گوگل سی ای او سندر پچائی نے بھی مسلمانوں کی حمایت میں بیان دیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-13

گوگل سی ای او سندر پچائی نے بھی مسلمانوں کی حمایت میں بیان دیا

Google-CEO-Sundar-Pichai
نیویارک
آئی اے این ایس
فیس بک کے چیف اکزیکٹیو آفیسر مارک زبرگ کے بعد گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے بھی مسلمانوں کی حمایت اور تعاون کا پرچم اٹھالیا ہے ۔ انہوں نے واضح الفاظ و انداز میں کہا کہ امریکہ کے علاوہ اقطا ع عالم میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی تائید وحمایت ہم پر لازم ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف حالیہ تعصب پرستی کی لہر، خصوصی طور پر امریکی صدارتی امید وار ڈونالڈ ٹرمپ کے مخالف مسلم ریمارک( مسلمانوں کی امریکہ آمد پر امتناع کا مطالبہ) کے بعد ہندوستانی نژاد گوگل اکزیکٹیو سندرپچائی نے اپنے شخصی تجربات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اقدار، خوف و دہشت سے بالا تر ہیں اور ہمیں اپنے اقدار کو ان کے اثرات سے محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔ میں22سال قبل ہندوستان سے امریکہ آیاتھا ۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ یہاں کی یونیورسٹی میں مجھے داخلہ بھی مل گیا اور کڑی محنت اور سخت جان فشانی کے بعد مجھ پر یکے بعد دیگرے دروازے کھلتے چلے گئے ۔ مجھے اپنا شاندار کیرئیر بنانے کا موقع یہیں حاصل ہوا ۔ مجھے خاندان بنانے اور خوشحال و مسرتوں سے زندگی گزارنے کے مواقع بھی یہیں حاصل ہوئے ۔ میں نے کبھی خود کو امریکہ میں اجنبی محسوس نہیں کیا اور خود کو اس ملک کا ایک حصہ پایا اور ہمیشہ اور ہر حال میں خود کو ہندوستان میں محسوس کیا ۔ ہر موقع پر ایسامحسوس ہوتا رہا کہ میں ہندوستان میں پل بڑھ رہا ہوں ۔ یہ تجربہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں ۔ لاکھوں بار یہ قول دہرایاجاتا رہے کہ امریکہ سر زمین مواقع ہے ۔ لاکھوں تارکین وطن کے لئے یہ کوئی مفروضہ بھی نہیں بلکہ حقائق کی ٹھوس تشریح اور اس کا عکاس بھی ہے ۔ سر زمین امریکہ پر قدم پڑنے کے بعد ہی ہمیں وہ مواقع حاصل ہوئے جن سے ہم پہلے محروم تھے ۔ ان دنوں اخبارات میں عام ہونے والی اطلاعات دل شکنی کا باعث ہیں ۔ عدم رواداری اور تعصب کا یہ رویہ کسی بھی مہذب معاشرہ کے لئے ناقابل قبول ہے ۔ انہوں نے سماجی پیامات پلیٹ فارم، میڈیا پر اپنے خیالات، تجربات اور احساسات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسے بیانات انتہائی دل شکنی ہیں کہ محض مذہب اور شہریت پر مبنی نئی آوازوں ، اور افکار و افراد کے گروپس کی خدمات کے بغیر امریکہ اس سے بہتر ملک بن سکتا ہے ۔ پچائی کے مطابق کشادہ ذہنی( آزاد خیالی) رواداری اور نئے امریکیوں کا خیر مقدم اس ملک کی سب سے بڑی طاقت اور اس کے کرادر کی بہترین تشریح ہے ۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ امریکہ، تارکین وطن کا ملک تھا، ہے اور آئندہ بھی رہیگا۔ قبل ازیں فیس بک سی ای او زکر برگ نے کہا تھا کہ ان کی کمپنی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی لڑائی لڑتی رہے گی اور ایک پر امن و محفوظ ماحول (معاشرہ) کی تعمیر کی راہ پر ہمیشہ گامزن رہے گی۔ فیس بک پر اپنے پوسٹ میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ میں اپنی امریکی برادری اور اقطاع عالم میں مسلمانوں کی تائیدو حمایت میں اپنی آواز بلند کرتا رہوں گا ۔ پیرس حملوں کے بعد مسلمانوں پر یہ خوف طاری ہے کہ دیگر ناپسندیدہ افراد کے کرتوتوں کا خمیازہ اب انہیں بھگتنا پڑے گا۔ زکربرگ نے تمام عالمی ممالک سے جنون پرستانہ حکمت عملی سے باز رہنے کی درخواست کی تھی۔ پچائی نے زکر برگ کے نظریات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ باور کرتا ہوں کہ کمپنی مالکان ہوں یا مملکتی قائدین سب کے لئے یہ سوچ ضروری ہے ۔ مختلف النوع آوازیں ، پس منظر اور تجربات سے بحث و مباحث کی راہیں کھلتی ہیں جن کے نتیجہ میں بہتر فیصلے ہوتے ہیں جو سب کے حق میں ہوتے ہیں ۔ مجھے اس فیصلہ پر پہنچنے میں کافی وقفہ لگا کیونکہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ عدم رواداری پر تنقید سے اس موضوع پر بحث کو تقویت حاصل ہوئی ہے ۔ میرے خیال سے ہر شخص کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے خصوصی طور پر اس مورچہ پر ان افراد کو آنا چاہئے جواس کی پرچھائیوں سے محفوظ اور حملوں سے پاک ہیں۔ ہر شخص کو اپنا نظریہ پیش کرنے کی آزادی ہے تاہم یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ جن لوگوں کی نمائندگی بہت کم ہوتی ہے وہ یہ باور نہ کریں کہ یہی پوری دنیا کی اور آخری آواز ہے۔

دریں اثناء واشنگٹن سے پی ٹی آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب اسین برنارڈینو دہشت گرد حملوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف بیانات میں اضافہ کے دوران صدر بارک اوباما نے ہموطنوں کو مشتبہ سر گرمیوں کے خلاف چوکسی کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں اسلام کی مخالفت سے گریز کا مشورہ دیا۔ اپنے ہفتہ وار ویب سائٹ اور ریڈیو خطاب کے دوران اوباما نے امریکیوں کو ایسی حرکتوں سے باز رہنے کی ترغیب دی جو امریکہ اور اسلام کے درمیان جنگ قراردی جائے ۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ در اصل داعش کا نصب العین بھی یہی ہے کہ دہشت گردوں نے خلاف امریکی کارروائیوں کو اسلام کے خلاف امریکہ کی جنگ قرار دیاجائے ۔ انہوں نے ہم وطنوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ موقف لائق تحسین ہے کہ انہوں نے امریکی اقدار کی تائید میں اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے جو آزادی مذہب سے متعلق ہے ۔ اوباما نے کہا کہ پیرس اور سین برناڈینو حملوں کے بعد بیشتر امریکیوں کا سوال یہی ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ ان تمام ہم وطنوں کو میرا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ چوکسی اختیار کریں ۔ اوباما نے اپنے اس موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ ہم امریکی اقدار کے پابند رہتے ہوئے یہ ثابت کریں کہ ہم واقعی امریکی شہری ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کہیں کوئی مشتبہ چیز پڑی نظر آئے تو فوری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو اس کی اطلاع دی جائے ۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بعض سازوں کو ناکام بنانے میں ہم اسی لئے کامیاب رہے ہیں کہ کسینہ کسی نے ہمیں ایسی کوئی اطلاع فراہم کی تھی ۔ داعش جیسے دہشت گرد ہمیں مذہبی خطوط پر ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہی ان کا طریقہ کار ہے اور اسی کے ذریعہ وہ دہشت پھیلا رہے ہیں اور اپنی تنظیم میں بھرتیاں کرتے ہیں۔ اقطاع عالم میں آباد تمام مسلمانوں کو اسلام کی مسخ شدہ تشریح کو مسترد کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرنی چاہئے ۔ ہر نوعیت کی تعصب پرستی کو مسترد کیاجانا بھی ضروری ہے کیونکہ تعصب اور امتیاز سے دولت اسلامیہ کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے جس سے وہ ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرہ کا باعث بن جاتے ہیں۔ مسرت بخش بات یہ ہے کہ تمام ہم وطن امریکی اقدار کے تحفظ میں متحد ہوگئے ہیں جس سے ہمیں طاقت حاصل ہوئی ہے۔ سیاسی قائدین چاہے وہ ڈیمو کریٹس ہوں یا ریپبلکن ، لبرلس ہوں یا کنزرویٹیوز، سب کے سب آزادی مذہب کی بہ یک آواز تائید اور حمایت کررہے ہیں ۔

Google CEO Sundar Pichai's message to Muslims: Let's not let fear defeat our values

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں