سیرت نبوی میں سادگی کے نقوش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-22

سیرت نبوی میں سادگی کے نقوش

mohammad-saw
نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی سادگی سے عبارت ہے ، رہن سہن میں سادگی ، نشست وبرخاست میں سادگی ، خورد ونوش میں سادگی ، لباس وپہناوے میں سادگی ، اوڑھنے بچھونے میں سادگی ، لوگوں کے ساتھ میل جول اور رکھ رکھاؤ میں سادگی ، الغرض!آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے جس گوشہ پر نظر ڈالئے، ہر طرف سادگی ہی سادگی نظر آئے گی ،آپ کی زندگی تکلف وتصنع سے کوسوں دور ، تواضع ومسکنت اور عجز وانکساری کا واضح اور بے مثل نمونہ تھی ، ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ کا یہ متواضعانہ طرزِ حیات اضطراری تھا؛ بلکہ آپ نے اس بے تکلف طرزِ معیشت کو اختیاری طور پر اپنایا تھا؛چونکہ آپ ﷺ کا جذبۂ جود وسخا اس قدر بیدار عوامی احساس اور رعایا پروری کی خو آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں اس قدر رچی بس گئی تھی کہ جو چیز بھی آپ کے پاس موجود ہوتی اسے آپ فورا بلا تامل کسی تاخیر کے راہِ خدا میں صرف فرمادیتے ، اگر آپ چاہتے تو آپ ﷺ کے لئے کیا کچھ سامانِ عیش وعشرت کا انتظام نہ ہوتا ، مدنی زندگی کے آخری دور میں خصوصا خیبر وحنین کی فتح کے بعد سامانِ عیش وعشرت کا انتظام نہ ہوتا ، مدنی زندگی کے آخری دور میں خصوصا خیبر وحنین کی فتح کے بعد مسلمانوں کی معاشی واقتصادی حالت بھی کافی حدتک درست ہوچکی تھی ، اسلامی سلطنت کے حدود بھی بے پناہ وسیع اور کشادہ ہوچکے تھے ، آپ ﷺ اس وقت سارے خطۂ حجاز کے تنِ تنہا سربراہ اور حاکم تھے ، اگر آپ ﷺ چاہتے تو اس جدید اور وسیع مملکت کے معمار وبانی کی حیثیت سے آپ کے لئے بہترسے بہتر رہائش گاہوں ، عمدہ عمدہ ملبوسات ، مختلف نوعیت کے کھانے اور ہر طرح کے سامانِ راحت کا انتظام ہوسکتا تھا، آپ ﷺ کے جانثار اور سرفروش صحابہ آپ ﷺ کے چشم وابرو کے اشارے پر ساری دنیا جہاں کی نعمتیں آپ کے قدموں پر لا کر رکھ سکتے تھے ؛ لیکن قربانی جائے (فداہ ابی وامی ﷺ) پر آپﷺ نے اس بہتات اور فراوانی کے دور میں بھی وہی قدیم سادگی پر مشتمل طرزِ حیات کو اختیار کیا ، آپ نے عوامی معیارِ زندگی سے ہٹ کر اپنے لئے کوئی خاص اور امتیازی شکل اپنانے کے روادار نہ ہوئے ، ساری زندگی بندہ اور غلام بن کر رہنا پسند کیا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "میں بندہ اور غلام ہوں ، اس طرح کھاتا ہوں ، جس طرح ایک غلام کھاتا ہے " (مشکوۃ : 521) ایک دوسرے موقع سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "میں بندہ اور غلام ہو، ایسا لباس پہنتا ہوں ، جس طرح ایک غلام پہننا ہے"( مواہب :5؍7) ان روایات سے آپ ﷺ کی سادگی ، تواضع اور مسکنت کا اظہار ہوتا ہے ، آپ ﷺ نے اپنی اس بے تکلف طرزِ زندگی کے ذریعہ یہ بتلادیا کہ تمام سامانِ راحت کے ہوتے ہوئے بھی اس طرح کی معمولی زندگی گذاری جاسکتی ہے ، آخرت کا دھیان، دنیا کی بے بضاعتی ، اس کی حقارت وعدم پائیداری اور اللہ کے یہاں موجود لازوال اور ابدی نعمتوں کا یقین رکھنے والوں کے لئے اس سادہ طرز حیات کو اپنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ، آپﷺ کے اس معمول طرزِ حیات میں غریبوں ، بے کسوں اور مفلوک الحال لوگوں کے لئے بھی یہ درسِ عبرت موجود ہے کہ وہ دنیوی سازو سامان اور اسبابِ راحت کے نہ نہونے پر ملول اور آزردہ خاطر نہ ہوں اور اس کی وجہ سے اپنے آپ کو حقیر وناتواں نہ تصور کریں ، اگر دنیوی اسباب اور مال ومتاع ہی دنیوی واخروی ترقی کے معیار ہوتے تو آپ ﷺ کو اس کا وافر حصہ مل چکا ہوتا ، یہاں آپ ﷺ کی سادگی پر مشتمل طرزِ زندگی کے چند گوشے بطور نمونے کے ذکر کئے جاتے ہیں ۔

خورد ونوش میں سادگی :
حضور اقدسﷺ کا کھانے پینے کے تعلق سے یہ معمول تھا کہ الوان واقسام کے کھانے تناول نہ فرماتے ؛ بلکہ سادگی کے ساتھ جو کچھ میسر آجاتا ، وہی آپ کی غذا ہوتی ، حضرت انس رضی اللہ عنہ جو آپ ﷺ کے خادم خاص ہیں ، وہ آپ ﷺ کے کھانے کی نوعیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ موٹاسادہ کم قیمت والا کھانا کھایا کرتے اور موٹا پہنا کرتے ( مستدرک حاکم ) کھانے میں آپ ﷺ جو کی روٹی اور گوشت استعمال فرماتے تھے ن جو عربوں کی عام اور معمولی غذا ہوتی تھی ، پھر یہ چیزیں بھی آپ ﷺ کے گھر والوں کو مسلسل دونوں وقت میسر نہ ہوتی تھیں (مشکوۃ:ے446) کبھی تو آپ 228ﷺ کے گھر پر ایک ایک دو دوہ ماہ تک چولہا ہی نہ جلتا ، صرف کجھور اور پانی پر گذراوقات ہوتا (مشکوۃ : 365)کبھی تو یہ صورت حال ہوتی کہ آپ ﷺ کے گھر پر کئی کئی دن کا فاقہ ہوجاتا ، ایک موقع پر حضرت فاطمہ بارگاہ نبوت میں روٹی کا ٹکڑا لے کر حاضر ہوئیں ، آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ کہا : یہ روٹی ہے ، جیسے میں نے پکایا ہے ، دل نے گوارہ نہ کیا کہ آپ کو چھوڑ کر کھالوں ؛ اس لئے یہ لے کر حاضرِ خدمت ہوئی ، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تین دن کے بعد پہلا کھانا ہے جو تمہارے باپ کے پیٹ میں گیا ہے ( مسند احمد ) کبھی آپ ﷺ کے دسترخوان پر دو قسم کے کھانے جمع نہ ہوئے ، اگر روٹی تناول فرماتے تو اس کے ساتھ کوئی اضافی چیز نہ ہوتی (شمائل کبری: 1؍195)کبھی آب ﷺ پر ایسا فاقہ ہوتا کہ بھوک کی شدت سے پیٹ پیٹھ سے چپک جاتا، غزوۂ خندق کے موقع سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کھدائی کھدائی کے دوران حضور اکرم ﷺ کے پاس آکر بھوک کی شکایت کی اور اپنا پیٹ کھول کر دکھایا جس پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا، یہ دیکھ کر آپ ﷺ ہنے بھی اپنے شکن مبارک سے کپڑا اٹھایا ، ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے جسم اطہر سے دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ( مشکوۃ : 448) جس پیالہ سے آپ ﷺ پانی نوش فرمایا کرتے تھے ، وہ پیالہ لکڑی کا تھا، اس پر لوہے کے پتر لگے ہوئے تھے ، حضرت ثابت ؒ کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہم کو ایک لکڑی کا ٹوٹا ہوا پیالہ دکھایا ، جس پر لوہے کا پتر لگا ہوا تھا (جمع الوسائل : 1؍293) یہ تھی شہنشاہِ کائنات ، سرکار دو جہاں کی غذا کی کیفیت ، اس کے ساتھ موجودہ دور کے خوش حال گھرانوں اور موجودہ وقت کے حاکموں اور قائدین ملت کے گھروں پر بھی ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالتے چلیں کہ کھانے پینے کے معاملے میں کس قدر توسع اور کشادگی سے کام لیا جاتا ہے ، متعدد اقسام کے کھانے اور سالن ، نوع بنوع چٹنیاں اور اچار وغیرہ فضول خرچی اور اسراف کا بھرمار ہوتا ہے ، یہ تو ان لوگوں کی عمومی اور روز مرہ کی غذائی حالت ہے ، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع سے تو کھانے پینے کے انتظامات اس قدر فراغ دستی سے کئے جاتے ہیں کہ اپنی محنت ومشقت سے کمائی ہوئی پونچی کو اس موقع سے یکلخت پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے ، نوع بنوع ، قسم قسم کے رنگ برنگے ڈشش تیار کی جاتی ہیں ،یہ ہے ہماری اسوۂ رسول سے دوری کی کیفیت ۔

لباس میں سادگی
آرائش وزیبائش اور زیب وزینت کا اہتمام آپﷺ نے بہت ہی کم کیاہے ، عموما آپ ﷺ موٹا، کھردرا لباس پہنا کرتے تھے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں پیوند دار چادر دکھائی اور فرمایا کہ : انہیں دونوں کپڑوں میں آپﷺ کی وفات ہوئی (مشکوۃ:373) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :نبی پاک ﷺ ایسی چادر اوڑھ لیتے تھے جس کی قیمت چھ یا سات درہم ہوتی تھی (شمائل کبری :1؍225) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ جو کرتا زیب تن کرتے تھے ،وہ کم لمبا اور چھوٹی آستین کا ہوتا تھا (ابن ماجہ : 2؍492) بیشتر آپ ﷺ نے سوت کے بنے ہوئے کپڑے استعمال کئے ہیں ، کبھی کتان اور صوف بھی آپ ﷺ کے زیر استعمال رہے ہیں (زادالمعاد :1؍52) آپ ﷺ نے جبہ اور قبا بھی پہنی ہے ، تہبند اور چادرکا بھی استعمال فرمایا ہے ، چادر عام طور پر چھ ہاتھ لانبی اور ساڑھے تین ہاتھ چوڑی ہوتی تھی اور تہبند ساڑھے چار ہاتھ لانبی اور ڈھائی ہاتھ چوڑی ہوتی تھی (حوالہ سابق ) آپ ﷺ نے حجۃ الوادع اس حال میں کیا ہے کہ حد نگاہ تک مسلمان نظر آرہے ہیں ،پورا جزیرۃ العرب آپ کے زیر نگیں تھااورکیفیت یہ تھی کہ آپ ﷺ نہایت خستہ حال کجاوے پر تھے ، آ پﷺ پر صرف ایک چادر پڑی ہوئی تھی ، جس کی مالیت چار درہم سے زیادہ نہ تھی ، آپ ﷺ نے اس موقع سے یہ فرمایا تھا : اے اللہ ! اسے ایسا حج بنادیجئے جس میں کوئی ریاء اور شہرت نہ ہو (شمائل ترمذی ) آپ ﷺ نے مزید سادگی لباس کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے (ریاض الصالحین : 232) آپ ﷺ نے لباس میں سادگی اپنانے والے کے متعلق یہ خوش خبری سنائی کہ : "جو شخص باوجود حیثیت ووسعت کے عمد ہ لباس تواضعا چھوڑ دے ، اسے قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ایمان کے جس جوڑے کو چاہے اختیار کرے (مشکوۃ : 375) ایک مرتبہ کسی نے آپ ﷺ ریشم کی قبا بطور ہدیہ دی ، آپ ﷺ نے اسے پہن کر فورا ہی اتاردیا ، پھر اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ، وہ روتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے ، کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! آپ نے یہ کیا کیا ؟ اسے تو اپنے لئے ناپسند فرمیا اور مجھے عنایت کردیا ؟ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : میں اسے تمہارے پاس اس لئے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو؛ بلکہ میں نے اسے فروخت کرنے کے لئے دیا ہے ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے دو سو درہم کے عوض فروحت کردیا (مشکوۃ : 377) لباس کے متعلق حضور اکرم ﷺ کے اس اسوہ کی روشنی میں یہ بات بلا روک ٹوک کے کہی جاسکتی ہے کہ لباس میں تصنع وتکلف شرعا بالکل پسندیدہ نہیں ؛ بلکہ بغیر ٹیٹ ٹاپ کے سادگڑ اور راہ اعتدال کے ساتھ جو بھی لباس میسر آجائے ، اسی پر اکتفا کیا جائے ۔

بستر میں سادگی :
حضور اکرم ﷺ کا بستر بھی نہایت ہی سادگی سے معمور تھا، آپ ﷺ نرم اور گدے دار بستر کو بالکل ہی پسند نہ فرماتے ، کبھی آپ ﷺ کھجور سے بنی ہوئی چادر پر بلا بستر آرام فرماتے ، کبھی خالی بستر پر ہی لیٹ جاتے ، کبھی چمڑے کے ٹکڑے ، کبھی ٹاٹ پر ، کبھی ریت پر ہی سوجاتے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر پڑگئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو کو جھاڑنے لگا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس بات کی اجازت کیوں نہیں دیتے کہ اس چٹائی پر کچھ بچھا دیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا، میری اور دنیا کی مثال تو اس سوار کی سی ہے جو تھوڑی دیر سایہ لینے کے لیے کسی درخت کے نیچے رکا پھر اسے چھوڑ کر چل پڑا۔(مشکوۃ : 442)ایساہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن)میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے پات کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر چٹائی نے نشانات ڈال دی تھیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر مبارک کے نیچے جو تکیہ رکھ رکھا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے ٓ(سرکار دو عالم کو اس حالت میں دیکھ کر)عرض کیا کہ یا رسول اللہ!اللہ تعالی سے دعا کیوں نہیں فرماتے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو مالی وسعت و فراخی عطا فرمائے ؟ فارس اور روم کے لوگوں کو کس قدر وسعت و فراخی عطا کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالی کی بندگی نہیں کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ابن خطاب! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم ابھی تک اسی جگہ ہو (جہاں سے تم شروع میں چلے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد بھی تمہارے انداز فکر اور سوچنے سمجھنے کا معیار اتنا آگے نہیں بڑھا جو تم حقیقت تک پہنچ سکو؟ یاد رکھو یہ اہل فارس و روم (اور تمام کفار)وہ لوگ ہیں جن کو تمام نعمتیں اور خوبیاں بس ان کی دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں (جب کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی آخرت میں ان کو فقر و افلاس ، ذلت و خواری اور خسران و نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا(مشکوۃ : 447)حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ : ایک انصاری عورت نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا بستر نہایت ہی کھردرا اور موٹا ہے ، چنانچہ اس عورت نے ایک بستر جس کا بھراون اون کا تھابھیج دیا ، آپ ﷺ نے اس بستر کو دیکھا تو نہایت اصرار کے ساتھ اس کو واپس کردینے کے لئے کہا ، پھر آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہو کر فرمایا : خدا کی قسم ! اگر میں چاہوں تو سونے چاندی کے پہاڑ ساتھ چلا کریں (مشکوۃ:521) آپ ﷺ کے بستر کی نوعیت یہ ہوتی تھی کہ ایک کپڑا تھاجسے دو تہہ کر لیا جاتا تھا، ایک دفعہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اسے چار تہہ کرکے بچھادیا ، آپ ﷺ نے اسے تہجدمیں بیداری کے لئے مخل بتلا کر اسے پہلی حالت میں لوٹادینے کے لئے کہا (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : آپ ﷺ کے پاس صرف ایک بستر تھا( شمائل کبری:1؍255) آپ ﷺ نے بستر کی مقدار کفاف یہ بتلائی ہے کہ ایک بستر آدمی کے لئے ، ایک بستر اس کی بیوی کے لئے اور ایک بستر مہمان کے لئے ، اس سے زائد شیطان کے لئے (شمائل کبری : 1؍255) ۔

رہائش میں سادگی :
حضور اکرم ﷺکے رہائشی کمرے بھی سادگی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے ، آپ ﷺ کے تمام ہی ازواج مطہرات کے حجرے کچی اینٹوں سے بنائے گئے تھے ، سایہ کرنے کے لئے درخت ، اس کی شاخوں اور پتوں سے چھت بنایا گیا تھا، اسے اوپر سے مٹی لیپ دی گئی ، ان کمروں کی چوڑائی چھ یا سات فٹ لمی اور لمبائی دس فٹ تھی ، کبھی ان کمروں پر پردہ کیلئے ٹاٹ کے ٹکڑے ڈال دیئے جاتے تھے (اصح السیر : 945) آپ ﷺ نے باوجود وسعت وفروانی کے ساری زندگی معمولی حجروں میں رہ کر گذار دی ، آپ ﷺ نے زندگی بھر کبھی ان تعمیرات کی طرف توجہ نہیں فرمائی ، ہماری اسوۂ رسول سے دوری کی یہ حالت ہے کہ ساری زندگی یہ فکر لگی رہتی ہے گھر نہ ہوتو کسی طرح ایک عدد گھر ہوجائے ، اگر معمولی گھر ہو تو بھی بلڈنگ اور آر سی سی کے مکان کی خواہش رہتی ہے ، اگر اس طرح کا گھر میسر ہو تو اس سے زیادہ آرام دہ گھر کی تمنا ہوتی ہے ،پھر موت پر ہی ان خواہشات کا اختتام ہوتا ہے ، حالانکہ حضور اکرم ﷺ کا اسوہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اس ناپائیدار زندگی کو سادگی کے ساتھ معمولی انداز میں گذارا جائے آپ ﷺ نے تعمیرات میں بے جا اسراف اور فضول خرچی کو نہایت ہی ناپسندیدہ قرار دیا ہے ، اور ضرورت سے زیادہ تعمیرات میں بے جا اسراف کو خیر اور بھلائی سے خالی بتلایا ہے (مشکوۃ : 441) ایسے ہی اس واقعہ سے بھی حضور اکرم ﷺ کا تعمیرات کو ناپسندیدہ نظر سے دیکھنے کا پتہ چلتا ہے ۔

طرز معیشت اور رہن سہن میں سادگی :
آپﷺ کے لوگوں کے ساتھ برتاؤ اور رہن سہن میں بھی سادگی تھی ، آپ ﷺ اپنے لئے کسی چیز میں ممتاز اور نمایاں ہونا پسند نہ فرماتے ، آپ ﷺ کے لئے یہ بات بھی ناگوار تھی کہ کوئی آپ ﷺ کے لئے تعظیما کھڑا ہوجائے ، آپ ﷺ اپنی مدح وتوصیف میں بھی مبالغہ آرائی سے منع فرماتے تھے کہ آپ کو مقام عبدیت ورسالت سے بلند کیا جائے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ہم کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا، لیکن ہم آپ کو دیکھ کر اس خیال سے نہیں کھڑے ہوتے تھے آپ ﷺ اس کو ناپسند فرماتے ہیں (ترمذی، مشکوۃ :403) ایک موقع آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میری اس طرح سے بڑھ چڑھ کر تعریف نہ کر و جیسا کہ نصاری نے ابن مریم کی کی ہے (شمائل ترمذی)حضرت عبد اللہ بن اوفی روایت کرتے ہیں حضور اکرم ﷺ کو اس میں کوئی تکلف اور عار نہ ہوتاکہ آپ کسی غلام یا بیوہ کے ساتھ چل کر ان کی حاجت روائی کریں (نسائی ) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ بیمار کی عیادت فرماتے ، جنازہ میں شریک ہوتے ، گدھے پر سواری فرماتے ، غلام کی دعوت قبول فرماتے ، اگر جو کی روٹی اور ایسے کھانے پر جس کا مزہ بد چکا ہو مدعو ہوتے تو اسے بھی قبول فرماتے (شمائل ترمذی) آپﷺ اگر کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے ، مسجد نبوی کی تعمیر میںآپﷺ بنفس نفیس شریک رہے ، ایک مرتبہ ایک سفر میں تھے ، بکری ذبح کرنے کا مشورہ ہوا ، آپ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک نے کہا : بکری ذبح کرنا میرے ذمہ میں ، دوسرے نے کہا : کھال اتارنا میرے ذمہ میں ، تیسرے نے کہا : پکانا میرے ذمہ، آپ ﷺ نے فرمایا: لکڑیاں اکٹھا کرنا میرے ذمہ میں ، صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس کام کو بھی ہم ہی کر لیتے ، آپﷺ نے فرمایا : مجھے یہ معلوم ہے کہ تم میرایہ کام کردوگے ، لیکن میں تم سے الگ اور مختار رہنا پسند نہیں کرتا ، اللہ عزوجل کو بھی یہ بات ناپسند ہے کہ اپنے بندے کو دوسرے سے ممتاز دیکھے (جمع الوسائل : 477)آپ ﷺ کی گھریلو امور میں بھی یہی سادگی اور بے تکلفی تھی، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ : آپ ﷺ اپنے کپڑے دھولیتے ، بکری کا دودھ نکال لیتے ، اپنا کام خود کرتے ، اپنے کپڑوں کو پیوند لگالیتے ، جوتا گانٹھ لیتے ، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اپنے جوتے ٹانک لیتے ، کپڑے سی لیتے ، ایک روایت میں آپ کا خود گھر صاف کر لینے ، اونٹ کو باندھ لینے ، اپنے جانور کو چارہ دے لینے ، اپنے خدمت گذار کے ساتھ کھانا کھالینے ، آٹا گوندھ لینے اور بازار سے سودا سلف لے آنے کا ذکر آیا ہے (مشکوۃ : 520)
غور کیجئے !یہ اس ذات اقدس کی زندگی کا حال ہے ، جس کے نام سے اس دور کے سوپر پاور طاقتیں کانپ جاتی تھیں ، بڑے بڑے نامور بادشاہ اور سلاطین جس سے حلیفانہ تعلقات پر فخر محسوس کرتے تھے ، سارا جزیرۃ العرب جس کے زیر تسلط تھا جو بلا شرکت غیر خطہ حجاز کے حدود اربعہ کا تنہا حاکم تھا، لیکن اس کا طرز حیات اس قدر سادگی سے معمور تھا کہ اس دور میں معمولی سے معمولی حیثیت کے آدمی کو بھی ان کے مقابل بطور نمونہ پیش کرنا محال ہے ، آج کے حکمراں اور قائدین بھی آپ ﷺ کی زندگی اور طرز حیات میں سے تھوڑی سے حصہ کو بھی اپنالیں ، تھوڑی بھی سادگی اور سادہ لوحی اپنی زندگی میں لالیں تو سارا ملک خوشحالی وفارغ البالی کی مثال بن جائے ، کرپشن ، کھوٹالوں اور بدعنوانیوں اوررشوت ستانیوں میں ملوث قائدین کے اس قائد اعظم کی زندگی میں مثل اور نمونہ ہے کہ سب لٹا کر غیروں کا گھر بھر دیا، اس لئے قائد اعظم کو ساری دنیا نہایت احترام اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Impressions of simplicity in the life style of Prophet Mohammad saw. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں