ایس این بی
وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوں کے لئے انتخابات کے موقع پر12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اس وعدے کی تاخیر پر تلنگانہ کے مسلمان وعدے کی تکمیل کرنے کی مانگ کررہے ہیں ۔ اور احتجاج پر اتر آئے ہیں ۔ اس خصوص میں وزیر اعلیٰ نے 8ماہ قبل موظف سدھیر آئی اے ایس کو چیرمین مقرر کرتے ہوئے انکوائری کمیشن کا قیام عمل میں لایا۔ انکوائری کے سلسلہ میں سدھیر کمیشن نے کل شام ورنگل کا دورہ کیا اور یہاں کے حالات کا جائزہ لیا ۔ اس موقع پر ضلع کلکٹریٹ کانفرنس ہال میں مشاورتی اجلاس منعقدہوا اور مسلم طبقہ کے ذمہ داروں سے کے خیالات قلمبند کئے ۔ چیرمین سدھیر نے کہا کہ کمیشن کو اس لئے قائم کیا گیا کہ تلنگانہ کے 10اضلاع میں مسلمان کس لحاظ سے زندگی گزار رہا ہے اور ان کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات سے واقفیت حاصل ہوسکے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کا تناسب ملازمتون میں کتنا ہے اور مسلمانوں کو سرکاری اسکیمات سے فائدہ پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ بینکوں کے ذریعہ قرضہ جات کی فراہمی اور نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع حاصل ہونے میں دشواریاں کیوں پیش آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس خصوص میں نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے ذریعہ تلنگانہ اضلاع میں دوروں کے موقع پر تمام محکمہ جات سے معلومات حاصل کی جارہی ہیں ۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے ذمہ دار خالد سعید نے مطالبہ کیا کہ تلنگانہ علاقہ میں مسلمان پسماندگی کا شکار ہیں ۔ مرد اور خواتین چھوٹی چھوٹی مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں ۔ بیڑی مزدوری، گھر میں برتن صاف کرتے نظر آتی ہیں ۔ اس کے علاوہ شادی مبارک اسکیم کے تحت بھی کئی لڑکیاں مستفید نہیں ہوسکیں ۔۔ انہوں نے کہا کہ ضلع کلکٹریٹ میں ایک زمانہ تھا تین سو عہدیدار ملازمت کرتے تھے جس میں پچاس مسلمان ملازم پائے جاتے تھے اور آج تین ہزار ملازمین میں مسلمان ملازمین کا تناسب بہت کم ہے ۔ خالد سعید نے مزید کہا کہ اثرورسوخ والے کو ہی صداقت نامہ فوری دیاجاتا ہے ۔ کمزور آدمی دفتر کے چکر کاٹ کر تھک ہار جاتا ہے ۔ خاص طور پر مسلمان سرکاری اسکیمات کے حصول سے دور ہیں۔ تعلیم کا حال اس قدر بے حال ہے کہ سرکاری مدرسہ میں عام آدمی اپنے بچوں کو شریک کروانے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہان کا تعلیمی معیار انتہائی قابل رحم ہے ۔ معاشرے میں مسلمان کا رجہ اس قدر گھٹا کر رکھ دیا گیا ہے کہ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں نے بنائی ہے تاہم آج مسلمان ہی دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے بذات خود اعلان کیا تھا کہ12فیصد تحفظات حکومت بننے کے چار ماہ بعد فراہم کئے جائیں گے تاہم دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس سمت میں کوئی پیشرفت نہیں کی گئی ہے۔ مسلم ریزرویشن فرنٹ کے ریاستی صدر افتخار احمد ایدوکیٹ نے کہا کہ سال2004ء میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے مسلمانوں کے لئے پانچ فیصد تحفظات کا اعلان کیا تھا اور مائناریٹی کمیشن کو ہدایت دی تھی کہ مسلمانوں کے حالات پر ایک رپورٹ پیش کی جائے۔ بعد ازاں تمام مرحلے گزرنے پر آخر کار انہوں نے عدالت عظمیٰ سے چار فیصد تحفظات کی فراہمی کی راہ ہموار کروائی ۔ ریاستی حکومت کو اختیار ہے کہ کسی بھی طبقہ کو پسماندگی میں شامل کرسکتی ہے ۔ جس طرح وائی ایس آر نے پشماندگی کا شکار 14طبقات کو شامل کیا جس میں ہندو مسلم ، سکھ ، عیسائی تمام شامل ہیں ۔انہوںنے کہا کہ وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ نے ایسا کام کیا ہے جس کی ساری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ریاست میں جامع سروے کروایا۔ سروے کے مطابق تلنگانہ عوام کا تمام ڈاٹاجامع سروے میں موجود ہے ۔ کمیشن بٹھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ افتخار احمد نے مزید کہا کہ اسمبلی اجلاس میں قانون پاس کریں اور مرکز کو روانہ کریں ۔ اے بی سی ڈی طبقات کے مطابق سفارش کریں ۔ انہوں نے کہا کہ جامع سروے جس میں مسلمانوں کو علیحدہ کریں ، مسلمانوں کا تناسب کتنا ہے اندازہ ہوسکتا ہے ۔ مسلمان کی حالت کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ کاسٹ سرٹیفکیٹ کے لزوم کو برخاست کریں ۔ اس موقع پر تلنگانہ اردو ٹیچرس اسوسی ایشن ریاستی صدر رفیق الرحمن نے کہا کہ اردو زبان ہندوستان کی ایک شیرین زبان ہے وہ ہندوستان میں پیدا ہوئی ہے جس کو بری طرح نظر انداز کیاجارہا ہے ۔ ایم اے سبحان نے کہا کہ اردو دوسری سرکاری زبان منڈل میں پرائمری اسکول کے بجائے ہائی اسکول قائم کیے جائیں اور دفترو ں میں اردو زبان میں درخواستوں کو قبول نہیں کیاجاتا وجہ کیا ہے ؟ اردو کے فروغ سے تعلیمی معیار بہتر ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے کمیشن سے مطالبہ کیا کہ سلم علاقوں کا دورہ کیاجائے جس سے صاف طور پر عیا ہوگا کہ سلم علاقوں میں مسلمانوں کی حالت کس قدر کمزور ہے ۔ مسلمان میکانک یاسیکل مرمت کرنے والا یا مزدوری کرتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ معاشی پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے مسلمان اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے رجوع ہونے اس سے کہاجاتا ہے کہ بینک سے لیٹر لایاجائے اور بینکوں کے چکر لگاتے لگاتے اسکی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صاف دلی سے 12 فیصد تحفظات دینا ہوتو کمیشن وغیرہ کیا ضرورت ہے ۔ وائی ایس آر نے وعدہ کیا پانچ فیصد کا اور چار فیصد فراہم کیے اور اقلیت دوستی کا ثبوت دیا ۔ اگر تقررات کے بعد 12فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں تو وہ کس کام کے ہوں گے ۔ بعد ازاں کمیشن نے مائناریڈی اسکول انگلش میڈیم جکالوی، نظام پورہ میں آنگن واڑی سنٹر، قاضی پیٹ میں سیلف ہیلپ گروپس سے مشاورت کی ۔ اس موقع پر ورنگل شہر کی اہم شخصیتوں میں محمدعبدالمجید بلوبرڈس ، محمد حبیب الدین ، حبیب خان سابق رکن ضلع پریشد ، سید ممتاز علی ، توفیق الرحمن ، محمد سراج احمد، سید رفیع الدین و دیگر شریک تھے ۔
12% reservation - Telangana government policy evasions
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں