس برتری اور غرور جیسی کیفیات پیدا کر دیتی ہے، جو کہ سراسر حماقت ہے۔ اگر اس سے بچنے کی کوشش کی جائے تو شائد سب ٹھیک ہو جائے۔
ظفر سعید الدین
آج کے اس پرآشوب دور میں اللہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت فرمائے ۔۔ آمین۔ یقیناً مدرسہ سے فارغ لڑکیوں کو زیادہ مشکل پیش آتی ہے بمقابلہ عصری تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے۔ اب پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ڈاکٹر اسلم فاروقی
موضوع سے متعلق اور کمنٹس کے مطابقت رکھنے والے نیٹ کے دیگر مضامیں اس نیت سے اس مباحثہ میں کاپی پیسٹ ک? گئے ہیں کہ وہ لوگ بھی ان مضامیں کو پڑھ لیں جو اردو سرچنگ نہ جاننے کے سبب اردو کی انٹرنیٹ دنیا سے ناواقف ہیں۔ لکھنے والوں کو اپنے کالم کے لیے بہت سے بنیادی مضامین حوالے اور مطالعے کے لیے مل سکتے ہیں۔
محمد علم اللہ
اچھا ایک سوال: یہ بتائیں کہ لڑکیاں لڑکوں سے کم پڑھی لکھی ہوں، یہ سوچ ہی عمومی طور پر لوگوں میں رائج کیوں ہے ؟
مکرم نیاز
Male dominant society !
مصطفیٰ علی سروری
میں کاپی پیسٹ کے خلاف ہوں۔ اپنا مواد اپنی تحقیق اپنا نظریہ خود اپنے طور پر بناتا ہوں۔ میرے موضوعات دور حاضر کے پس منظر میں ہوتے ہیں۔ مشاہداتی علم الگ چیز ہے اور تاریخی باتیں الگ۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
دوسری شادی۔۔۔ اتنا آسان نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جا رہا ہے۔ جہاں تک ’’انصاف‘‘ کرنے کا معاملہ ہے وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ایک بیوی سے مکمل انصاف نہیں ہوتا۔ کئی ایک واقعات رونما ہورہے ہیں۔ طلاق و خلع کا بازار گرم ہے۔ ہندوستانی سماج میں دوسری شادی کا چلن پنپ نہیں سکتا۔ صرف غیر شادی شدہ لڑکیوں کی شادی کے لیے دوسری شادی کرنا صحیح فیصلہ نہیں ہے۔ اس سے مزید سماجی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ کوئی اس جانب سوچتا ہی نہیں کہ لڑکا ہو کہ لڑکی، وقت پر شادی ہونی چاہیے۔ غالباً کسی حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جب بیٹی جوان ہو جائے تو فجر کے بعد جس لڑکے سے بھی ملاقات ہو جائے اگر اس میں دینداری ہو تو اس سے بیٹی کا رشتہ طئے کرکے شادی کردی جائے۔ کیا ہم اس پر عمل کرتے ہیں؟ جذبات میں کہہ دیتے ہیں کہ دوسری شادی ضروری ہے۔ لیکن کیا خود کی ہے؟ کیا ہم اپنے داماد کی دوسری شادی کرنے پر رضامند ہو سکتے ہیں؟
مکرم نیاز
جناب عالی! ہندوستانی سماج میں تو بہت کچھ پنپ نہیں سکتا ۔۔۔ چند مثالیں : ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ شادی کرتے ہی بیٹی داماد کو الگ گھر بسا لینے دو ۔۔۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ بیٹا والدین کے ساتھ ہی رہے گا اور بہو ساس سسر کی خدمت کرے گی۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت کسی قوم کی سربراہی نہیں کر سکتی ۔۔۔ ہمارے ہاں اسے دقیانوسیت اور عورتوں کے حقوق کا مبینہ استحصال مانا جاتا ہے۔ بہت ساری احادیث میں حسن خلق ، صلہ رحمی ، قرابت داری وغیرہ جیسے اخلاقی اصولوں کی حد درجہ ترغیب دلائی گئی ہے مگر ہمارے ہاں اسے آؤٹ ڈیٹیڈ سمجھا جاتا ہے اور دین کا مطلب کچھ مخصوص عبادات اور چند رسوم و رواج تک محدود کر دیا گیا ہے۔ شریعت تو بہت کچھ کہتی ہے ۔۔۔ اب کیا ہم شریعت کی صرف انہی باتوں کو مانیں گے جو ہمارے یا ہمارے سماج کے خلاف مزاج نہ ہوں اور باقی کو کسی نہ کسی بہانے رد یا نظر انداز کرنے کی کوشش کریں گے؟ میں اگر ذاتی طور پر دوسری شادی کی بھرپور تائید میں نہیں ہوں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ جن شرائط کے ساتھ جو سہولت شریعت نے دے رکھی ہے اسے ہم محض دنیاوی رسوم و رواج کی پاسداری کی خاطر کمتر دکھانے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں ہمارے ایک دوست بجا کہتے ہیں کہ : ہمیں بیشک اپنے خیالات و نظریات کو بیان کرنے کی آزادی حاصل ہے لیکن کوشش یہی کرنی چاہیے کہ صرف "بیان" کیا جائے نہ کہ کسی حیلے بہانے اپنے ہی نقط? نظر کو صحیح ثابت کرنے کی دانستہ نادانستہ کوشش کی جائے۔
ڈاکٹر اسلم فاروقی
تعدد ازدواج ، اسلام اور علماء ۔۔۔ درحقیقت اسلام نے تعدد ازدواج کی اجازت انسانی مصلحتوں کی وجہ سے دی ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں مومن مرد کفار و مشرکین سے جنگ کرتے تھے۔
مہر افروز
بات لڑکیوں کی شادی کی تھی، آپ لوگ پہلے آپ پہلے آپ کی تکرار کیوں کر رہے ہیں؟ سوال دوسری شادی کا نہیں بلکہ تعلیم یافتہ لڑکی کے لیے قابل شوہر کی تلاش کا ہے۔ کیونکہ کمتر تعلیم یافتہ مرد کے ساتھ لڑکی کی ہم آہنگی مشکل ثابت ہوگی۔ اور جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو کس تعلیم کی؟ دینی یا دنیاوی؟ اس پر بھی توجہ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر اسلم فاروقی
مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل دین اسلام میں مضمر ہے۔ یہ بات نظریاتی طور پر ہم مانتے ہیں اور یہ ہمارے ایمان کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن بات جب عمل کی آتی ہے تو ہم افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں۔ اس میں ہماری ناقص عقل اور دنیاوی نظریات پیش کرنے والے مرحوم دانشوروں کی آرا کابھی کچھ دخل ہوتا ہے۔ ایک ہے اللہ کو ماننا اور ایک ہے اللہ کی ماننا۔ اور ماننے کے معاملے میں ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علاوہ سب اللہ کی مانیں مگر ہم اپنی مرضی کے دین پر چلیں۔ کچھ پکڑ کی بات کریں تو کہہ دیں کہ اللہ بڑا غفور الرحیم ہے وہ ہماری دہگر نیکیوں کے بدلے ہمارے کسی بڑے غلط عمل کو معاف کردے گا اور ہمیں اس بات کا امیدوار بھی رہنا چاہیے کہ اللہ ہمیں کسی غلط بات پر معاف کر دے۔ اس تمہید کے ساتھ میں اس مسئلہ کے اسلامی حل کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ حدیث میں ہمیں بچون کی شادی سے متعلق واضح اشارہ ملتا ہے کہ جب تمہارے بچے شادی کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے نکاح میں تاخیر مت کرو۔ اب اس حکم کی حکمت سے ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ واقف ہے لیکن جس سماج میں ہم رہتے ہیں اس کے اثرات کے سبب ہم حدیث کی اس بات پر عمل نہیں کر پاتے۔ اور بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل جاننے کی دانشورانہ رائے دریافت کرتے پھرتے ہیں جب کہ قدرت اور فطرت کا قانوں اٹل ہے۔ اب رہا لڑکیوں کی اعلی تعلیم کا معاملہ تو شادی کے بعد اگر لڑکی کے حالات بنتے ہیں تو وہ تعلیم جاری رکھ سکتی ہے جیسے مشترکہ خاندان میں اسے اتنی سہولت مل جائے کہ وہ امور خانہ داری میں کم حصہ لے اور سماج کی اہم ضرورت والے پیشے جیسے ٹیچر، ڈاکٹر نرس وغیرہ کی تعلیم حاصل کر سکے۔ ایک طرف تو اس کی شادی کا مسئلہ حل ہوگیا، دوسرے سماج کی ضرورت بھی پوری ہو گئی۔ اور تیسری اہم بات دینی احکام پر عمل کرتے ہوئے والدیں اور لڑکا لڑکی اور سماج سب سکون میں آگئے۔ آج دنیا کے کتنے بھی اسلامی اسکالر، حقوق نسوان کے علمبردار یا عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے افراد، دین اور فطرت کے اس زریں اصول کو فرسودہ یا ناقابل عمل نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے اعلی تعلیم یافتہ لڑکی کی شادی میں رکاوٹ کا حل دریافت کرنے کے علاوہ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں دین سے روشنی حاصل کرنا اور اسے مرض کی دوا سمجھ کر اخیتار کرنا ضروری ہے۔ امید ہے کہ میری ان گذارشات کو فطرت کے قوانین اور دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں پڑھا جائے گا۔
Over qualifications of Muslims girls and the matrimonial problems, a dialogue on FaceBook.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں