اب چرچا چائے پر نہیں صرف گائے پر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-18

اب چرچا چائے پر نہیں صرف گائے پر

chai-pe-charcha
گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کو لے کر عام عوام میں یوں تو بہت سے لوگ خوش ہوں گے لیکن ملک بھر کے چائے والے بہت زیادہ خوش نظر آ رہے تھے اور خوش کیوں نہ ہو جناب نریند ر مودی نے اپنے بیانات اور مختلف انٹرویو میں ایسا محسوس بھی کرایا تھا کہ ان ہی میں سے ایک چائے والا ملک کا وزیر اعظم بننے جا رہا ہے،اور پھر مختلف موقعوں سے چائے کے تذکرے ہونے لگے تو کہیں' چائے پر چرچا 'شروع ہوئی ۔انتخابات بھی ہوئے اور مودی جی کے مطابق سابق میں چائے فروخت کرنے والا ایک معمولی آدمی ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدہ تک جا پہنچا ۔اب ان تمام باتوں کو ایک سال سے زائد عرصہ گذر گیا اور اس دوران چائے والوں جیسے عام لوگوں کا ذکر کرنا جناب وزیر اعظم بھول گئے اور چائے پر چرچا بھی ختم ہوئی۔چائے پر چرچا تو خیر ختم ہوئی لیکن اب ملک بھر میں ' گائے ' پر چرچا زوروں سے شروع ہے۔آئے دن گائے کو لیکر نئے نئے بیانات دئے جا رہے ہیں جس کے بعد کئی مقامات پر تنازعات ابھرے ہیں۔انتخابات کے دوران کئے گئے وعدوں کے مطابق 'ترقی ' تو پتہ نہیں کتنی ہوئی لیکن ملک بھر میں فرقہ پرست عناصر کی طاقت میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔اب حال یہ ہے کہ ملک کی ترقی 'سب کا وکاس' اور اچھے دن کی آس لگائے ہوئی عام عوام فی الحال 'دال ' روٹی کو مہنگی نظر آ رہی ہے۔جناب وزیر اعظم بہار کے انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران بھلے ہی غریبی ہٹانے اور سماجی بھید بھاو کو دور کر کے مل جل کر رہینے کی بات کر رہے ہو لیکن مودی جی کے ہی حکومت میں شامل کچھ وزیر ،رکن پارلمنٹ یا پھر بی جے پی سے جڑے لیڈر حضرات آئے دن گائے کے موضوع کو لیکر متنازعہ بیانات دے دیتے ہیں اور جس کے بعد ملک میں تنازعات اور بحث و مباحثے شروع ہو جاتے ہیں۔جس کی تازہ مثال گذشتہ روز ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹّر کا گائے سے متعلق بیان ہے۔اب حد تو یہ ہے کہ یہ لیڈر اپنے بیان سے ایسا ظاہر کر رہے ہیں جیسے مسلمان اس ملک میں ان ہی کے رحم و کرم سے بسے ہوئے ہیں اور اگر وہ اجازت دیں تو ہی مسلمان اس ملک میں رہ سکیں گے ورنہ انھیں ملک سے نکلنا پڑے گا ! یہاں گاؤ کشی ہونا چاہیے یا نہیں؟ یا پھر بیف کھانا چاہیے یا نہیں؟ ان باتوں سے پرے ہمھیں گائے کو لیکر ملک میں جو سیاست جاری ہے اور آئے دن جو ہنگامے کھڑے کئے جا رہے ہیں ان نکات پر اظہار خیال مقصود ہے۔قدیم ہندوستان کے ویدک ادب میں اس بارے میں کئی شواہد موجود ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں گائے کے گوشت کا استعمال ہوا کرتا تھا۔جب مذہبی رسم 'یگیہ ' انجام دیا جاتا تب بھی گائے کو ذبحہ کیا جاتا تھا اسی طرح مہمان کے آنے پر بھی ان کے استقبال میں گائے کو ذبحہ کیا جاتا تھا لیکن گائے ذبحہ کرنے پر پابندی پانچویں صدی سے چھٹی صدی کے آ س پاس چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آنے اور زارضیات بطور انعام دینے کے شروعات کے بعد ہوئی۔ زمینوں میں زراعت کے لئے جانوروں کی ضرورت محسوس ہوئی اور پھر گائے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ،رفتہ رفتہ گائے کی یہ اہمیت ایک نظریہ میں تبدیل ہو گئی۔زمانہ قدیم میں گاؤ کشی کوئی بڑا جرم نہیں تھا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی پابندی تھی۔عہد وسطٰی خاص کر عہد مغلیہ میں مغلوں کے دربار میں جین سماج کے ماننے والوں کا عمل دخل بڑھنے کے بعد اس دور میں جینوں کے خاص موقعوں پر گائے ذبیحہ پر پابندی عائد کی جاتی رہی۔گاؤ کشی کا اصل تنازعہ انیسویں صدی میں آریہ سماج کی تشکیل کے ساتھ شروع ہوا جب سوامی دیانند سرسوتی نے ' گؤ رکشا ' کے لئے خصوصی مہم چلائی ،تب سے لیکر آج تک گائے کا مدعا انتہائی حساس بنا ہوا ہے اور اس بنا ء پر آئے دن شدید بحث ہوتی رہتی ہے۔آج ہندوستان کے بیشتر ریاستوں میں گاؤ کشی پر پابندی ہے ۔گجرات میں گائے سمیت بیل بچھڑے سب پر پابندی ہے 2011ء کے ترمیمی بل کے ذریعے اس قانون کو مزید سخت بنایا گیا اور بیف کے ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی ہے۔اس ترمیم کے ذریعے گاؤ کشی کے مجرم کی سزا پانچ سال سے بڑھا کر زیادہ سے زیادہ سات سال اور پچاس ہزار تک جرمانہ طئے کیا گیا ہے۔مدھیہ پردیش میں بھی گؤ کشی پر مکمل پابندی ہے۔مدھیہ پردیش میں جانوروں کو دوسری ریاست میں منتقل کرنے پر بھی پابندی ہے،گائے کا گوشت رکھنے والوں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تین سال کی سزا یا پانچ ہزار روپئے جرمانہ یا پھر دونوں بھی ہو سکتے ہیں۔ہماچل پردیش اور پنجاب میں گاؤ کشی پر سزا اس قدر سخت نہیں ہے لیکن ہریانہ میں قانونی پابندی گائے، بیل اور اس کی طرح کے دوسرے جانوروں پر بھی عائد ہے۔ہریانہ میں گاؤ کشی پر دو سال تک کی سزا اور ایک ہزار وپئے کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔بات راجدھانی کی کی جائے تو دہلی میں بھی گاؤ کشی پر مکمل پابندی ہے ساتھ ہی زراعت سے متعلق تمام جانوروں کے ذبیحہ پر بھی پابندی ہے۔اس فہرست سے صرف بیل کو مستشنیٰ رکھا گیا ہے۔دہلی میں گاؤ کشی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوے کو کم سے کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزا اور دس ہزار روپئے جرمانہ ہو سکتا ہے ساتھ ہی یہ جرم قابل سزا اور نا قابل ضمانت ہے۔بہار میں بھی گاؤ کشی پر مکمل پابندی ہے ۔بچھڑے کا بھی ذبیحہ نہیں کیا جا سکتا صرف ایسے بیل جن کی عمر 15سال سے زیادہ ہو اور وہ زراعت کے کاموں کے قابل نہ ہو ان کے ذبیحہ کی اجازت ہے۔آسام میں اس ضمن کے قانون کو آج تک کئی مرتبہ بدلا گیا لیکن پھر بھی 'مہاراجہ دربار ضابطے 'کے تحت یہاں بیف پر کوئی پابندی نہیں ہے۔آندھرا ،تلنگانہ میں بیل کے ذبیحہ کی اجازت ہے شرط یہ ہے کہ اس کو 'فٹ فار سلاٹر ' کا سرٹیفکیٹ ملا ہوا ہو۔یہ سرٹیفکٹ اس وقت دیا جاتا ہے جب بیل زراعت کے لئے کوئی منافع بخش نہ ہو۔مہاراشٹر میں بھی 'گؤ ونش کشی مخالف بل' کے ذریعے گائے، بچھڑے اور ہر طرح کے ہر عمر کے بیل کے ذبیحہ پر پابندی ہے۔یہاں ان ریاستوں میں بیف پر پابندی کا ذکر اس قدر تفصیل سے اس لئے کیا گیاکے یہ واضح کیا جا سکے ملک کی بیشتر ریاستوں میں گاؤ کشی سے متعلق قانون کم و بیش صورت میں موجود ہے۔قانون کی پامالی نا ہو اس کے لئے انتظامیہ موجود ہے ہندوستان کا اپنا مستحکم آئین ہے، نظام عدلیہ موجود ہے ۔پھر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ہو یا پھر دادری میں اخلاق کا کھلے عام قتل کرنے والے درندے انھیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے یا مسلمانوں کے ہندوستان میں رہنے نا رہنے کے تعلق سے فیصلہ دینے کا اختیار کس نے دیا؟۔کیا مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ،ان فرقہ پرستوں کو قابو میں رکھنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کریں گے؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ایک زہریلی مہم کے تحت ملک میں جگہ جگہ ایسے گروہ وجود میں آئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی شخص کو گائے ذبحہ کرنے نہیں دیں گے ان خود ساختہ گائے کے رکھوالوں کے مطابق انھوں نے ملک میں اپنے مخبروں کا جال بچھا رکھا ہے۔ان فرقہ پرست عناصروں کے ذریعے مختلف مقامات پر منصوبہ بند طریقے سے گائے کشی سے متعلق افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جس کے ذریعے ان حواریوں کو آگے کر کے فسادات کھڑے کرنے اور اپنی سیاسی روٹی سینکنے کی فکرمیں ملک کی بڑی پارٹیاں دکھائی دیتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ انھیں گائے کا تحفظ نہیں بلکہ گائے کے بہانے اقلیتوں میں عدم تحفظ پیدا کرنا ہے۔وقت ہے کہ گائے جو دیگر جانوروں کی طرح ایک جانور ہے اس پر ہو رہی سیاست کو ختم کیا جائے یا جو لوگ سیاست کر رہے ہیں ان کے جھانسے میں نا آیا جائے۔ملک کی مختلف ریاستوں کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ مسلمان گاؤ کشی مخالف قانون اور گؤ ونش کشی مخالف قانون کا مکمل احترام کر تے ہیں۔ضرورت ہے ملک کی اکثریت میں چھپے ان فرقہ پرست عناصر وں پر قابو پانے کی جو مختلف افواہوں کے ذریعے مسلم اقلیتوں کو نشانہ بنانا رہے ہیں۔آج ضرورت ہے کہ 'چرچا' گائے کی طرف سے واپس چائے کی طرف بڑھے اور ملک میں 'سب کا ساتھ سب کا وکاس ' صرف باتوں تک محدود نہ رہ کر اسے عملی جامہ پہنایا جائے۔

***
سراج آرزو۔ ایم اے (اردو) ، بی ایڈ ، ڈی ایس ایم۔ ،بیڑ ، مہاراشٹرا
taazatahreer[@]gmail.com
موبائل : 09130917777
سراج آرزو

Chai pe charcha now on cow. Article: Siraj Aarzu

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں