پی ٹی آئی
اپنے دو ٹوک پیغام میں امریکہ نے پاسکتان سے کہا کہ وہ اپنی سرحدوں میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمہ کے لئے اپنی کوششوں میں شدت پیدا کرے اور خونی حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں ، جو افغانستان میں امریکی مفادات پر بڑے حملوں کا ذمہ دار ہے ۔ یہ سخت پیغام امریکی قومی سلامتی مشیر سوزین رائس نے پاکستان کی اعلیٰ قیادت بشمول وزیر اعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو اپنے ایک روزہ دورہ پاکستان کے دوران کل دیا۔ اپنی ملاقاتوں کے دوران رائس نے پاکستان سے خواہش کی وہ اپنی سرحدوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمہ کی کوششوں میں شدت پیدا کرے تاکہ علاقائی امن اور استحکام کا فروغ ہوسکے ۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نیڈ پرائس نے یہ بات کہی۔ رائس نے پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی ٹھوس اقدامات کرنے کو کہا جو افغانستان میں حالیہ سلسلہ وار حملوں کا ذمہ دار ہے ۔ پاکستانی عہدیدار نے یہ بات کہی۔ پاکستان کے سفارتی ذرائع کے مطابق رائس نے شمالی وزیرستان میں پاکستان کی کارروائی کی ستائش کی لیکن اس ملک سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف مزید مستحکم اقدامات کرنے کی خواہش کی ۔ یہ گروپ شمالی وزیرستان میں مقیم تھا، لیکن پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی کے بعد دہشت گرد افغانستان فرار ہوگئے ۔ امریکہ کے اعلیٰ سیکوریٹی عہدیدار نے پاکستان سے کابل سے تعلقات کو فروغ دینے کی بھی خواہش کی ۔ رائس نے اسلام آباد میں اعلیٰ سویلین اور فوجی قائدین کو بتایا کہ پاکستان کے دہشت گردوں کی جانب سے پروسی افغانستان میں حملے قطعی ناقابل قبول ہیں۔ ایک سینئر امریکی عہدیدار کے حوالے سے وال اسٹریٹر جرنل میں یہ بات کہی گئی۔ روزنامہ کے مطابق رائس کا تبصرہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے حالیہ الزامات کا ھوالہ تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کابل میں سلسلہ وار دہشت گرد حملے پاکستانی دہشت گرد کررہے ہیں ۔ نامعلوم عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا کہ ہم افغان حکومت کی تشویش سے متفق ہیں ۔ رائس نے پاکستانی قائدین سے کہا کہ دہشت گرد اور عسکریت پسند حملے علاقائی ناچاقی کا اہم سبب بن چکے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار کے حوالہ سے نیویارک ٹائمس نے کہا کہ اس چیلنج سے نمٹنا پڑوسیوں اور واشنگٹن سے پاکستان کے تعلقات کے لئے لازمی ہے ۔ بالخصوص ایسے وقت جب کہ کابل میں تشدد اور افغانستان میں طالبان کی خونی مہم میں اضافہ ہوا ہے ۔ امریکی عہدیدار نے تاہم ہندوستان کے ان دعوؤں کا کوئی حوالہ نہیں دیا کہ اس کی سر زمین پر حالیہ دہشت گرد حملے سرحد پار دہشت گردوں کی جانب سے انجام دیے گئے ۔ روزنامہ کے مطابق رائس کا اسلام آباد دورہ ہند وستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے غیر متعلق تھا ۔ اس دورہ کا شیڈول کئی ہفتے قبل تیار ہوا تھا ۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف سخت کارروائی سے پاکستانی حکومت کی بد دلی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ گزشتہ ہفتہ حقانی نیٹ ورک کے اعلیٰ قائد عبدالعزیز حقانی کو امریکہ کی جانب سے عالمی دہشت گردقرار دیا گیا ہے کیوںکہ وہ افغانستان میں سازش اور حملوں میں ملوث ہیں ۔ افغانستان کی حکومت نے الزام عائد کیا کہ کابل میں حالیہ حملے حقانی نیٹ ورک نے کیے تھے اور یہی خیال امریکہ کا بھی ہے۔ رائس اور پاکستانی عہدیداروںنے مختلف علاقائی اور عالمی مسائل پر امریکہ اور پاکستان کے مل کر کام کرنے سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا۔ وائٹ ہاؤسکی نیشنل سیکوریٹی کونسل کے ترجمان پرائس نے کہا کہ رائس نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان حالیہ مذاکرات کے لئے پاکستان کی مدد کی ستائش کی اور افغان زیر قیادت امن عمل کے لئے امریکی عہد کو اجاگر کیا ۔ پرائس نے کہا کہ رائس نے صدر اوباما کی طرف سے وزیر اعظم شریف کو22اکتوبر2015کو وائٹ ہاؤس دورہ کی دعوت دی تاکہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کیاجاسکے ۔ سیول سوسائٹی قائدین کے ساتھ ملاقات کے دوران رائس نے پاکستان میں انسانی حقوق کی حمایت ، ترقی اور شہری آزادیوں میں ان کے کام کی ستائش کی اور ان کی گراں قدر کوششوں کے لئے بھرپور امریکی حمایت کے تسلسل کی توثیق کی۔ اس ماہ کے اوائل میں وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ پاکستان کو اپنے عہد کی پابندی کرنی ہوگی کہ وہ دہشت گردوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے تعلق سیہمارے نظریات اور تشویش جگ ظاہرہے۔ ہم نے اس سلسلے میں ان سے تبادلہ خیال کیا اور حکومت پاکستان سے ہمارے تعلقات کے حصے کے طورپر ہم اس مسئلہ کو پابندی سے اٹھاتے ہیں ۔ حکومت پاکستان نے واضح کردیا کہ وہ دہشت گردوں کے درمیان تفریق نہیں کرتی اور یہ عہد ان کے وزیر اعظم کا ہے نیز وہ دیگر ممالک میں حملہ کرنے دہشت گردوں کو اپنی سر زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں