پی ٹی آئی، آئی ایف پی، آئی اے این ایس
امریکی صدر بارک اوباما نے سین برنارڈینو میں دہشت گرد حملے کے بعد خیال ظاہر کیا کہ امریکیوں کو دہشت زدہ نہیں کیاجاسکتا ۔ انہوں نے بندوق کلچر کے خلاف مزید سخت اقدامات کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عین ممکن ہے کہ دونوں حملہ آوروں کو دہشت گردی کے اس حملہ کی باقاعدہ تعلیم دی گئی ہو اور اگر یہ حقیقت ہے تو ہمیں افسوس ہے کہ ہماری برسوں کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں ، اور افراد ہنوز پر تشدد انتہا پسندی کے نظریات سے متاثر ہورہے ہیں ۔ انہوں نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کے دوران ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ داعش کے علاوہ دیگر دہشت گرد گروپ ، افراد کی سارے عالم میں عملی طور پر حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض اوقات دہشت گردی کے حملوں میں تنہا شخص بھی ملوث پایاجارہا ہہے جو مذہبی انتہا پسندی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے ۔ اوباما نے یہ بھی کہا کہ ہم حملہ آوروںسے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ تمام امریکیوں کو اب متحد ہوکر کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے دفاع کو یقینی بنایاجاسکے۔ سین برنارڈینو میں انسانی جانوں کے اتلاف کی تلافی اب ناممکن ہے تاہم ان کے لئے یہ بہترین خراج عقیدت ہوگا۔ ہم امریکی ہیں اور اپنے اقدار کے تحفظ کے طور طریقوں سے واقف ہیں ۔ ہم آزاد اور کھلے معاشرہ کے حامل افراد ہیں جو انتہائی مضبوط ہے۔ ہمیں کوئی بھی خوفزدہ نہیں کرسکتا۔ ہم اس بات سے واقف ہیں کہ سین برنارڈینو میں حملہ میں فوجی طرز کے ہتھیار استعمال کئے گئے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا تھا۔ اوباما نے پھر ایک بار بندوق پر کنٹرول سے متعلق قوانین میں مزید سختی اور نظر ثانی کا مطالبہ کیا ۔ اوباما نے اپنے آخری چند الفاظ ادا کرتے ہوئے قطعی طور پر کہا کہ صدر کی حیثیت سے میری اولین ترجیح امریکی عوام کی سلامتی اور ان کا تحفظ ہے۔ کیلی فورنیا کی ہلاکت خیز دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار افراد نے داعش کے علاوہ القاعدہ سے بھی تحریک حاصل کی ہے۔ ایک ممتاز امریکی مکتب فکر نے جو دہشت گردی میں مہارت کے لئے مشہور ہے، یہ خیال ظاہر کیا ۔ انسٹی ٹیوٹ فار اسٹیڈیذ آف وار(آئی ایس ڈبلیو) نے ایک ادارتی صفحہ پر وضاحت کی کہ داعش سے تحریک یافتہ افراد یا پھر القاعدہ سے مربوط افراد سین برنارڈینو میں2دسمبر کے حملے میں ملوث ہوسکتے ہیں ۔ امریکی سر زمین پر القاعدہ یا داعش سے وابستہ افراد کی جانب سے یہ اولین حملہ ہے جس میں ماہر نشانہ باز ٹیم نے دھماکہ خیز اشیاء کے علاوہ بندوقیں بھی استعمال کی ہیں ۔ اس نوعیت کا حملہ نومبر2008ء میں ممبئی میں ہوا اور عین ممکن ہے کہ وہی گروپ سین برنارڈینو حملہ میں ملوث ہو۔ستمبر 2013ء میں کینیا میں ویسٹ گیٹ مال حملہ میں بھی ایسا ہی کوئی گروپ ملوث تھا۔13نومبر کو پیرس کے مخٹلف علاقوں میں جو حملے ہوئے ان میں بھی بندوقوں کے ساتھ دھماکہ خیز اشیاء استعمال کی گئی تھیں ۔ اس حملہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ امریکہ اور امریکیوں کے لئے اب القاعدہ کے ساتھ ساتھ داعش بھی بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے ۔ ایف بی آئی نے کل ہی اپنی تحقیقات کے بعد یہ وضاحت کی تھی کہ یہ حملہ دہشت گردی سے مربوط ہے ۔ امریکہ کو یہ باور کرلینا چاہئے کہ دونوں ہی گروپس امریکہ اور یوروپ کو تباہ کرنے کے لئے اپنے وسیع تر وسائل بروئے کار لا سکتے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی اور مغربی کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں ۔ ایف بی آئی نے بتایا کہ حملہ آور پاکستانی خاتون نے اپنے پاکستانی امریکی شوہر کے ہمراہ داعش اور اس کے قائدے کے ساتھ فیس بک پر وفاداری کا عہد کیا تھا ۔ ایف بی آئی ڈائرکٹر جئمس کو مے نے مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ اب یہ معاملہ وفاقی دہشت گردی تحقیقات سے متعلق ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اب تک کی تحقیقات سے یہ اشارے ملے ہیں کہ ان دونوں نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں سے تحریک حاصل کی تھی۔ ایجنسی کے ڈائرکٹر نے تاہم یہ وضاحت بھی کردی کہ اس بات کا کوئی اشارہ ہنوز نہیں ملا ہے کہ سین برنارڈینو میں14افراد کو ہلاک کرنے والا جوڑا اس سے بھی بڑی کسی سازش میں ملوث تھا ۔ امریکی تحقیقات کاروں نے یہ وضاحت کردی تھی کہ پاکستانی امریکی فاروق فیس بک پر ابوبکر البغدادی کے ہاتھوں بیعت لیا تھا ۔ تشفین ملک ایک پاکستانی شہری تھی جبکہ فاروق کے والدین پاکستان سے امریہک منتقل ہوگئے تھے ۔ پولیس نے فائرنگ کے تبادلہ میں دونوں ہی کو ہلاک کردیا تھا۔ عربی زبان کی ایک نیوز ایجنسی عامق نے ملک اور فاروق کو داعش گروپ کا ہمدردبتایا ہے ۔ ہاوز پر مننٹ سلکٹ کمیٹی آن انٹلی جنس کے صدر نشین ڈیوئن نیونز نے ایف بی آئی کی اس تحقیقاتی نتیجہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اب صدر بارک اوباما کی جانب سے توثیق کی باری ہے کہ وہ یہ باور کرلیں کہ دہشت گردی کی اس حرکت میں جہادی تحریک القاعدہ اور اس سے علیحدہ شدہ داعش کا ہاتھ ہے جس کے خلاف امریکہ15سال سے مسلسل جدو جہد کررہا ہے ۔ صدر بارک اوباما کئی بار اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ ہم نے داعش پر قابو پالیا ہے اور القاعدہ کا ہنوز تعاقب ہورہا ہے تاہم سین برنارڈینو کے واقعہ سے ثابت ہوجاتا ہے کہ خطرات حقیقی ہیں جن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ امریکی اور حلیف ممالک کے عوام کے تحفظ اور ان کی سلامتی کے لئے صدر بارک اوباما کو دشمن کے خلاف تمام وسائل برائے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ 27سالہ تاشفین ملک جولائی2014میںK-1ویزا کے تحت داخل ہوئی تھی۔ امریکیK-1ویزا ایسے افراد کو دیاجاتا ہے جو ملک میں شادی کے خیال اور اپنے دلہا اور دلہن ڈھونڈنے کے ارادہ سے آتے ہیں۔ انہیں90ویں دنوں کے اندر اندر شادی کرلینے کی ہدایت دی جاتی ہے ۔ اس نے28سالہ سید رضوان فاروق سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ پاکستانی امریکی ریستوراں صحت انسپکٹر کی پرورش کیلی فورنیا میں ہوئی تھی اور اس کے والدین بہت پہلے پاکستان سے امریکہ میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔ حیرتناک بات یہ ہے کہ اس ویزا کی اجرائی سے قبل درخواست گزار کے پس منظر کی تفصیلی اسکیرننگ ہوتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ تاشفین ملک K-1ویزا حاصل کرنے میں کامیاب کیسے ہوئی ۔ یہ بات واشنگٹن میں ایک اٹارنی نے بتائی جوK-1ویزا کی پراسسنگ کیاکرتے ہیں ۔K-1ویزا حاصل کرنے کے بعد اسکے حامل افراد کو90دنوں کے بعد ملک سے نکل جانا پڑتا ہے ۔ جبکہ شادی کے بعد تارکین وطن نے دو سال کی مشروط رہائش کے لئے ویزا حاصل کیا تھا ۔ اگر حکومت یا محکمہ درخواست منظور کرلیتی ہے تو تارکین وطن کو گرین کارڈ سے نوازا جاتا ہے جس کے5سال بعد تارکین وطن امریکی شہریت اختیار کرسکتے ہیں ۔ این بی سی نیوز نے بتایا کہ اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی دونوں کے دادا، دادی اور نانی پریشان ہوگئے ۔ انہیں اسی روز رات کے دو بجے میڈیا کے ذریعہ یہ اطلاع ملی ۔ کسی صحافی نے ان لوگوں سے یہ سوال کیا تھا کہ آیا وہ لوگ فاروق اور خان سے واقف تھے۔ خان، فاروق کی بہن کے شوہر ہیں ۔ فیس بک استعمال کنندہ نے فاروق سید49کے تحت اپنی ویب سائٹ آئی ملاپ ڈاٹ کام پر ا پنے بارے میں جو تفصیلات پیش کی تھیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ فاروق کا تعلق ایک مذہبی اور ماڈرن خاندان سے ہے ۔ علاوہ ازیں خاندان مشرقی اور مغربی اقدار کا مجموعہ ہے ۔ فاروق، ماڈرن اور نادر گاڑیوں کے شوقین ہیں ، علاوہ ازیں مذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی ان کے دلچسپیوں میں شامل ہے ۔ وہ کبھی کبھی اپنی چھوٹی بہن اور دوستوں کے ساتھ نشانہ بازی کی مشقیں بھی کیا کرتے تھے ۔ دریں اثنا فاروق کی بہن سائرہ خان نے سی بی سی نیوز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میرے وہم و گمان میں یہ بات نہیں آسکتی کہ میرے بھائی اور بھابی اس نوعیت کی کسی گھناؤنی حرکت میں ملوث ہوسکتے ہیں ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جوڑا انتہائی خوشحال اور خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا اور دونوں چھ ماہ کی ایک بچی کے والدین بھی تھے ۔ فاروق کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ تنہائی پسند تھے ، اور ان کے دوستوں کی تعداد انتہائی محدود تھی جبکہ تاشفین کے بارے میں اہل خانہ نے بتایا کہ وہ نرم گفتار خاتون تھیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ قدامت پسند تھیں اور برقعہ استعمال کرتی تھیں جبکہ فاروق عصری اقدار کے حامل شخص تھے ۔ ایف بی آئی کے ڈائرکٹر جیمس کومے نے بتایا کہ شادی شدہ جوڑا بنیادی طور پر غیر ملکی شدت گروہوں سے متاثر تھا۔ دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ ان دونوں حملہ آوروں نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے کہنے پر حملہ کیا۔ چہار شنبہ کو ذہنی معذوری اور بیماریوں کا شکار افراد کی مدد کے مرکز پر ہونے والے حملے میں14افراد ہلاک اور21زخمی ہوئے تھے۔27سالہ تاشفین ملک اور ان کے شوہر28سالہ رضوان فاروق اس واقعہ کے کچھ گھنٹے بعد پولیس کے ساتھ ایک مقابلہ کے دوران مارے گئے تھے۔ سینٹر پر حملے کے بعد پولیس نے حملہ آوروں کے مکان پر چھاپے مارا تھا، جہاں سے اسلحہ، گولیاں اور بم بنانے کے آلات ملے تھے ۔
Obama will give an update on the probe into the San Bernardino shootings this week
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں