پی ٹی آئی
سپریم کورٹ نے ملک میں یکساں سول کوڈ لانے کے لئے حکومت کی رضا مندی سے متعلق سوال کیا اور طلاق کے قانون میں ترمیم کی تجویز کے ساتھ اندورن تین ہفتے پیش ہونے کی حکومت کو ہدایت دی ۔ جسٹس وکرم جیت سین اور شیوا کیرتی سنگھ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ ہم نے سالیسٹر جنرل سے خواہش کی ہے کہ وہ اس معاملہ کو دیکھیں ۔ انہوں نے تین ہفتوں کی مہلت طلب کی ۔ تین ہفتوں بعد یہ معاملہ پیش کیاجائے ۔ بنچ نے کہا کہ اس بارے میں مکمل الجھن پائی جاتی ہے۔ ہمیں یکساں سول کوڈ پر کام کرنا چاہئے اس کا کیا ہوا اگر حکومت اسے لانا چاہتی ہے توپھر اسے لانا چاہئے ۔ عدالت نے سوال کیا کہ حکومت یکساں سول کوڈ کو وضع کرنے اور اسے نافذ کرنے کا کام کیوں نہیں کرتی ۔ عدالت نے جولائی میں وزارت قانون انصاف سے اس مسئلہ پر جواب طلب کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ دہلی کے ایک شخص کی جانب سے دائر کردہ مفاد عامہ کی درخواست کی سماعت کررہی ہے جس میں درخواست گزار نے عیسائی جوڑوں کو طلاق کے لئے کم از کم دو سال تک انتظار کے قانون کو چیالنج کیا ہے۔ خیال رہے کہ عیسائیوں کے لئے شادی سے علیحدگی کی مدت دو سال ہے تاہم دیگر قوانین جیسے اسپیشل میریج ایکٹ ، ہندو میریج ایکٹ ، پارسی میریج ایکٹ اور علیحدگی ایکٹ کے تحت یہ مدت ایک سال ہے ۔ سماعت کے دوران بنچ نے ناراضگی ظاہر کی کہ قطعی مہلت کے تین ماہ بعد بھی متعلقہ دفعہ میں ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ وکیل کے رد عمل سے عدم مطمئن بنچ نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا رنجیت کمار سے تعاون طلب کیا جو کسی دوسرے معاملہ کے سلسلہ میں عدالت میں موجود تھے ۔ بنچ نے ہدایت دی کہ کمار تمام مذاہب کے لئے طلاق کے قوانین میں یکسانیت لانے کے تعلق سے حکومت کے موقف سے واقف کروائیں ۔ کمار نے کہا کہ وہ اس کیس سے ناواقف ہیں اور اس معاملہ میں بنچ سے مناسب تعاون کے لئے انہیں تیاری کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا ۔ بنچ نے سالیسٹر جنرل کو یکساں سول کوڈ پر بھی حکومت کا نکتہ نظر معلوم کرنے کے لئے کہا اور معاملہ کی مزید سماعت تین ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔
دریں اثناء پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب مرکزیوزیر قانون سدانند گوڑا نے کہا کہ یکساں سول کوڈ قومی یکجہتی کے لئے ضروری ہے لیکن اسے لانے کا کوئی بھی فیصلہ وسیع تر مشاورتوں کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے ۔ گوڈا مشترکہ قانون پرحکومت کا موقف معلوم کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر رد عمل ظاہر کررہے تھے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ وزیر اعظم اپنے کابینی رفقاء اور اعلیٰ قانونی افسروں سے مشاورت کرین گے اور اس کے بعد ہی عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ داخل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف پرسنل لاء بورڈ س اور دیگر مفاد رکھنے والوں کے ساتھ وسیع تر مشاورت کی جائیں گی تاکہ اتفاق رائے پیدا کیاجاسکے ۔ اس کارورائی کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا ۔ انہوںنے نشاندہی کی کہ دستور کی دفعہ44میں بھی کہا گیا کہ سب کے لئے یکساں قانون ہونا چاہئے ۔ قومی یکجہتی کے مفاد کے لئے یقینی طور پر ایک مشترکہ سیول کوڈ ضروری ہے لیکن یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے اس پر وسیع تر مشاورت کی ضرورت ہے ۔
SC Gives Government 3 Weeks to Decide Uniform Civil Code
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں