مذکورہ کیمپو ں میں جا کر یہ معصوم بچے کس ’گرو‘ کی باتوں پر عمل کرتے ہیں؟ کس کے ذریعے دیا گیا سبق یاد کرتے ہیں؟ آئیے ذرا ان کے خیالات بھی جانتے ہیں۔آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے دسہرہ میلہ کے موقع پر ناگپور میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ملک ہندو سنسکرتی ،ہندو بھومی اور ہندو وچار ‘ کے ماننے والوں کا ہے اور اس سہ نکاتی فارمولے کو ماننے والوں کو ہی ہم ہندوستانی سماج کا حصہ مانتے ہیں‘ ۔اگرچہ کہ دلت اور مسلمانوں پر ظلم ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہیں لیکن پھر بھی گذشتہ ایک سال میں اس میں حیرت انگیز اور تشویشناک اضافہ ہوا ہے گذشتہ کئی دنوں سے ملک کے حالات قابل فکر ہیں کہیں گوشت اور گائے کے نام پر دادری جیسے واقعات انجام دئے جا رہے ہیں تو کشمیر میں ٹرک میں جانور دیکھ کر بغیر کچھ پوچھے اس مسلم ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر جان سے مارا جاتا ہے۔کہیں دلت نوجوانوں کو پیٹا جا رہا ہے تو کہیں دلتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے ۔معمولی کبوتر چوری کے نام پر دلت نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔کبھی کسی بی جے پی اقتدار والی ریاست کے وزیر اعلیٰ کے ذریعے یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ گائے کا گوشت کھانے والا ہندوستان میں نہیں رہ سکتا!آج ملک بری طرح مہنگائی کی مار جھیل رہا ہے،عام عوام کی دال خریدنے کی تک حیثیت نہ رہی اور ان حالات میں آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ ’ ہمھیں آج ملک کی حالت اور مودی راج پر اطمینان اور خوشی ہے،ان کے مطابق پورے ملک میں ’ اتساہ کا واتا ورن ‘ ہے۔آر ایس ایس چیف کے مطابق ایک ’ہندوتوا‘ ہی ملک کو جوڑے رکھ سکتا ہے۔ ایک طرف وہ ملک میں مساوات اور انصاف کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ہندوستان میں رہنے والوں کو ’ہندوتوا‘ پر فخر محسوس کرنے کو کہتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل ہندوتوا کی بات کرنے والی مختلف پارٹیوں کی نظر میں ہندوتوا کے معنیٰ الگ الگ ہیں۔آر ایس ایس ،بی جے پی کا ہندوتوا الگ تو مہاراشٹر میں شیو سینا کا ’ہندوتوا‘ بی جے پی کے ’ہندوتوا ‘سے برتر ہے اور راج ٹھاکرے کے مطابق ان کا ’ہندوتوا ‘ شیو سینا اور بی جے پی سے مختلف ،سادھو سنتو کا ’ہندوتوا‘تو ان تمام سے مختلف ! آخر ان میں سے کس کا ’ہندوتوا ‘ ملک کے لئے مفید ہے اور کس کا مضر؟پہلے وہ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کر لیں ۔رہا آر ایس ایس کے کیمپوں میں سکھایا جانے والا ’ہندوتوا ‘ تو اب ملک کے حالات اور آئے دن سنگھی بی جے پی لیڈروں کے جانب سے جاری کئے جانے والے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان ’شِبیروں ‘ میں ہندوؤں کو انسان اور دلت ،مسلمانوں کو کّتے سے گئے گذرے ہونے کا سبق یاد کرایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کیمپوں سے فارغ ہونے والے افراد مظلوم مسلمانوں اور دلتوں کے لئے کتّوں کی تشبیہ استعمال کرتے ہیں۔جس کی تازہ مثال موجود ہے۔مرکزی وزیر مملکت جنرل وی کے سنگھ نے دلتو ں کے قتل پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں دلتوں کا کتّوں سے موازنہ کیا اور اس کے لئے بھی مرکزی حکومت کو ذمہ دار نہیں مانا۔جنرل وی کے سنگھ کے اس بیان کے بعد ملک کے وزیر اعظم کو شاید اطمینان ہی ہوا ہوگا کہ ’چلو میری رائے سے کوئی تو اتفاق رکھتا ہے‘ واضح ہو کہ گذشتہ سال ایک صحافی کے ذریعے مودی جی کو گجرات فسادات میں مارے گئے مسلمانوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بھی مارے گئے مسلمانوں کا موازنہ ’ کتّے کے بچّے ‘ سے کیا تھا۔آج آخر یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ بی جے پی کے ان لیڈران کی سوچ بھی کتنی ملتی جلتی ہے ! اب سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ یہ ان کی ذاتی سوچ ہے یا پھر مذکورہ کیمپوں میں پڑھایا گیا سبق ؟ اور اگر یہ وہی سبق ہے جو آج بھی مختلف کیمپوں میں آر ایس ایس کی جانب سے پڑھایا جا رہا ہے تو پھر کیا یہ سبق ملک کے نونہالوں کو پڑھایا جانا چاہیے؟ یااپنے بچوّں کے مستقبل کو لیکر واقعی میں فکر مند سماج نے اس کی اجازت دینا چاہیے؟اور اگر نہیں تو دسہر ہ کے موقع پر اتنی بڑی تعداد میں آر ایس ایس کی شِبیروں کا طلباء کیوں کر رخ کرتے ہیں؟کیاآر ایس ایس کو ہندوستانی افواج پر فخر نہیں ہے کہ وہ اپنا الگ سے’ ہتھیار بند مارچ ‘ کرتے ہیں؟کیاانھیں ہندوستانی ترنگے سے پیار نہیں ؟ کیا وہ ترنگے کی عزّت نہیں کرتے جو ہر سال اپنا بھگوا پرچم لہرا کر اسے بڑے احتمام کے ساتھ سلامی دیتے ہیں؟کیا ملک کی نوخیز نسل کو ہتھیار چلانے کی تربیت دیکر ان کے نشانہ پر مسلمان،دلت اور پچھڑی ذات کے لوگوں کو کھڑا کرنا حب الوطنی ہے ؟
ملک کی عوام کے شاید اتنے برے دن بھی نہی آئے کہ انھیں ان لوگوں سے حب ولوطنی کا سبق لینا پڑے جو ایسی تنظیم و فکر سے تعلق رکھتے ہیں جن کی نام نہاد ’عظیم ہستیوں ‘ نے انگریزوں سے معافی مانگی تھی اور انقلابیوں کی مخبری کر ملک کی آزادی میں رخنہ ڈالا تھا۔اگرآپ نئی نو خیز نسل کوکچھ دینا ہی چاہتے ہیں تو آپسی بھائی چارہ ،مساوات، انصاف، ہندوستان کی کثرت میں وحدت اور ایک دوسرے کے مذاہب کے احترام کا سبق ضرور دیں۔ ہندوستان کے آئین اور ہندوستانی عدلیہ پر یقین کرنے کی صلاحیت پروان چڑھائیں، اپنے پیرو کاروں کومذہب کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں نا لینے کا حکم دیجئے،۔ انسانوں کو انسان سمجھنے اور کتّوں کی مثالوں سے باز رہنے کا سبق دیجئے تاکہ حقیقی معنوں میں ایک مستحکم و معیاری ملک کی مثال پیش کی جا سکے،صرف ’وسندھرا ایک کٹمب ‘ کا نعراہ نہ لگاتے ہوئے ملک میں رہنے والے ہر شہری کو اپنا بھائی اپنے خاندان کے فرد کی طرح سمجھیں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو آ پ کی ’دیش بھکتی ‘ اور راشٹر پریم ‘ پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے اور آپ کے تمام تر حب الوطنی کے سبق سوائے دوغلی لفّاظی کے اور کچھ ثابت نہیں ہونگے!
***
سراج آرزو۔ ایم اے (اردو) ، بی ایڈ ، ڈی ایس ایم۔ ،بیڑ ، مہاراشٹرا
taazatahreer[@]gmail.com
موبائل : 09130917777
سراج آرزو۔ ایم اے (اردو) ، بی ایڈ ، ڈی ایس ایم۔ ،بیڑ ، مہاراشٹرا
taazatahreer[@]gmail.com
موبائل : 09130917777
سراج آرزو |
Targeting young generation by fascist parties. Article: Siraj Aarzu
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں