دور حاضر اور ہندوستانی مسلمان - آکر پٹیل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-19

دور حاضر اور ہندوستانی مسلمان - آکر پٹیل

indian-muslims
پچھلے ہفتے میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جو انفورسس کا سابق اعلیٰ افسر ہے۔ وہ مجھے میرے مضامین کی بدولت جانتا تھا ۔ جب ہماری بات چیت شروع ہوئی تو اس کا پہلا سوال یہی تھا کہ آپ بوہرہ ہیں یا سلیمانی؟ میں نے بتایا کہ میں ان میں سے کوئی نہیں ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ویشنوی خاندان سے تعلق رکھنے والا ہندو ہوں جو کرشنا کی پوجا کرتے ہیں۔ اس نے تعجب کا اظہار کیا کہ پھر لوگ مجھے مسلمان کیوں سمجھتے ہیں( میرے خیال سے خاص طور پر سوشل میڈیا پر) میرا اندازہ ہے کہ ایسا اس لئے ہے کہ مجھے آکار احمد پٹیل، جیسے نام دئیے جاتے ہیں ۔ میرے چند مضامین کی وجہ سے یہ نام دئیے گئے ہیں۔ ہندوستان میں لوگ تنگ نظری کا شکار ہوگئے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمانوں کی حمایت میں لکھتے ہیں وہ مسلمان ہی ہوں گے ۔ مجھے نام رکھاجانا ہمیشہ ہی دلچسپ اور اکثر ذہانت پر مبنی لگتا ہے لیکن اس بات چیت سے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہندوستان میں مسلمان ہونا دراصل کیسا ہے ۔ اس مضمون میں اسی پر بحث کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
علاحدہ اور الگ تھلگ رہنا کیسا ہے ؟ گھیٹوائزیشن [ghettoization] کے استعمال پر علاحدہ رہنے کی اصطلاح کو ترجیح دیتا ہوں کیوں کہ بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے گھیٹوائزیشن کی اصطلاح اپنی حساسیت کھو چکی ہے۔ اب ہم اسے دیکھ کر نہ چونکتے ہیں اور نہ ہی یہ سوچنے کی زحمت کرتے ہیں اس کا مطلب کیا ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سماج کے ایک حصے کو ہم نے اپنے علاقے سے نکال باہر کیا۔ ہم انہیں اپنے برابر اور اپنے ساتھ رہنے کے لائق نہیں سمجھتے۔ گھیٹوائزیشن کے تعلق سے یہ تصور جھوٹا اور غلط ہے کہ کچھ لوگ اپنی مرضی سے معاشرے سے کٹ کر ایک ساتھ اپنی جمعیت بنا کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہندوؤں کی جانب سے مسلم پڑوسیوں اور کرائے داروں کو مسترد کرنے والے متعدد واقعات اس بات کو جھوٹا ثابت کردینے کے لئے کافی ہیں ۔
بہر حال تو پھر سماج سے ہٹ کر رہنے اور پرورش پانے کے کیا مفہوم ہوں گے؟ کیا اس کا مطلب آپ کو یہ یاددہانی کرانا او ر واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ آپ کہاں نہیں رہ سکتے ؟ میں نہیں جانتا۔ بڑودہ میں جب میں کالج گیا اور مجھے رہائش کی ضرورت پیش آئی تو نجی ہاسٹل میں مجھے کمرہ فراہم کرنے سے پہلے خاتون مالکن نے ایک ہی سوال کیا تھا، پٹیل چھو؟ یعنی پٹیل ہو؟(اور یہی سوال کمرہ ملنے یا ملنے کی میری اہلیت کا جواب تھا) میں نے اپنی چھاتی پھلاتے ہوئے کہا تھا کہ ہاں۔ ایسا جیسے یہ کوئی بہت بڑی کامیابی ہو حالانکہ یہ اس خاتون اور میری جانب سے تعصب کا اظہار تھا ۔ مجھے اس واقعہ کی یارریڈف ڈاٹ کام پر شہزاد پونا والا کے اس متاثر کن مضمون کو پڑھ کر آگئی تھی جس کا عنوان تھا۔ اگر وہ ہارڈک پٹیل کے بجائے حیدر پٹھان ہوتا تو کیا ہوگا؟ میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھٹھک گیا کہ اگر کسی مسلمان نے پانچ لاکھ افراد کا اہجوم اکٹھا کرلیا ہوتا اور ہادک پٹیل جیسی اشتعال انگیز تقریر کی ہوتی تو کیا ہوتا؟ ایک قوم کی حیثیت سے ہم نے بہت کچھ کھودیا ہوتا۔ مجھے اس کا اعتراف ہے مگر مجھے اس بات پر شرم آتی ہے کہ یہ احساس ہونے میں مجھے اتنے سال لگ گئے ۔ یہ سوچ کر میں خود کو زخم خوردہ محسوس کرتا ہوں کہ کس ظالمانہ طریقے سے ہم نے مسلمانوں کو الگ کردیا ہے، یہاں تک کے اپنے دماغوں میں بھی۔ بحیثیت ایک مسلمان اگر آپ گزشتہ دس برسوں میں ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں کو دیکھتیں تو آپ محسوس کریں گے کہ ان میں شور شرابہ اور جذباتیت زیادہ ہے ، یہ معاشی معاملات پر مرکوز ہونے کے بجائے مسلمان اور اسلام پر مرکوز رہ جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر آپ کو اکتاہٹ اور جھلاہٹ محسوس ہوگی اور چینل بدل دینے پر آپ مجبور ہوں گے الا یہ کہ آپ یہی دیکھنا چاہتے ہوں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی ایجنسی نہیں ے۔ وہ ایک ایسی قوم ہیں جن کو بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ٹھیک طریقے سے نمائندگی نہیں مل پاتی۔2ملین کی خطیر آبادی مگر نمائندگی کے نام پر لوک سبھا میں صرف22رکن پارلیمنٹ( جن میں سے 8؍ مغربی بنگال سے ہیں) ہندوؤں کو اب ان اعداد و شمار پر کوئی شرمندگی نہیں ہوگی مگر مجھے حیرت ہوتی ہے مسلمان ان کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے ۔ میں کہہ نہیں سکتا مگر میں سمجھ سکتا ہوں کہ جب برہم ہندو ہجرم مسلمانوں کی منہ بھرائی پر واویلا مچاتے ہیں تو ان پر کیا گزرتی ہوگی۔
میرے خیال سے ایک مسلمان کی حیثیت سے میں اس سے بری طرح ڈسٹرب ہوجاتا ۔ حقائق کو برتنے اور انہیں سمجھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ کس طرح بے رحمی کے ساتھ متوسط طبقے کے ہندوؤں کی توجہ اسی ایک نکتے پر رہتی ہے کہ مسلمان ہی اصل مسئلہ ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا میں کوئی بھی خبر پڑھ لیں اور پھر قارئین کے تبصروں پر نظر ڈالیں ۔ میں پاکستانی اخبارات میں کسی اور ہندوستانی مضمون نطار کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے سے مسلسل لکھ رہا ہوں اور آپ کو یقین دلاسکتا ہوں کہ یا تو وہ لوگ اپنے قارئین کے احمقانہ تبصروں کو ایڈٹ کردیتے ہیں یا پھر ہم ہندوستانیوں کے بیچ سچ مچ کچھ کمینہ صفت افراد موجود ہیں جو چھوٹی موٹی اقلیت بھی نہیں ہیں ۔ بدھ کی صبح جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، ہندوستان ٹائمز کی ویب سائٹ کی شہ سرخی کہہ رہی کہ بابری مسجد سانحہ افسوسناک ہے ، اپوزیشن اس معاملہ کو مذہب کی بنیاد پر پولرائز کررہا ہے : وزیر اعظم) بعد میں اس سرخی کو بدل دیا گیا کہ دادری سانحہ پر وزیر اعظم مودی کا بیان: اس واقعہ میں مرکز کا کیا رول ہے؟ ) اسی کے نیچے خبر ہے کہ گجرات: وی ایچ ی نے غیر ہندوؤں کو گربہ سے دور رہنے کی ہدایت دی۔
میں یہاں یہ بحث نہیں کرنا چاہتا کہ ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر شہریوں کو پولرائز کون کررہا ہے۔ حالانکہ میں اس کو اچھی طرح سمجھتا ہوں اور یقین ہے کہ آپ بھی سمجھتے ہوں گے ۔جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ کہ پولرائزیشن کا آلہ ہمیشہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں ہی کو بنایا جاتا ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کسی مسلمان نے مذکورہ سرخیوں کو کیسے پڑھا ہوگا ۔ ہر روز ملک کا مسلمان خبروں کو پڑ کر جس ذہنی کیفیت سے گزرتا ہوگا میں اسکا عشر عشیر بھی سمجھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔ میں ان سے ہمدردی کا اظہار کرسکتا ہوں مگر ایک ہندو کی حیثیت سے مجھے یہ خوش قسمتی حاصل ہے کہ میں ایسی خبروں کو بند کردوں اور آگے بڑھ جاؤں کیوں کہ یہ میرے بارے میں نہیں ہیں ۔ اگر میں ہندوستان میں مسلمان ہوتا تو یقینا بہت برہم ہوتا۔

(مضمون نگار آکار پٹیل ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایکزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں)
(Aakar Patel is executive director of Amnesty International India.)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں