ٹریڈ یونینوں کی ملک گیر ہڑتال سے معمولات زندگی متاثر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-09-03

ٹریڈ یونینوں کی ملک گیر ہڑتال سے معمولات زندگی متاثر

نئی دہلی
پی ٹی آئی
ملک کی10اہم اور مرکزی ٹریڈ یونینوں نے لیبر قوانین میں ترمیمات اور سرکاری یونٹوں کو خانگیانے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے کئی علاقوں میں عام زندگی شدید متاثر ہوئی ۔ ان مقامات میں مغربی بنگال، تریپورہ ، کیرالا اور کرناٹک سر فہرست ہیں ۔ ٹریڈ یونین قائدین نے یہ دعویٰ کیا کہ باضابطہ شعبوں کے15کروڑ ورکرس نے ہڑتال میں حصہ لیا جو12نکاتی منشور مطالبات کی تائید کررہے ہیں ۔ بی جے پی کی حمایت یافتہ بی ایم ایس اور این ایف آئی ٹی یو نے ہڑتال سے علیحدگی اختیار کررکھی ۔ ہڑتال سے ٹرانسپورٹ ، بنک کاری اور ملک کے دیگر علاقوں میں دیگر خدمات بہت زیادہ متاثرہوئیں۔23پبلک سیکٹر بنکوں کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کے12بنکوں،52علاقائی دیہی بنکوں اور 13ہزار سے زائد کوآپریٹیو بنکوں کے ورکرس نے ہڑتال میں حصہ لیا جس سے عام بنک کاری بری طرح متاثر ہوئی ۔ اس تحریک میں اسٹیٹ بنک آف انڈیا ، انڈین اوورسیز بنک، آئی سی آئی سی آئی بنک، ایچ ڈی ایف سی بنک اور ایکسس بنک نے حصہ نہیں لیا ۔ آل انڈیا بنک ایمپلائزاسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری سی ایچ وینکٹا چلم نے بتایاکہ بنکنگ شعبہ کے دس لاکھ ورکرس میں سے نصف نے ہڑتال میں حصہ لیا ۔ مغربی بنگال اور مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقوں کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی جھڑپوں کے معمولی واقعات پیش آئے ۔ کولکتہ کے مضافاتی علاقوں میں ریل خدمات جزوی طور پر متاثر رہیں ۔ دکانیں، مارکٹس اور تجارتی ادارے بیشتر علاقوں میں بند رہے ۔ ریاستی انتظامیہ نے سڑکوں پر پبلک بسوں کے ذڑیعہ خدمات میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جبکہ خانگی بسوں اور ٹیکسیوں کی زبردست قلت محسوس کی گئی ۔ قومی دارالحکومت میں مسافرین کو مختلف النوع مسائل کا سامنا کرناپڑا کیونکہ آٹو اور ٹیکسیوں کا سڑکوں پر نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ کیرال میں عوامی اور پرائیویٹ بسوں کی خدمات کے علاوہ ٹیکسیوں اور آٹو رکشا کی خدمات بھی مکمل طور پر بند رہیں ۔ سڑکوں پر صرف ٹو وہیلر اور پرائیویٹ کاروں کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔ یہاں بھی ہوٹل، دکانیں حتی کہ چائے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی بند رہین ۔ تریپورہ میں سڑکوں پر گاڑیاں دکھائی نہیں دیں جب کہ بازار بند رہے ۔ بنکس اور دیگر مالیاتی اداروں کے علاوہ اسکولس اور کالجس بھی بند رہے ۔ سرکاری دفاتر میں بھی حاضری نہایت کم رہی ۔ او این جی سی کارخانہ اور تریپورہ جوٹ مل کے باب الداخلہ بند رہے۔ کرناٹک میں سرکاری ٹرانسپورٹ ورکرس نے بھی مجوزہ موٹر بل پر اعتراض کرتے ہوئے اس کے خلاف ہڑتال میںحصہ لیا۔ یہاں بھی آٹو رکشا کے علاوہ بسیں سڑکوں پر دکھائی نہیں دیں جس کے سبب دفاتر جانے والوں کو دشواریاں پیش آئیں۔ خصوصی طور پر دور دراز کے مقامات کا سفر کرنیو الوں کومصائب کا سامنا رہا ۔
پڈوچیری ٹاملناڈومیں بھی ہڑتال کے شدید اثرات دیکھے گئے ۔ پنجاب ، ہریانہ اور چندی گڑھ میں عوامی ٹرانسپورٹ جیسی کئی خدمات بند رہیں ۔ مسافرین کو حد سے زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ کئی روٹس پر خانگی بسوں کی خدمات جاری تھیں۔ بنک صارفین کو بھی کافی مشکلات درپیش آئیں ۔ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کے سکریٹری ڈی ایل سچدیو نے بتایا کہ گڑ گاؤں میں کم از کم پانچ لاکھ صنعتی ورکرس ہڑتال پر ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ماروتی سوزوکی پلانٹ میں بھی ورکرس نہیں آئے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ راجستھان روڈ ویز کے ملازمین بھی ہڑتال پر تھے ۔ مانیسر میں ہونڈا موٹر سائیکل اور اسکوٹر کمپنی بھی بند رہی ۔ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کے جنرل سکریٹری گروداس داس گپتا نے بتایا کہ پورے ملک پر اس کامیاب ہڑتال کا زبردست اثر پڑا ہے حتی کہ دہلی میں بھی اس کے اثرات پوری طرح نمایاں رہے ۔ بعض علاقوں میں بی ایم ایس ورکرس نے بھی ہڑتال میں ساتھ دیا ۔ کئی مقامی اور وابستہ یونینوں نے ہڑتال میں حصہ لیا۔ انہوں نے مزید بتایاکہ اس ہڑتال سے ایک بات تو ظاہر ہوجاتی ہے کہ عوام کا کتنا بڑا حصہ حکومت کی مخالف ورکرس پالیسیوں سے ناراض ہے اور برہمی کا اظہار پوری طریقہ سے کررہے ہیں۔ حکومت اشیائے ضروریہ و خوردنی کی قیمتیں کم کرنے میں پوری طرح ناکام ہے اور مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہے۔ حکومت معاشی نمو میں بھی سست رفتار پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہورہی ہے ۔ گوا میں سڑکیں سنسان اور ویران پڑی تھیں ۔ صبح کے وقت خانگی بسوں کے علاوہ سرکاری کے ٹی کارپوریشن لمٹیڈ بسیں سڑکوں پر کہیں نظر نہیں آئیں ۔ دہلی میں افراد گھنٹوں آٹو رکشا کے انتظار میں کھڑے دیکھے گئے اور شہر کے بیشتر علاقوں میں یہی نظارہ رہا ۔ میٹرو اور ڈی ٹی سی بسوں میں بھی مسافرین کی تعدادکم نظر آئی ۔ دفاتر، اسکولس اور کالجوں کو جانے والے صبح کے وقت حالات سے متاثر نظر آئے۔ اڈیشہ میں بعض مقامات پر احتجاجی ریلوے لائنوں پر بیٹھ کر مظاہرہ کرنے لگے جس کے سبب ریل خدما ت متاثر رہیں۔ کٹک ، بھوبنیشور، سنبھل پور ، بھدرک ، چھتر پور ، کالی کوٹ ریلوے اسٹیشنس بند رہے ۔
ملک کو 25ہزار کروڑ روپے کا نقصان
نئی دہلی
یو این آئی
آل انڈیا ٹریڈ یونینس کی ایک روزہ ملک گیر ہڑتال سے حکومت کو پچیس ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ۔ اسوسی ایٹیڈ چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا کے سکریٹری جنرل ڈی ایس راوتنے بتایا کہ ضروری خدمات میں تعطل کے سبب معیشت پچیس ہزار کروڑ روپے سے محروم ہوسکتی ہے ۔ جن میں متعدد راست و بالواسطہ نقصانات شامل ہیں ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہڑتال کے سبب ورکرس کی حاضری اور صنعتی سرگرمیاں بے حد متاثر ہوں گی ۔ علازہ ازیں چلر فروش تجارتی منڈیوں میں بھی سناٹا رہے گا ۔ بیشتر بنکوں کے ملازمین بھی ہڑتال پر ہیں جس سے بنک کاری شعبہ بری طرح متاثر ہوگا۔15ماہ قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے یہ پہلی ملک گیر ہڑتال ہے جس سے تقریبا ہر ریاست میں عام زندگی متاثر ہوئی اور لاکھوں صنعتی ورکرس گھر بیٹھے رہے۔ مرکزی ٹریڈ یونینوں کے قائدین نے ہڑتال کی کامیابی کو غیر معمولی اور غیر متصورہ قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ بنکس ، انشورنس کمپنیوں اور سرکاری و غیر سرکاری کارخانوں میں کام بند رہا۔ بیشتر مقامات پر ٹرانسپورٹ یونینس اور ٹریڈرس نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا جس کے سبب تعلیمی ادارے بند رہے اور سرکاری دفاتر میں حاضری بھی برائے نام رہی ۔ راوت نے بتایاکہ ایکسپورٹ کے مال و اسباب بھی بروقت بندر گاہوں پر پہنچ نہیں سکے جس سے معیشت اور بھی زیادہ متاثر ہوسکتی ہے ۔ صنعتی چیمبر نے یہ احساس بھی ظاہر کیا کہ یومیہ اجرت پر کام کرنیو الے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔ راوت نے تاہم یہ اعتراف بھی کیا کہ لیبر اصلاحات نہایت ضروری ہیں اور حکومت کو قابل قبول حل نکالنے کے لئے اس معاملہ میں مداخلت کرنی چاہئے جو صنعت اور قوم کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

Trade Union's National Strike Hits Normal Life across India

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں