پی ٹی آئی
ریزروبینک آف انڈیا(آر بی آئی) کے گورنر رگھو رام راجن نے احساس ظاہر کیا کہ عالمی معیشت میں نمو کا وسیلہ بننے میں چین کا مقام حاصل کرنے کے لئے طویل مدت درکار ہوگی ۔ ان کا یہ تبصرہ اس پس منظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ چین کی زیر قیادت نمو میں سست رفتاری اور حال ہی میں عالمی منڈی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ اس صورتحال کے پیش نظر اندرون ملک بحرانی صورتحال کو ایک سنہرا موقع باور کرکے عالمی معیشت میں نمو کا وسیلہ بننے کے مطالبہ میں اضافہ ہورہا ہے ۔ چین کو پیچھے چھوڑنے اور اس کا مقام حاصل کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں رگھو رام راجن نے بی بی سی کو بتایا کہ ہندوستان کا رقبہ چین کی تقریبا چوتھائی حصہ ہے ۔ اگر ہم شرح نمو کے اعتبار سے چین کا مقام حاصل کرلیں تو بھی اسکے اثرات کا حجم نہایت کم ہوگا اور اس کے لئے بھی ایک مدت درکار ہوگی ۔ ورلڈ بینک سے حاصل تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کا او ڈی پی 17ارب ڈالر ہے ۔ اس کے موازنہ میں چین کو دوسرا مقام حاصل ہے جس کا او ڈی پی10ارب ڈالر ہے جب کہ ہندوستان میں صرف2ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے مقام پرہے ۔ پیر کے روز عالمی منڈی میں زبردست گراوٹ کے بعد وزیر اعظم نریند رمودی نے ہندوستانی معیشت مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی بحران کو ہندوستان اپنے لئے ایک سنہرے موقع میں تبدیل کرلے گا۔ کل وزیر فینانس ارون جیٹلی نے بھی یہی احساس ظاہر کیا تھا کہ عالمی منڈی میں گراوٹ پریشانی کا باعث نہیں بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ ہندوستان کی معیشت میں نمو اور استحکام کا موقع نصیب ہوگا ۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کو تیز تر اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے ۔ جیٹلی نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ عالمی معیشت کا بوجھ ایک انتہائی طاقتور انجن پر ہے جو تیز رفتاری سے عاری ہے ۔ اس صورتحال میں عالمی معیشت کو اب ایک متبادل انجن کی ضرورت ہے ۔ گزشتہ چند برسوں میں چین نے عالمی معیشت کی نمو میں نمایاں رول ادا کیا ہے اور فی الحال ہندوستان ایک اہم اور بڑی معیشت ہے جس کی معیشت میں نمو کی شرح7تا8فیصد ہے۔ اس کے بعد ہی کسی اور ملک کا نمبر آتا ہے ۔ راجن نے کہا کہ چین بہت بڑا ملک ہے اور عالمی معیشت میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس کسی بھی ملک کی معیشت میں گراوٹ سے بلا شبہ تمام ممالک متاثر ہوں گے ۔ راجن 2007اور2008کے معاشی بحران دیکھ چکے ہیں اور انہیں اس کا خاصہ تجربہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب تک کے حالات کے جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم بحران سے دو چار ہونیو الے ہیں تاہم گزشتہ چند برسوں کی نازک حالت پر توجہ مرکوز کرکے اسی پس منظر میں ہمیں ہوشیار رہنے کی سخت ضروری ہے ۔ راجن نے یہ بھی کہا کہ معیشت کے مسائل ، اصلاحات کے ذریعہ حل کئے جانے چاہئیں اور سنٹرل بنکس کی حد سے زیادہ مداخلت کوئی اچھی بات نہیں ۔ ہم سے بہت زیادہ( اقدامات کا) مطالبہ نہ کیاجائے کیونکہ حد سے باہر قدم نکالتے ہی نتائج اور بھی برے برآمد ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم واقعی کچھ حد سے زیادہ کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو خطرات بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ۔ موجودہ ماحول میں ہمارے ملک کی معیشت کی صورتحال اس قدر خطرناک نہیں کیونکہ ہمارے یہاں افراط زر کی شرح تقریبا6فیصد ہے ۔ شرح سود بھی7.25فیصد ہے حالانکہ جاریہ سال ہم نے نمو کی شرح کو برقرار رکھنے کے لئے3بار اس میں کمی کی ہے ۔ ہمارے ملک میں سنٹرل بنکس کے روایتی مسائل زیادہ ہیں جن میں افراط زر بڑا مسئلہ ہے ۔ لہذا ہمیں ایسے مسائل حل کرنے پر توجہ مرکز کرنے کی ضرورت ہے ۔
Long way to go for India to become global growth engine: RBI Governor
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں