جہاں پہلی وحی 'اقرا' سے شروع ہوتی ہے وہ قوم ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سب سے کم علم قوم ہے
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز سے روزنامہ 'صحافت' (نئی دہلی) کے نمائندہ سید عینین علی حق کی تفصیلی گفتگو
کچھ لوگوں کی شخصیت محنت ومشقت کے سبب ایک ادارے کی شکل اختیار کر لیا کرتی ہے۔ ایسا ہی ایک نام ذاکر حسین دہلی کالج کے سابق پرنسپل اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز کا ہے۔ اسلم پرویز کی پیدائش 30دسمبر1954میں گلی قاسم جان نیا محلہ بلی ماران میں ہوئی۔6برس کی عمر تک والدین کے شامل یہاں رہے یہاں کے بعد گلی مٹیا محل میں منتقل ہوگئے۔ والد کا نام حافظ محمد یوسف تھا جو پاستان ہجرت کرگئے اور وہیں ان کا انتقال بھی ہوگیا۔ بعدازاں والدہ شمس النساء کا نکاح ثانی اعجاز احمد شیروانی کے ساتھ ہوا۔ اسلم پرویز کی پرورش اشیروانی صاحب نے ہی کی اوراسلم پرویز نے بچپن سے ہی شیروانی صاحب کو والد تسلیم کیا۔ اسلم پرویز کی تعلیم و تربیت میں والدین کا اہم کردار رہا۔ ابتدائی تعلیم ایم سی ڈی پرائمری اسکول گلی مرغے والی میں 5ویں جماعت تک کی اور چھٹی جماعت میں اینگلو عربک اسکول میں داخلہ لیا۔ دہلی کالج سے بی ایس سی مکمل کیا اور ایم اے ، ایم فل اور1979بوٹنی میں پی ایچ ڈی کی سند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور وہی لکچرار ہوگئے ۔1984میں استعفیٰ دیکر ذاکر حسین کالج میں بحیثیت استاذ آئے۔ اسلم پرویز نے اب تک کئی اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ تقریباً40قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی، سائنس کے حوالے سے انگریزی ، ہندی اور اردو میں اب تک 249مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ سائنس کے متعلق 5کتابیں اردو میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اسلم پرویز نے اپنے مختلف نظریے سے سائنس کی لڑیاں اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور سائنس کو اسلام اور قرآن کا مرہون منت قرار دیا ہے۔ماہنامہ " سائنس " ایک ناقابل فراموش کارنامہ اسلم پرویز نے انجام دیا ہے ۔ یہ رسالہ 1994سے مستقل شائع ہو رہا ہے۔ اسلم پرویز سے ہوئی گفتگو کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
سوال:
بحیثیت وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آپ کیا تبدیلیاں لانے والے ہیں؟
اسلم پرویز:
مکمل تبدیلی کی بات تبھی کی جا سکتی ہے جب میں جا کروہاں کا معائنہ کروں۔ تبھی بتا سکوں گا کہ وہاں کس قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ میرے لیے سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ اردو میں معلوماتی مواد تیار کرایا جائے۔ سبھی معلوماتی مواد کو اردو میں منتقل کرانا کافی اہم ہوگا۔ اردو یونیورسٹیوں کے معلوماتی مواد مارکیٹ میں نہیں ہیں۔ میری یہی اہم ترجیح ہوگی۔ اردو یونیورسٹی محض اردو زبان و ادب کے لیے نہیں بنی ہے۔ اردو زبان وادب کے لیے تو ہر یونیورسٹی میں شعبہ موجود ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اردو شعبہ جات اوراردو یونیورسٹیوں میں کیا فرق ہے۔ شعبے معلوماتی مواد تیار نہیں کرتے یہ کام یونیورسٹی کرتی ہے تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔
سوال:
مولانا آزاد کے تحقیقی معیار اور بد انتظامی میں کچھ تبدیلیاں ممکن ہیں؟
اسلم پرویز:
وہاں جاکر میں زمینی صورت حال سمجھنے کے بعدوہ سبھی کمی کو درست کرنے کی کوشش کروں گاجس کی وجہ سے یونیورسٹی کی کارکردگی اور طلباء کا مستقبل متاثر ہو رہا ہے۔میری کوشش ہوگی کہ وہاں ایسا ماحول بنائیں جس میں ہرشخص اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے ادا کرے۔مجھے امید ہے کہ جہاں جہاں جو بھی دشواریاں ہوں وہ سبھی متعلقہ افراد کے تعاون سے جلد ہی دور کی جائے گی۔
سوال:
مولانا آزاد کو روز گار سے جوڑنے اور جدید تعلیم کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کرنے والے ہیں؟
اسلم پرویز:
جدید تعلیم کی بنیاد جدید علوم پر ہے اور جدید علوم کو روشناس کرانا ہی اردو میں بڑا چیلنج ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس پر وہاں یقیناًکام ہو رہا ہوگا،لیکن اب بھی مزید بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے۔ ساتھ ہی جیسا کہ اب حکومت کی پالیسیاں بھی ہیں،ہماری توجہ بھی ہنر پروگرام پر ہوگی۔یونیورسٹی کیمپس اور باہر کے تمام مراکز میں اس طرح کے سینٹر قائم کرنے ضروری ہوگی جہاں طلباء اپنی تعلیم کے ساتھ ایک ہنر بھی سیکھ سکیں۔اس کے ذریعہ سے روز گار پاسکیں گے۔یونیورسٹی کے ہر کورس کو روزگار سے جوڑنا بہت ضروری ہے۔
سوال:
کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ مرکزی حکومت اقلیتی طلباء کو ہنر پروگرام سے وابستہ کرکے انہیں اعلیٰ تعلیم سے دور کرنا چاہتی ہے؟
اسلم پرویز:
اقلیتی فرقے کا کوئی بچہ اگر اچھے نمبر لاتا ہے توکیا کوئی ادارہ اسے داخلے دینے سے تو منع نہیں کرتا؟ اگر آپ اچھے نمبر نہیں لاتے ہیں ،آپ کی اتنی لیاقت نہیں ہے تو سڑک ناپنے سے بہتر ہے کہ ہنر سیکھ کر اپنا مستقبل بہتر کریں۔
سوال:
کیا آپ کو لگتاہے کہ مرکزی حکومت اقلیتی طبقے کی تعلیمی پسماندہ ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔
اسلم پرویز:
مرکزی اور ریاستی حکومت بھی اقلیتوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اگرایسا نہیں ہوتاتو اس کا اثر ملک اور ریاست پر پڑتا۔ یہ خود بھی اس معاشرے اور ملت کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے پاس لاکھوں روپے ضائع کرنے کے لیے ہیں، شادیوں ، گاڑیوں، طرز زندگی اوررہائش میں ضرورت دس ہزار کی ہے تو دس لاکھ خرچ کرتے ہیں۔ جب کہ ضائع کی گئی رقم سے ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم اور یتیم بچیوں کی شادی بھی کرا سکتے ہیں۔ دہلی کے باڑہ ہندو راؤ اور قصاب پورہ کے علاقوں کی صورت حال تو یہ ہے کہ وہاں تعلیم پر کوئی توجہ نہیں البتہ شادیوں میں کلو کے حساب سے سونے چڑھائے جاتے ہیں۔اس علاقے میں جیتنے پیسے ایک شخص شادی ضائع کرتا ہے اتنی رقم میں ہر شخص ایک اسکول قائم کردے۔
سوال:
اسلامی نقطہ نظر کے تحت مسلمانوں کی تعلیم کو آپ کس حد تک ضروری سمجھتے ہیں؟
اسلم پرویز:
جیسا کہ میں سمجھتا ہوں اسلام میں جہالت حرام ہے۔پھر ہم اس حدیث کے حوالے سے گفتگو کرتے نہیں تھکتے ہیں "طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم" جو ہر مسلمان پر نافذ ہوتی ہے۔ علم کی جو اصل تعریف ہے وہ کسی بھی نامعلوم چیز سے واقف ہوناہے ۔ اسی علم کی بنیاد پر فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا تھا۔ جہاں پہلی وحی 'اقرا' سے شروع ہوتی ہے وہ قوم ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سب سے کم علم قوم ہے۔ اس کے باوجود ہمیں تکبر ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں۔
سوال:
آپ نے اب تک اپنی زندگی میں کیا اہم کار نامے انجام دیے ہیں؟
اسلم پرویز:
میری ابتدائی تعلیم اردو میڈیم اسکول میں ہوئی اور میں نے بطور مضمون سائنس کا انتخاب کیا۔ بازار کی خاک چھانی اس فراق میں کہ درسی کتابوں کے علاوہ اردو میں سائنس کے متعلق کتابیں مل سکیں۔مثلاً کہانیاں یا دیگر موضوعات کے حوالے سے ،لیکن کتابوں سے زیادہ ناکامی ہاتھ آئی۔ چند کتابیں ضرور ملیں جنہیں میں یاد رکھتا ہوں ان میں کرشن چندر کی "الٹا درخت"، ظفر پیامی کی "ستاروں کے قیدی" ، سراج انور کی "خوف ناک دنیا"، "کالی دنیا" وغیرہ اور اظہار اثر کی کہانیاں ان میں سے بیشتر کہانیاں اس وقت شائع ہونے والے "کھلونا" رسالے میں قسط وار شائع ہو رہی تھیں۔ مجھے بچپن سے اس بات کا احساس تھا کہ اردو میں سائنسی مواد نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا میں نے زندگی میں پہلا کام یہ کیا کہ اردو میں سائنسی مضامین لکھنے شروع کردیے۔ اپنے قارئین سے کہنا چاہوں گا کہ میں نے جس چیز کی کمی محسوس کی اس کے لیے شور مچانے کے بجائے اس پر کام کرنا شروع کر دیا۔میری زندگی کا مشن رہا ہے کہ جہاں خامیاں رہی ہیں وہاں میں نے نہ شکایتیں کریں نہ احتجاج کیا اور نہ ہی شور مچایا بلکہ اسے درست کرنے کے لیے کام کیا۔ ماہنامہ "سائنس" میں نے 1994میں شائع کیا۔ 21برسوں سے یہ جاری ہے اور ہندوستان کا پہلا اور واحد سائنسی رسالہ بن چکا ہے۔میں نے سائنس کو معرفت الہٰی کے طور پر سمجھا،یہ نقطہ ہم سمجھ لیں تو ہر مذہب کا شخص سائنس داں ہونے لگے۔ یہی شوق مجھے قرآن فہمی کی طرف لے گیا، قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد مجھے اسلام کی حقیقت پتہ لگی اور مسلمان بننے کا سلیقہ آیا۔ تبھی مجھے احساس ہواکہ ہم لوگوں نے دینی اور دنیاوی علم کو جوتقسیم کر رکھا ہے وہ گمراہ کن ہے۔ میں ہر شخص تک قرآن فہمی کی اہمیت پہنچانا چاہتا ہوں بشمول تعلیم وتربیت۔مکتبہ اسپرنجر کے ذریعے شائع ہونے والا انسائکلوپیڈیا "چینجنگ ورلڈہوریجن میپ"میں میری تحریر بعنوان "اسپلورنگ دی گرین ڈائمنشن آف اسلام" شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی سائنس ، ماحولیات اور قرآن کے تعلق سے مضامین بیرون ممالک میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں اسلام پر منعقد ہ سمینار میں بطور مہمان خصوصی مقالہ پیش کیا اور ہارورڈ نے' المیزان اور سائنسی جدتیں ' کے عنوان سے شائع بھی کیا۔ ذاکر نگر میں قرآن سینٹر اپنا رہائشی مکان فروخت کرکے اور خود کو فلیٹ میں منتقل کرکے قائم کیااور کہیں سے مالی امداد نہیں لی، اس کام میں میری اہلیہ برابر کی شریک ہیں۔ ٹرسٹ بھی تشکیل دے دیا ہے تاکہ یہ سلسلہ میرے بعد بھی جاری رہے۔ احباب کے تعاون سے سالانہ قرآن کانفرنس کا بھی انعقاد کرتا ہوں جس کا مقصد قرآن فہمی کے تئیں عوام میں بیداری پیدا کرنا ہے، گزشتہ قرآن کانفرنس کا عنوان" قرآن برائے کردار سازی تھا" اور اس سال کا موضوع "قرآن اور ہمارا ماحول " منتخب کیا گیا ہے۔ 13دسمبر بروز اتوار سیوک سینٹر میں قرآن کانفرنس منعقد ہوگا۔
سوال:
اردو کی موجودہ صورت حال سے آپ مطمئن ہیں؟
اسلم پرویز:
اردو کی صورت حال سے میں قطعی مطمئن نہیں ہوں۔ ہماری ترجیحات میں اردو نہیں ہے۔ والدین بچوں کو اردو پڑھانا پسند نہیں کرتے،اور اسکولوں میں اب اردو نہیں پڑھائی جاتی اور مذاق یہ کیا جا رہا ہے کہ اردو کو روز گار سے جوڑنے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔روز گار الگ چیز ہے اگر روز گار اردو میں نہیں ہے تو کیا اردو ختم کر دی جائے۔ ہمیںیہ بات سمجھنی چاہئے کہ زبان ایک تہذیب کا نام ہے اس کے ذریعہ روز گار ملتا ہے تو اچھی بات ہے۔ زبان وسیلۂ اظہار ہے، شخصیت کا اہم پہلو ہے اور تہذیب کا حصہ ہے۔ ہم نے درحقیقت اردو کو چھوڑ کر اپنی تہذیب اور شناخت گنوائی ہے۔ دین سے دوری کی بڑی وجہ بھی اردو کا چھوٹنا ہے۔تعلیمی اداروں نے بڑی غلطی یہ کی کہ عربی کی تعلیم اسکولوں سے ختم کردی۔ ہمیں اینگلو عربک اسکول میں چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک عربی پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔اب ہم مولوی صاحب پر ہی منحصر ہیں۔ ہمیں ہندی میں تو دوزخ کی کنجی اور جنت کا کھٹکا ہی ملے گاعربی کی کتابیں تونہیں مل سکتی ہیں۔
سوال:
ذاکر حسین کالج آپ کی مدت کار میں ترقی کی راہ پر گامزن رہا، آنے والے پرنسپل سے آپ کی کیا توقعات رہیں گی؟
اسلم پرویز:
بطور پرنسپل کے ساڑھے دس سال سے زیادہ کاعرصہ میں نے گزارہ ہے۔ اس مدت میں نہ صرف تعلیم کے میدان میں بلکہ کھیل اور کلچر کے میدان میں بھی ذاکر حسین کالج نے ترقی کی ہے۔ جس طریقے سے قدیم دہلی کالج کی فٹبال ٹیم فاتح رہتی تھی اسی طرز پر آج بھی ذاکر حسین کالج کی ٹیم ٹاپ پر رہتی ہے۔ دہلی فٹبال ٹیم میں ہمیشہ ایک بچہ ہمارا ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ تمام ساتھیوں کے تعاون سے میں اس کالج کو پرانے مقام پر لا سکا۔ معیار کا فیصلہ کرنے والے علاقے کے لوگ اور طلباء ہیں جنہوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ میں جس ساتھی کوچارج دے کر جاؤں گا یونیورسٹی کے ضوابط کے مطابق وہ بھی میری ہی ٹیم کا حصہ ہیں۔مجھے امید ہے یہ کالج ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا، بشرط کہ ہر شعبہ کا فرد پوری دیانت داری سے اپنا کام انجام دیتا رہے۔
***
سید عینین علی حق ، نئی دہلی
alihaq_ainain[@]yahoo.com
موبائل : 9268506925,9868434658
سید عینین علی حق ، نئی دہلی
alihaq_ainain[@]yahoo.com
موبائل : 9268506925,9868434658
سید عینین علی حق |
An interview with new VC of MANUU Dr.Mohammad Aslam Parvaiz. Interviewer: Ainain Ali Haq
شاید یہ پرانا انٹرویو ہے
جواب دیںحذف کریںوصی بختیاری
انٹرویو پرانا ہو کہ نیا ۔۔۔ لیکن نیٹ پر اردو یونیکوڈ میں موجود نہ ہو تو ، بعض اوقات گوگل سرچنگ میں قاری/صارف کی مدد کی خاطر شخصیات/ادارہ جات سے متعلق مواد شائع کرنا ضروری ہوتا ہے۔
حذف کریں:)
اسٹوڈنٹ کے مطابق پے منٹ سسٹم ناقص ہے، یہی اگر کریڈٹ ، ڈیبٹ یا نیٹ بینکنگ کے ذریعے کردیں تو قوم کا کافی پیسہ اور اس سے قیمتی وقت بچے گا۔
جواب دیںحذف کریں