صرف ، صارف ، صارفین ، صارفیت - فیس بک مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-20

صرف ، صارف ، صارفین ، صارفیت - فیس بک مکالمہ

sarf-sarif-sarifeen-sarifiat
شائع شدہ: روزنامہ "خبریں" (نئی دہلی) ، بروز اتوار - 20/دسمبر 2015ء
اخبار لنک
بشکریہ : زین شمسی

مکرم نیاز:
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی اطلاع کے بموجب بیگوسرائے، بہار کے محمد وسیم اختر کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ محمد وسیم اختر نے شعبہ انتظامیہ ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے "صارفینی اشیاء کا دیہی بازار کاری - ریاست بہار کا منتخب اضلاع کا ایک مطالعہ" کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹر صنعیم فاطمہ ، صدر شعبہ و اسوسی ایٹ پروفیسر کی زیرنگرانی مکمل کیا۔
"آپ بڑے اردو داں بنتے ہیں، ذرا اس عنوان کا مطلب سمجھا دیں : (صارفینی اشیاء کا دیہی بازار کاری - ریاست بہار کا منتخب اضلاع کا ایک مطالعہ) " : ہماری بیگم کا مطالبہ تھا۔
عاجزانہ عرض کیا : "مانو سے ہم نے نہیں آپ جناب نے ایم۔اے اردو کیا ہے، لہذا یہ عقدہ حل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے"
جواب ملا: "اس کے لیے صرف پوسٹ گریجویشن کافی نہیں، پی۔ایچ۔ڈی کرنا پڑے گا"
تو خواتین و حضرات ۔۔۔۔ جامعاتی اعلیٰ تعلیم کے موقر استفادہ کنندگان سے مودبانہ درخواست ہے کہ متذکرہ مقالے کے عنوان کا سلیس "اردو ترجمہ" کر کے ہماری معلومات میں اضافہ کریں اور دعائیں لیں۔ جزاک اللہ خیرا

ڈاکٹر وصی بختیاری:
ہائے افسوس۔۔۔۔ یہ کیا اردو ہے کہ سمجھ سے باہر ہے۔۔
شعبۂ انتظامیہ۔۔۔ (منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ/ ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ اسٹڈیز کا ترجمہ لگتا ہے)
آج تک۔۔۔ ابتدائے آفرینش سے (میں بھی کیا اردو لکھ رہا ہوں، شاید ایسی اردو پڑھنے کا اثر ہو رہا ہے) میں اپنی پیدائش سے آج تک جتنی اردو پڑھ پایا ہوں، اس میں "صارفینی اشیاء" کہیں نہیں آیا، آج ایک لفظ بلکہ ایک تعبیر سے آگاہ ہوا۔
کیا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ایک علیحدہ شعبۂ اصلاحِ اغلاطِ اردو" کے قیام کی تجویز پر غور کیا جا سکتا ہے؟؟ مختلف شعبوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کی بنیادی اردو دانی کا جب کوئی نظم نہیں کیا گیا، تو طلبہ سے شکایت کیسی؟ شاید کوئی ایسا نظم ضروری ہے کہ تمام شعبوں میں زیرِ تعلیم افراد کے لیے اردو کا لازمی نصاب ہو جس سے کسی کو مستثنٰی نہ قرار دیا جائے، خواہ کسی بھی اسکول کے طلبہ ہوں ۔۔۔ اہلِ نظر اور صاحبانِ علم و دانش کیا فرماتے ہیں۔۔۔؟؟

اکرام ناصر:
کافی تشویشناک صورتحال ۔۔۔ مقالہ کا عنوان ہی سمجھ سے باہر ہے تو مقالہ کیا خاک فائدہ مند ہوگا۔ ۔

سجاد الحسنین:
ماشاءاللہ۔ مگر اس میں اخبار والوں کے شریکِ جرم ہونے کا امکان یا خدشہ یا پھر اندیشہ نہیں ہے کیا؟

ڈاکٹر وصی بختیاری:
جی نہیں، بالکل نہیں، اردو میں جیسی خبر دی گئی، انہوں نے شائع کر دی۔ اور عام طور پر یہی ہوتا ہے، ورنہ انگریزی ہی میں موضوع درج کر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سیف قاضی:
اردو کے شعر و ادب تک محدود ہو جانے کی وجہ سے جب ہم سائنسی یا معاشی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کرتے ہیں تو یہ اصطلاحات انتہائی غیر مانوس محسوس ہوتی ہیں۔ ٹوئٹر کے اردو ترجمہ کے دوران ہمیں ایسی اصطلاحات کو قبول کرنے میں بڑی پریشانی ہوتی تھی اس لیے ٹوئٹر کی بعض مقبول ترین انگریزی اصطلاحات کو اردو میں بھی جوں کا توں قبول کر لیا گیا تھا۔ مندرجہ بالا عنوان کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ البتہ اگر Rural marketing of consumer products کا ترجمہ صارفینی مصنوعات "کی" دیہی بازار کاری کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

عابد عبدالواسع:
آپ حضرات کی تشویش بجا ہے۔ ڈاکٹر وصی بختیاری کی تجویز پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو کی تضحیک کے یہ مظاہرے ناقابل مدافعت ہیں۔۔۔ اشیائے صارفین ایک مروجہ اصطلاح ہے ۔۔ اسی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔

شکور پٹھان:
Rural marketing of consumer products
صارفینی اشیاء کی دیہی بازار کاری۔ شرم تو ہمیں آنی چاہیے۔ قومی زبان اردو کو کہتے ہیں لیکن استعمال کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔

سلیم فاروقی:
شکور بھائی! صرف ایک ضروری وضاحت کردوں، مکرم نیاز صاحب (جن کی فیس بک ٹائم لائن کی یہ پوسٹ ہے)، وصی بختیاری صاحب اور دیگر احباب جو اس پوسٹ پر اظہارِ خیال کررہے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق بھارت سے ہے، اور اردو پاکستان کی قومی زبان ہے بھارت کی نہیں۔ بھارت کی یہ متعدد سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔

شکور پٹھان:
ہمیں تو شرم آنی چاہیے نا۔

سلیم فاروقی:
جی بالکل ہم پاکستانیوں کو شرم آنی چاہیے، اردو جن کی قومی اور سرکاری زبان ہے۔ لیکن اردو بولتے شرماتے ہیں۔

ہمایوں اخند:
عام استعمال کی چیزوں کا دیہات بازار یعنی جو گاؤں میں لگتا ہے۔ بازار کاری بمعنی بزنس۔

سلیم فاروقی:
بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہوجانے کا اکثر نقصان بھی ہو جاتا ہے، ایسے میں مجھ جیسے دو چار جاہلوں کے مزے آجاتے ہیں جو کانا راجہ بن جاتے ہیں اور خود کو راجہ اِندر سمجھنے لگتے ہیں۔ جناب ہم کو اپنی اوقات میں رہنے دیں، جواب تو ہمارے برادر شکور پٹھان دے کر "راجہ اِندر" بن ہی چکے ہیں، لیکن ہم ان کو اکیلے راجہ اِندر نہیں بننے دیں گے، لیجیے ہماری طرف سے بھی جواب حاضر ہے:
شعبہ انتظامیہ - Administration or Management Department
صارفینی اشیاء کی بازار کاری - Local or Rural Marketing or Consumer Products

ڈاکٹر وصی بختیاری:
جناب سلیم فاروقی صاحب! آپ جس اردو زبان کے استعمال کی بات کر رہے ہیں، بجا ہے، اردو کا کما حقہ استعمال ہونا چاہیے، لیکن یہاں ہماری بحث اس ترکیب اور اس نوع کی اصطلاح پر ہے،، آیا یہ زبان و بیان کے اعتبار سے صحیح ہے:
"صارفینی اشیاء کی دیہی علاقوں میں بازار کاری"

مکرم نیاز:
صارفینی ؟ یہ کون سا اردو لفظ ہے جناب عالی؟ اب تک تو صارفین، صارفیت ۔۔ لکھا پڑھا بولا ہے۔۔۔ اب یہ "صارفینی" کیا ہوتا ہے؟ "اشیائے صارفین" کہنے لکھنے میں کیا قباحت ہے؟

جاوید نہال حشمی:
جو بھی شخص اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کا بنیادی علم رکھتا ہے پہلی ہی نظر میں اس کا ترجمہ
Rural Marketing of Consumer Products
ہی کرے گا جیسا کہ یہ پوسٹ دیکھتے ہی میرے ذہن میں آیا تھا۔
No points for "guessing" the original topic right !
یہاں اختلاف رائے Consumer Products کا ترجمہ "صارفینی اشیاء" پر ہے۔ میں سلیم فاروقی صاحب کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ مارکیٹنگ کا ترجمہ بازار کاری بہرحال مستعمل ہے مگر۔۔ "صارفینی" ؟

سلیم فاروقی:
کنزیومر پراڈکٹ کا قواعد کے اعتبار سے ترجمہ "صارفینی اشیاء" بھی غلط نہیں ہے لیکن چونکہ ہم پہلی بار سن رہے ہیں اس لیے عجیب سا محسوس ہورہا ہے۔ اس کا معروف ترجمہ "اشیائے صرف" یا "اشیائے صارف" استعمال کیا جاتا تو شائد زیادہ مناسب ہوتا۔ لیکن یہ بہرحال ہر باپ کا حق ہے کہ وہ اپنی اولاد کا کیا نام رکھتا ہے۔

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم :
اس مقالے کا انگریزی عنوان کیا ہے؟ تبھی تو پتہ چلے گا کہ ترجمہ کہاں تک کامیاب ہے؟

ڈاکٹر محمد ادریس:
اب اس کا جواب تو ریسرچ سپروائزر سے ہی پوچھنا پڑے گا جن کا نام ڈاکٹر صنعیم فاطمہ ہے۔ ان کے شاگرد کی اسی تھیسس سے متعلق ایک ریسرچ پیپر کا عنوان یہ ہے :
Empowerment of Rural Women through Dairy Industry in Begusarai District, Bihar

خان ابوالمرجان:
دیہی بازار کاری_ ریاست بہار کا چند منتخب اضلاع کا مطالعہ۔۔ صارفینی اشیاء کا اضافہ ضروری نہیں کیوں کہ بازار میں "صارفینی" اشیاء ہی ہوتی ہیں۔

احمد ارشد حسین:
"اشیائے صارفین"

جاوید نہال حشمی:
صرف۔۔۔ صارف۔۔۔۔ صارفین۔۔۔۔"صارفینی "۔۔۔ اس کے بعد تو consumerism کا ترجمہ "صارفینیت "کر دینا چاہئے (بہ طرز اشتراکیت)
میرا خیال ہے اب بات سب کی سمجھ میں آ گئی۔ اس بحث میں مزید وقت "صرف" کرنا دانش مندی نہیں۔

اکرام ناصر:
اس ساری بحث سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ مقالہ کا عنوان تھوڑا نادرست ہے جسے یوں درست ہونا چاہیے تھا۔۔
اصل عنوان : صارفینی اشیاء کا دیہی بازار کاری - ریاست بہار کا منتخب اضلاع کا ایک مطالعہ
اصلاح شدہ عنوان : اشیائے صارفین کی دیہی بازار کاری - ریاست بہار کے منتخب اضلاع کا ایک مطالعہ


Urdu translation of Consumer Products, a dialogue on FaceBook.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں