رائٹر
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقدہ موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں دنیا کے تقریبا200ممالک نے اقوام متحدہ کی پہل سے ہوئی اس معاہدہ کو حتمی شکل دیتے ہوئے اسے قبول کرلیا ۔ اس معاہدہ تک پہنچنے کے لئے اقوام متحدہ کو چار سال کا طویل وقت لگا۔ فرانس کے وزیر خارجہ لارین فابیس نے پیرس کانفرنس میں عالمی معاہدہ کو پیش کیا اور تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے درمیان اس تاریخی معاہدہ کو قبول کرلیا گیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر ہوئے معاہدہ میں کاربن کے اخراج میں کمی پر تمام ممالک کے درمیان اتفاق رائے ہوا ہے ۔ سمجھوتہ کے مطابق تمام ممالک کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ اس کے علاوہ گرین ہاؤس گیسوں اور ان کے ذرائع کے درمیان2020ء تک توازن برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے ۔ دنیا کے تقریبا دو سو ممالک کے درمیان ہوئے معاہدہ کے مطابق عالمی درجہ حرارت کو اب دو ڈگری سے بھی نیچے1.5ڈگری سلسیس تک محدود کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے ۔ معاہدہ میں مستقبل کے لئے ایک خاکہ تیار کیا گیا ہے اور2023ء میں اس کا پہلا جائزہ لیاجائے گا۔ اس کے بعد ہر پانچ سال میں اس سمت میں پیشرفت کا جائزہ لینے کی بات کہی گئی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک کو ہر سال100ارب ڈالر کی مدد دی جائے گی تاکہ وہ2020ء تک کاربن کے اخراج میں کمی لاسکیں اور اسے2025تک بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ عالمی رہنماؤں نے اس معاہدہ کو تاریخی معاہدہ قرار دیا ہے ۔ پیرس موسمیاتی معاہدہ منظورہوچکا ہے ۔ کچھ وفودکے خوشی کے آنسو نمایاں تھے جب کہ دیگر ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوئے۔ اس سے قبل کل دو ہفتوں کے اجلاس کے منتظمین اس بات پر پر امید نظر آئے کہ وفود مسودہ منظور کرلیں گے جو43صفحات سے کم ہوکر31صفحات رہ گیا تھا، جب اجلاس کی کارروائی کو ایک روز تک کی توسیع دی گئی تھی ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے لے بورے کے مضافات میں منعقدہ اجلاس میں جمع وفود سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم تکمیل کے مراحل قریب ہیں ۔ آئیے ہم اس کام کو پورا کریں۔ ساری دنیا کی نگاہیں ہماری جانب لگی ہوئی ہیں۔ بان نے شرکاء سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ بات تسلیم کی جائے کہ عالمی مفاد کو پروان چڑھاکر ہی قومی مفادات کو فروغ مل سکتا ہے ۔ فرانسیسی وزیر خارجہ لورے فیبس جنہوںنے اجلاس کی سربراہی کی ووٹنگ سے قبل ایک جذباتی اپیل میں عالمی برادری سے کہا کہ موسمیاتی سمجھوتہ کے مسودہ پر دستخط کئے جائیں، جسے انہوں نے اولوالعزم، منصفانہ اور قانونی پابندی کا معاملہ قرار دیا ۔ حتمی مسودہ میں اس کلیدی معاملہ کو نہیں کھایا گیا کہ آیاا میر اور غریب ملک موسمیاتی تبدیلی کے پروگراموں کو پورا کرنے کی ذمہ داری کس طرح تقسیم کریں گے ۔ مذاکرات میں تیزی آئی جب افتتاحی اجلاس کے دوران اتنے سارے عالمی سربراہ شریک ہوئے اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مرکزی اور متحدہ اقدام پر تیار ہیں۔ ہفتے کو امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے توئٹ میں کہا ہے کہ یہ بڑا معاملہ ہے دنیا کے تمام ملکوں نے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدہ پر پیرس اگریمنٹ پر دستخط کئے ، ہمیں امریکی قیادت کا مشکور ہونا چاہئے ۔ سمجھوتہ تک پہنچنے کے لئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دن رات ایک کیے ۔ اس سے قبل وہ اعلان کرچکے ہیں کہ امریکہ موسمیات سے متعلق سرمایہ کاری دوگنی کردے گا، جو اب80کروڑ ڈالر کی رقم پر مبنی ہے ۔ یہ اقدام موسمی تغیر سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے ۔ مسودہ میں100 ارب ڈالر کے ہدف کا تعین کیا گیا ہے ۔ جس کے ذریعہ2020ء تک غریب ملکوں کی مالی امداد کے لئے خرچ ہوگی ۔ یہ سمجھوتہ طے پایاجب کہ ہندوستان، چین، سعودی عرب، اور ملائیشیا نے اس کی مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ صنعتی اقدام کو زیادہ بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔
Paris climate change deal - ministers adopt historic agreement to keep global warming "well below" 2C
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں