خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں - شاعر سے زیادہ مشہور شعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-14

خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں - شاعر سے زیادہ مشہور شعر

khuda-ko-bhool-gaye-log
"ادو کے برمحل اشعار" میں چند اشعار ایسے ہیں جو اپنے شاعرسے زیادہ مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک شعر ہے:
خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
خیالِ رزق ہے رزاق کا خیال نہیں
تقریباً دس سال تک میں اس شعر کے شاعر کا پتہ لگاتا رہا، اسی دوران میں نے تقریباً 1700 اشعار کے شاعر کا پتہ لگالیا۔ میں نے مذکورہ شعر کو اکثرعلامہ اقبال کے نام سے منسوب پایا۔ لوگوں سے بھی سنا تھا کہ یہ شعر علامہ اقبال ہی کا ہے۔
کلیاتِ اقبال دیکھ ڈالا۔ کئی با ردیکھا، لیکن اس شعر کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ پاکستان سے شائع ہونے والی باقیات اقبال(صابر کلوری) دیکھا۔ اس میں یہ شعر تونہیں ملا۔ مگر علامہ اقبال کے کچھ اور برمحل اشعار مل گئے۔
تڑپ کے شانِ کریمی نے لے لیا بوسہ
کہا جوسر کو جھکا کر گناہگاروں میں
(باقیات اقبال صفحہ14)

حسرت نہیں کسی کی تمنان نہیں ہوں میں
مجھ کو نکالئے گا ذرا دیکھ بھال کے
(باقیات اقبال صفحہ13)

وہی لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ
جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ
(باقیات اقبال صفحہ22)

زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
(باقیات اقبال صفحہ09)

خیر کھودا پہاڑنکلا چوہا ،کی طرح نہیں ہوا۔ چھ برمحل اشعار تو میں نے علامہ اقبال کے متروک کلام سے نکال لیے۔ اس چھان بین کے دوران برمحل اشعار کی ایک کتاب چھپ گئی مگر مذکورہ شعر کے خالق کا پتہ نہیں چلا۔

ایک جمعے کو مَیں چوربازار (ممبئی) گیا۔ وہاں کے فٹ پاتھ سے میں اکثر پرانی کتابیں خریدتا ہوں۔ وہاں میری نظر ایک شعری اِنتخاب پر پڑی۔ ایک بوسیدہ حالت کی یہ کتاب "اخلاق کریمی" تھی۔ جس کو حاجی تجمل حسین صاحب تجمل جلال پوری، مقیم ممبئی نے ترتیب دیا تھا۔ یہ انتخاب کریمی پریس، ممبئی سے 1326ھ یعنی 110سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس میں کئی ہزار اشعار بقیدِ عنوانات شائع ہوئے ہیں۔
میں نے کتاب بیچنے والے سے قیمت پوچھی تو اس نے 288 صفحات کی اس کتاب کی قیمت 400 روپئے بتائی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق کہا بھائی صاحب! اس پرانی اور پھٹی چٹی کتاب کی اتنی قیمت؟
کتاب والے نے کہا: اسی لیے تو اسکی اتنی قیمت ہے۔

اس کتاب کے مطالعے پر یہ شعر خلیل کے نام سے منسوب پایا۔ اب اطمینان تو ہو گیا کہ شعر کسی خلیل کا ہے۔ اب میری نظر میں دو خلیل آئے۔ ایک خلیل بڈولوی اور دوسرے نواب خلیل ٹونکی۔
نواب خلیل تواس طرح کا شعر نہیں کہہ سکتے تھے۔ تب آتش کے شاگرد خلیل بڈولوی کی طرف دھیان گیا۔ "دبستانِ آتش" میں آتش کے شاگردوں میں خلیل کا نام مل گیا۔ مگر جس شعر کی تلاش تھی وہ نہیں ملا۔ اس کے شاعر کا کہیں اور ذکر نہیں پڑھا۔
پھر میں نے یہ شعر خمخانہ جاوید (3)، صفحہ نمبر47 پر دیکھا۔ یہ کتاب پانچ یا چھ جلدوں اور کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی کتاب دل جمعی سے مطالعہ کرنا، ناممکن ہے۔ اس کو میں نے کئی بار انجمن اسلام ،ممبئی کی لائبریری سے لا کر پڑھا ہے۔

اب ہم آپ کو بتائیں گے کہ یہ خلیل کون تھے؟
ان کا نام میر دوست علی خلیل تھا۔
 ان کے والد سید جمال علی تھے۔ وہ قصبہ بڈولی بارہا (اودھ)کے باشندے تھے۔ خلیل، نواب نادرمرزا نیشا پوری کی مصاحبت میں برسوں رہے۔ سلطان واجد علی شاہ کے عہد میں نظامت اور چکلہ داری کے عہدے پر فائز رہے۔ واجد علی شاہ جب کلکتہ گئے تو میر دوست علی خلیل بھی ان کے ہمراہ گئے۔ کلکتہ میں کچھ دن ہی رہے۔ وہاں نساخ کے دوستوں میں شامل ہوگئے اور واپس آگئے۔ لکھنؤ میں آتش کے بہت قریب رہے۔ آتش انہیں اپناعزیز بنائے ہوئے تھے۔ نوابوں اور سلطانوں کی نوکری کرنے کی وجہ سے خود کفیل بھی تھے۔ شاندار زِندگی گزاری۔ لوگوں کی کفالت بھی خوب کی۔ استاد کے اوپر خوب خرچ کرتے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد آب حیات میں میر دوست علی خلیل کا ایک لطیفہ لکھتے ہیں۔
آتش کو ابتدا ہی میں کسی شخص نے نماز پڑھنے کا طریقہ بتا دِیا۔ وہ اسی طرح بند گھر میں نماز پڑھتے تھے۔ غالباً کبھی کبھار نمازپڑھتے رہے ہوںگے۔ ایک روزخلیل نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا۔
انہوں نے سوچا کہ استاد سنیّوں کی طرح نماز پڑھ رہے ہیں۔ انہیں تعجب ہوا۔ تو خلیل نے اپنے استاد کو بتایا کہ اگر آپ شیعہ ہیں تو نماز ایسے نہیں پڑھی جائے گی۔ یہ طریقہ غلط ہے۔
آتش نے برجستہ کہا:
"ایک خدا کی دو طرح کی نماز۔۔۔۔؟"
آزاد نے یہ واقعہ بطورِ لطیفہ سنایا ہو تو ٹھیک ہے۔ آتش نماز پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ میرے خیال میں لطیفہ گڑھنا کوئی آزاد سے سیکھے۔

خلیل بہت ہمدرد انسان تھے۔ ۔ 13/جون 1847 کو آتش کا جب انتقال ہوا تو خلیل نے ایک اولاد کی طرح ان کی تدفین کا سارا خرچ اور انتظام کیا۔ خلیل کے اشعار میں اپنے استاد کی طرح صفائی اور سادگی ہے۔ ان کا دیوان غیر مطبوعہ ہے۔ چند کلام کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا ایک اور شعر برمحل پڑھنے کو ملا۔
بزم سے یار نے یہ کہہ کے نکالا مجھ کو
اٹھئے گھر جائیے دم لیجئے سستائے بہت
(خمخانہ جاوید-3، صفحہ 47)

***
خلیق الزماں نصرت (بھیونڈی)
موبائل : 09923257606

Khuda ko bhool gaye log, A verse by Meer Dost Ali Khaleel. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں