پی ٹی آئی
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی مرتبہ سرکاری طور پر امن مذاکرات ہوئے جس میں دونوںنے ماہ رمضان کے بعد پھر ایک بار13سالہ شورش پسندی کا حل تلاش کرنے ملاقات کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ جب کہ میزبان پاکستان نے اس میٹنگ کو ایک کامیابی سے تعمیر کرتے ہوئے اس کی ستائش کی ۔ امریکہ اور چین کے نمائندے بھی موجود تھے جب کہ افغان اعلیٰ سطحی امن کونسل(ایچ پی سی) کے وفد نے افتتاحی مذاکرات میں حصہ لیا جس میں طالبان بھی شامل تھے ۔ ایک روز ہ مذاکرات کل شروع ہوئے اور یہ رات بھر مری میں جاری رہے جو یہاں سے قریب ایک پہاڑی تفریح گاہ ہے۔ افغان کے زیر قیادت افغانستان میں امن کے لئے مصالحتی کاروائی کے لئے سہولت دینے اپنے عزم کے حصہ کے طور پر یہ میٹنگ پاکستان اور افغانستان حکومت کی جانب سے منعقد کی گئی جس میں افغان طالبان کے نمائندے بھی شامل تھے ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے یہ بات بتائی ۔ میٹنگ مری میں7جولائی کو ہوئی ۔ چین اور امریکہ کے نمائندے بھی میٹنگ میں شریک رہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امن عمل کے پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے ۔ جو افغانستان اور پاکستان کے درمیان شروع ہوا ، شرکا نے اپنے اپنے نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کیا جس کا مقصد افغانستان میں امن و مصالحت کو فروغ دینا ہے ۔ اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ خطہ میں پائیدار امن قائم کیاجائے ۔ ہر فریق خلوص کے ساتھ اس عمل میں حصۃ لے گا۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے مذاکرات کو کامیاب قرار دیا اور اس عمل کو ختم کرنے کے کسی بھی کوشش کے خلاف انتباہ دیا۔انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا اور یقینا افغانستان میں یہ امن و استحکام کے لئے بے حد مددگار ثابت ہوگا ۔ شریف نے یہ بات پاکستان ٹی وی چیانل کو اوسلو میں بتائی جہاں وہ دورہ پر گئے ہوئے ہیں ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی بھی اس عمل کو نقصان نہ پہنچائے ۔ یہ نہ صرف افغانستان پاکستان اور دیگر فریقین کی خواہش ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کی بھی ایسی ہی خواہش ہے ۔ یہ بات انہوں نے کہی۔ شریا نے مذاکرات جاری رکھنے پر اپنی رضا مندی بھی ظاہر کی تاکہ امن اور مصالحت کے عمل کے لئے سازگار ماحول وضع کیا جاسکے ۔ جب کہ آئندہ میٹنگ ماہ رمضان کے بعد باہمی طور پر مناسب تواریخ کو منعقد کی جائے گی۔ شرکاء نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اعتماد کی بحالی کے اقدامات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد قائم ہوسکے ۔ دفتر خارجہ نے بتایا کہ شرکاء کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنی اپنی قیادت کے ساتھ اپنے اجتماعی خواہش کا اظہار کرے تاکہ افغانستان اور خطہ میں امن کو قائم کیاجاسکے ۔
کابل سے آئی اے این ایس کی علیحدہ اطلاع کے بموجب افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات افغان زیر قیادت صدارتی محل میں ہونے چاہئے۔ ابتدائی مذاکرات میں تین بڑے حصوں کو شامل رکھنا ہوگ یعنی ابتدائی مذاکرات میں تبدیلی کا عمل جس کے لئے مسلسل ایک کورس کو رکھا جائے۔ اعتماد کی فضا قائم کی جائے جس کے لئے انتہائی اہم مطالبات کی ایک فہرست تیار کرنی ہوگی ۔ جسے بات چیت کے امن مذاکرات کے ایجنڈہ میں شامل رکھاجائے ۔ غنی نے سیاسی ماہرین کے ساتھ میٹنگ میں یہ بات کہی ۔ یہ تبصرہ افغانستان حکومت کے وفد کے سامنے آیا جس کی قیادت نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کی، پہلی مرتبہ دوبدو امن مذاکرات طالبان کے نمائندوں کے ساتھ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ہل اسٹیشن مری کے قریب ہوئے ۔ ژنہوا خبر رساں ایجنسی نے یہ اطلاع دی تاہم ذبیح اللہ مجاہد جو کہ طالبان کے ترجمان ہیں ، نئے مذاکرات کے بارے میں اپنی لا علمی کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اطلاع ہوتی تو وہ میڈیا کو اس بارے میں بتاتے۔ افغان صدر نے بھی بتایا کہ افغان خواتین کی امن مذاکرات میں شرکت کی کوشش ہنوز جاری ہے اور خواتین کو بھی امن کارروائی میں اہم رول نبھانا ہوگا ۔ صدر غنی اور ان کے پیشرو حامد کرزئی نے بار بار طلبان کو امن مذاکرات کی پیشکش کی تھی تاہم شورش پسند گروپ نے واضح طور پر ان کے پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ ان کاکہنا تھاکہ جب تک غیر ملکی فوجی ملک سے چلے نہ جائیں تب تک مذاکرات نہیں ہوسکتے ۔
Pakistan says it has hosted a round of Kabul-Taliban talks
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں