غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے زیراہتمام ڈاکٹر نجمہ رحمانی کی کتاب پر مذاکرہ کا انعقاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-29

غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے زیراہتمام ڈاکٹر نجمہ رحمانی کی کتاب پر مذاکرہ کا انعقاد

مائک پر رضا حیدر،ڈاکٹر نجمہ رحمانی، خالد جاوید، صدیق الرحمن قدوائی، معین الدین جینا بڑے اور خورشید اکرم
نجمہ رحمانی کی یہ کتاب افسانے کوپڑھنا سکھائے گی:شمس الحق عثمانی
ڈاکٹر نجمہ رحمانی کی کتاب پر مذاکرہ کا انعقاد،اہم ادباء نے شرکت کی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے تحت شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی استاذ اور معروف ادیبہ ڈاکٹر نجمہ رحمانی کی تازہ ترین کتاب ’’اردو افسانے کا سفر‘‘ پرآج شام ساڑھے پانچ بجے ایوانِ غالب میں مذاکرے کا انعقاد کیاگیا ،واضح رہے کہ یہ کتاب عرشیہ نے دو جلدوں میں شائع کی ہے۔اس پروگرام کی صدارت غالب انسٹی کے سکریٹری پروفسیر صدیق الرحمن قدوائی نے کی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹر رضاحیدرنے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹرنجمہ رحمانی کی اس کتاب سے پہلے بھی کئی کتابیں منظرعام پرآ چکی ہیں۔ آپ کی موجودہ کتاب اردو افسانے کاسفر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس میں پچاس سے زیادہ معتبر نقادوں اور دانشوروں کے مضامین موضوع کے تعلق سے ہیں۔ اس کتاب کی مقبولیت اور معنی و مواد کے مدنظر امید کی جارہی ہے کہ دہلی و بیرونِ دہلی کے اہم اسکالرز طلبہ اورمختلف علوم و فنون کے افراد کی شرکت متوقع ہے۔پروفیسر شمس الحق عثمانی نے کہاکہ افسانوں کے حوالے سے بے شمار کتابیں آرہی ہیں مگر ان کی تفہیم نہیں ہو پارہی ہے۔کیوں کہ لوگ ایک غزل تو برداشت کرلیتے ہیں مگر افسانوں کی قرأت کی جرأت نہیں کرتے۔ افسانہ فن ہے ۔بیدی ایک رم پر افسانہ لکھتے تھے تب دس صفحہ کا افسانہ لکھتے تھے۔ امید ہے کہ یہ کتاب افسانے کے قارئین کو افسانہ پڑھانا سکھائے گی۔نجمہ رحمانی ان تحریروں کا اولین زمانۂ اشاعت بھی شائع کردیا ہوتا تو کافی اہم ہوتا۔اس موقع پر پروفیسر معین الدین جینابڑے نے کہاکہ میں نجمہ رحمانی کو کتاب میں شامل مقدمے کے لیے مبارک باد دیتا ہوں کیوں کہ وہ مقدمہ ان کی اہم کمائی ہے۔ہم لوگ نجمہ کا جس قدر شکریہ ادا کریں کم ہے۔ انہوں نے وہ مضامین فراہم کرایا ہے جو ہماری دست رس سے دور تھے۔ نجمہ نے ان نتائج پر بحث کی ہے جس سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر خالد علوی نے کہاکہ مرزا حامد بیگ ، نیر مسعود جیسے اہم لوگوں کے افسانے کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ،لیکن اس کتاب کو میں نے کئی دفعہ پڑھی ہے۔نجمہ رحمانی نے افسانے کے حوالے سے دستاویز مرتب کیا ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ خورشید اکرم نے کہاکہ افسانے کم لکھے جا رہے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں تو ان کی پذیرائی نہیں ہو رہی ہے۔اس کتاب میں جمع کیے گئے مضامین کافی محنت کے حامل ہیں اور تمام پہلوؤں کو سمیٹنے کی نہایت ہی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر افسانے کے حوالے سے علم میں اضافہ ہوگا۔میں امید کرتا ہوں کہ نجمہ اس سلسلے کو مزید وسعت دیتے ہوئے اس کتاب کی تیسری جلد بھی شائع کریں گی۔کیوں کہ ان کے اس کام کی اہمیت وافادیت ہے ۔ ڈاکٹر خالد جاویدنے کہاکہ اردو افسانے کی تفہیم و تشریح کے اختتام کا یہ کتاب اعلان ہے۔نجمہ رحمانی نے تنقید نگاروں کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاروں کے بھی افسانے شامل کرکے اہم کار نامہ انجام دیا ہے۔ اس سے افسانے کی مبادیات کا نیا رخ سامنے آئے گا۔ ڈاکٹر ابوبکرعبادنے کہاکہ نجمہ رحمانی کی ذہانت کے چرچے میں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی سن رکھے تھے ۔ آج کل کی ترتیب شدہ کتابوں میں کسی قسم کی گفتگو موجود نہیں ہوتی مگر نجمہ رحمانی نے کافی طویل مقدمہ لکھا ہے اور تمام ادوار اور پہلوؤں کا مختلف نوعیت سے تذکرہ کیا ہے۔ کوئی بھی کتاب تبھی مکمل ہوتی ہے جب آپ کی اس کتاب میں اپنی ذاتی رائے پیش ہو۔ اگر آپ کی رائے نہیں ہے تو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کسی کتاب کو ترتیب دیں۔ ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ جو خامیاں رہ گئی ہیں اس صحیح کیا جائے گا۔میری کوشش ہوگی کہ میں اس کتاب کی تیسری چوتھی جلد شائع کروں۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر صدیقی الرحمن قدوائی نے نجمہ رحمانی کی ستائش کی اور انہیں اس کتاب کی اشاعت پر دعائیں دی۔شرکاء میں محمد ارشاد، مدنی اشرف،فرحت انوار، اختر علی، دانش حسین خان، نجیب الرحمن، عبدالسمیع، نوشاد منظر، محمد حسین،عمران احمد، اظہار ندیم وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالروں نے شرکت کی۔

***
سید عینین علی حق ، نئی دہلی
alihaq_ainain[@]yahoo.com
موبائل : 9268506925,9868434658
سید عینین علی حق

Discussion held on Dr Najma Rahmani's book in Ghalib Institute Delhi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں