یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب وغیرہ پر ایسی بہت سی کلپس موجود ہیں جن میں نماز تراویح کی بھی ریکارڈنگ ہے۔ ابھی حال ہی میں انڈونیشیا کے جزیرے جاوا کی ایک مسجد میں دس منٹ میں نماز تراویح کی کلپ پوسٹ کی گئی ہے۔ وہ اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس میں تعارف کے طور پر لکھا ہوا ہے کہ دس منٹ میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پوری ہو رہی ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں ہندوستان میں کم از کم یالمون تالمون سمجھ میں آتا ہے اس میں صرف اللہ اکبر، اللہ اکبر ہی سمجھ میں آتا ہے اور کچھ نہیں۔ بس دو دو سکنڈ میں رکوع و سجود مکمل ہو جاتے ہیں۔ برق رفتاری کے ساتھ اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ کوئی معمر شخص وہ نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اسی لیے اس میں زیادہ تر نوجوان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کلپ میں بعض نمازی اور امام بھی نیوز رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ اب زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم کی وجہ سے یہ تو نہیں معلوم ہو سکا کہ امام صاحب نے اس کی توجیہ کیسے کی اور دس منٹ میں صلوٰة تراویح کی ادائیگی کا کیا جواز پیش کیا۔ ممکن ہے کہ انھوں نے یہ کہا ہو کہ آج کی مصروف زندگی میں کسی کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اس لیے دس منٹ میں تراویح مکمل ہونے سے لوگوں کا وقت بچتا ہے۔ اگر انھوں نے یہی دلیل دی ہوگی تو ان کو بھی اور مصلیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کیا قرآن کو غلط پڑھنا اور سننا گناہ نہیں ہے۔ جب تک کہ اس کے ایک ایک حرف کی ادائیگی پورے مخرج کے ساتھ نہ کی جائے قرآن کا حق ادا نہیں ہوتا۔ گویا اس طرح سے پڑھنا قرآن کی حق تلفی کرنا ہے۔ حق تلفی کتنا بڑا گناہ ہے اس سے شاید ہر مسلمان واقف ہوگا۔ اور اگر قرآن کی حق تلفی کی جائے، اس کی، جو اللہ رب العزت کا کلام ہے، تو گویا ہم نے اللہ کی حق تلفی کی۔ یہ کتنے بڑے گناہ کا موجب ہوگا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جاوا میں جس طرح دس منٹ میں صلوة تراویح مکمل کی جا رہی ہے یا کی گئی ہے وہ عبرت کا مقام ہے۔ ابھی تک تو یہی دیکھا گیا تھا کہ ایک گھنٹے میں، سوا گھنٹے میں یا ڈیڑھ گھنٹے میں صلوة تراویح مکمل ہو رہی ہے۔ ایک گھنٹے یا اس سے کم میں جو حافظ مکمل کر لیتے ہیں ان کو یہاں ”حافظ ریل“ یا ”حافظ بلٹ“ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس انڈونیشیائی امام کے آگے تو حافظ ریل اور حافظ بلٹ بھی فیل ہیں۔ ان کو حافظ راکٹ کہا جائے یا کہا جائے۔
ایک مسئلہ اور ہے اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ یعنی اجرت لے کر قرآن سنانا۔ اس کی یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ چونکہ حافظ کی بھی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں اور اگر وہ قرآن نہ سناتا تو دیگر ذرائع سے یافت کی کوشش کرتا۔ ا س لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مختلف مسجدو ںمیں قرآن مکمل ہونے سے قبل یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ آپ حضرات حافظ صاحب کو جو دے سکیں فلاں تاریخ تک دے دیں۔ کیا اس سے ہم حافظ صاحب کی عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ اگر ان کو کچھ دینا ہی ہے تو مسجد کے ذمہ دار حضرات خاموشی سے دے دیں۔ اعلان کر کے چندہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حافظ صاحب کے لیے الگ سے اور مسجد کے مستقل امام صاحب کے لیے الگ سے اعلان کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہم دونوں کی عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ لیکن حافظ صاحب کو بھی اس پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی امام صاحب کو۔ اگر ہوتی تو وہ لوگ اس طرح مانگنے سے روک دیتے۔
بس ایک اور بات۔ وہ یہ کہ کچھ نیوز چینلوں پر پورے مہینے رمضان کے سلسلے میں پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان پروگراموں کے ذریعے ارادتاً یا بلا ارادہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ رمضان کا مہینہ ”ماہ ریاضت و عبادت“ نہیں بلکہ ”ماہ ضیافت“ ہے۔ ان پروگراموں میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں اللہ تعالی کی جانب سے خورد و نوش کی کتنی قسمیں مہیا کر دی جاتی ہیں اور آپ چاہے جتنا کھائیں نقصان نہیں ہوتا۔ افطار میں بھی انواع و اقسام کی چیزیں دکھائی جاتی ہیں اور سحری میں بھی۔ بلکہ سحری میں بطور خاص بہت زیادہ چیزیں دکھائی جاتی ہیں۔ جتنا کھانا کوئی عام دنوں میں بھی نہیں کھا سکتا اس سے کہیں زیادہ کھانا سحری میں پروسا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ افطاری کے بعد خورد و نوش کا سلسلہ شروع ہو جانے کے باوجود کوئی اتنا کھانا سحری میں کیسے کھا سکتا ہے۔ جبکہ سحری کا فلسفہ یہ ہے کہ کچھ تھوڑا بہت کھا لیا جائے تاکہ دن میں زیادہ ضعف کا احساس نہ ہو۔ ان چینلوں کے رپورٹر مختلف شہروں میں روزہ داروں کے گھروں میں جاتے ہیں اور بارہوں بینجن پکانے اور کھانے کے مناظر دکھاتے ہیں۔ لوگوں کے انٹرویوزبھی کرتے ہیں جن میں لوگ اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ رمضان میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ انھوں نے کون کون سی ڈش کھائی۔ کون زیادہ اچھی تھی کون کم۔ حیدرآباد سے متعلق ایک پروگرام میں دکھایا گیا کہ لوگ رمضان کے مہینے میں فلاں ہوٹل پر کھانے کے لیے بطور خاص جاتے ہیں اور رمضان میں جیسی لذت ملتی ہے ویسی کبھی اور نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ بازاروں کی رونق بھی دکھائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عید مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے اور اس کو خوب دھوم دھام سے منایا جانا چاہیے۔ لیکن جس طرح ملبوسات اور زیورات کی خریداری دکھائی جاتی ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ بس کھانے پینے اور خریداری کرنے کے لیے ہی آیا ہے۔ ان پروگراموں میں اس بات پر زور نہیں دیا جاتا کہ اس مبارک ماہ میں عبادت کا ثواب کس طرح بڑھا دیا جاتا ہے۔ مسجدوں میں اوراد و وظائف اور عبادت و ریاضت اور تلاوت میں مصروف مسلمانوں کمی نہیں ہوتی لیکن ان کے کیمروں کا فوکس ا س جانب نہیں ہوتا۔ ان چینلوں کے ذمہ داروں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
![]() |
سہیل انجم |
Namaz Taraweeh in Indonesia 23 rakat in 10 minutes. Article: Suhail Anjum
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں