او۔ پی۔ منجل - اردو زبان و شاعری کا ایک مثالی مداح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-29

او۔ پی۔ منجل - اردو زبان و شاعری کا ایک مثالی مداح

hero cycle founder o-p-munjal
وہ بزرگ جو 1944-45 کے آس پاس سے عروس البلاد میں مقیم ہیں۔ بتاتے ہیں کہ اُس زمانے میں اِس شہر میں بھی ہماری زبان و ادب کا غلغَلہ تھا۔ یہ جو ممبئی میں اُردو زبان کی صورتِ حال آپ دیکھ رہے ہیں وہ اُسی زریں دَور کی چھوٹ ہے۔ گلی کوچوں میں چھوٹی بڑی شعری و ادبی انجمنیں اور ادارے تھے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے زیر اہتمام نجانے کتنی لائبریریاں تھیں جن میں ایک خاصی تعداد اُردو لائبریریوں کی بھی تھی۔ جہاں دونوں وقت ( صبح و شام) کے اخبارات پڑھنے کیلئے قارئین کی ایک بڑی تعداد آتی تھی اور اِن لائبریریوں میں اُردو کی اعلیٰ درجے کی کتابیں بھی موجود تھیں جن سے استفادہ کرنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
ہر محلّے میں گاہے گاہے شعری نشستیں ہی نہیں مشاعرے بھی منعقد ہوتے تھے اور ان میں شرکت کرنے والوں میں خواص ہی نہیں عامی بھی خاصی تعداد رکھتے تھے۔

بہت مشہور واقعہ ہے کہ محمد صابو صدیق پالی ٹیکنک گراؤنڈ پر ہونے والے ایک بڑے مشاعرے میں سحاب قزلباش نے اپنا یہ شعر جب پڑھا :
بجھ رہے ہیں چراغِ دِیر و حرم
دِل جلاؤ کہ رَوشنی کم ہے
تو گراؤنڈ کے مجمع کا کیا خاص اور کیا عام ،ہر فرد شعر کی تکریم اور شاعرہ کی تعظیم میں اِیستادہ ہوگیا تھا ۔
بزرگوں ہی سے یہ روایت بھی بڑی خوش کن ہے کہ یہ شعر دوسرے دن تمام شہر میں پھیل چکا تھا۔ ہوٹل میں کام کرنے والوں میں دو حلقے تھے۔ ایک حلقے کے لوگ باہر والے اور دوسرے اندر والے کہلاتے تھے۔ اندر والوں سے مُراد وہ لوگ جو ہوٹل کے اندر یعنی باورچی خانے اور ٹیبل پر کام کرتے تھے اور باہر والے اُنھیں کہا جاتا تھا جو ہوٹل سے چائے اور کھانا وغیرہ دُکانوں اور کارخانوں وغیرہ میں پہنچا تے تھے ۔( یہ باہر والے بھی ایک تاریخی کردار کے حامل تھے جن کا کسی اور وقت تذکرہ ہوگا۔)
سحاب قزلباش کا مذکورہ شعر ہوٹل کے اندروالوں کو بھی یاد ہوگیا تھا۔ صرف اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس زمانے کے عوام کا بھی شعری ذوق کس درجے کا رہا ہوگا!!
سوچتے رہیے کہ ہوٹل کے باورچی بھی سحاب قزلباش کے شعر کی داد دے رہے تھے اور اب اپنے دَور کے اُردو اسکولوں کے اکثر اُستادوں کا ذوقِ شعری تو جانے دیجیے ان کی اُردو دانی ہی پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔

آج یہ باتیں اُردو دوست ہی نہیں اُردو شاعری کے ایک دِلدادہ لدھیانہ کے اوم پرکاش مُنجل کے دیہانت کی خبر نے یاد دلا دِیں۔
اوم پرکاش مُنجل پورے ملک میں مشہور شخص تھے جو ماہِ رواں کے تیرہویں دن اپنے پیچھے جدوجہد اور اُردو زبان اور شاعری سے محبت کی ایک مثال چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی تاریخ یہ ہے کہ اُنہوں نے پچاس ہزار روپے قرض لے کر سائیکل بنانے کا ایک کارخانہ شروع کیا اور اُن کی محنت ،جدوجہد نے انہیں ملک کی ایک مشہور ترین سائیکل فیکٹری کا مالک بنا دِیا اور ان کی سائیکل ایک دُنیا تک ایکسپورٹ ہوئی۔ اس طرح کے بہت سے تاجر آج بھی ہونگے مگرجو وصف اُنھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے وہ اُن کا اُردو زبان اور اُردو شاعری سے ایک والہانہ لگاؤ تھا۔
ہیرو سائیکل [Hero Cycle] کے نام سے آپ یقیناً واقف ہونگے۔ او پی منجل ہی اس سائیکل کارخانے کے بانی تھے جس نے ایک مثالی ترقی کی۔۔۔

تیس چالیس برس اُدھر کی بات ہے کہ لکھنؤ کی مشہور ترین وائن کمپنی "Mohan Meakin" ہر سال ایک ڈائری شائع کرتی تھی جس کے ہر صفحے پر اُردو کا ایک منتخب شعر شامل رہتا تھا۔ اس کے بعد ہم نے ہیرو سائیکل والوں کی ایک ڈائری دیکھی جو اپنی پیش کش اور انتخاب کے سبب انفرادی حیثیت کی حامل تھی جس میں دورِ جدید کے شعرا کے اشعار بھی ہوتے تھے۔ دوسری خاص بات یہ تھی کہ اس میں نئے شعرا کے اشعار بھی شامل تھے۔ غالباً 1970 کے آس پاس کے کسی سال کی ایک ڈائری تھانے شہر کے ایک سائیکل ایجنٹ کے ذریعے ہم تک پہنچی تھی جس کی ورق گردانی کرتے ہوئے جب ہم ایک صفحے پر پہنچے تو اس کے بیچوں بیچ اُردو اور دیوناگری میں یہ شعر:۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسے اُس کی قسمت نے دھوکا دِیا
جو قسمت کو سب کچھ سمجھتا رہا
دیکھ کر ایک حیرانی اور خوشی کا احساس جاگا کہ یہ غزل تو مُشاعروں ہی میں ہم نے پڑھی ہے مگر یہ شعر تو لدھیانہ سے چل کر نجانے کہاں تک پہنچ گیا!!

ایک اتفاق کہ برسوں بعد لدھیانہ کے ایک سفر میں اوم پرکاش منجل جی سے کسی نے ملایا تو ان کا شعری ذوق دیکھ کر دل خوش ہوگیا ، بالکل پرانے بزرگوں کی طرح انھیں شعر یاد تھے۔ اقبال، فیض، فراز، حفیظ جالندھری اور مرزا غالب کے اشعار انھیں گیتا کے اشلوک کی طرح ازبر تھے اور گفتگو کے دوران بر محل سنا رہے تھے۔ ہم نے اُن سے سوال کیا کہ اُردو زبان اور اُردو شاعری سے آپ کو اتنا لگاؤ کیوں کر ہوا؟ کہنے لگے:
"میاں! اپنی ماں کی زبان سے لگاؤ کی وجہ بیان کرنے کی بھلا کوئی ضرورت ہے ؟ "
۔۔۔ ہم نے انکا یہ جواب سنا تو ہم سے بس تبسم ہی بن پڑا ۔

اُردو اپنے آپ میں جو سمائی، گیرائی اور گہرائی رکھتی ہے، کسی زبان میں یہ تینوں خوبیاں ایک ساتھ ملیں تو مجھے مطلع کیجیے۔ ہم نے ان سے ان کی جدوجہد کی روداد بھی سننی چاہی۔
کہنے لگے :
"جناب! ۔۔۔۔ برسہا برس کی ایک لمبی کہانی ہے ۔ جو ہماری زبان کے ایک شعر میں صرف دس سے گیارہ لفظوں میں بیان ہو گئی ہے۔ لیجیے آپ بھی سنئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جو چاہیں خود ہی لکھ دیں
سادہ کاغذ ہیں تقدیریں

۔۔ اب ہمارے درمیان او م پرکاش مُنجل تو نہیں ہیں مگر افسوس کہ ایسے لوگوں کے ساتھ شعر وادب کا اعلیٰ ذوق بھی اُٹھ رہا ہے اور جو ہیں وہ طلب شہرت کے مریض اور شعرو ادب کے سہارے سماجی مرتبت کے خواہاں، ان کیلئے تو نظیر کہہ گئے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

Hero Cycles Founder Om Prakash Munjal, ideal fan of Urdu language and poetry Dies at 87. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں