نئے تعلیمی سال کا آغاز - والدین اساتذہ کا استحصال - تعلیم بن گئی تجارت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-10

نئے تعلیمی سال کا آغاز - والدین اساتذہ کا استحصال - تعلیم بن گئی تجارت

school children
رزق پتھروں میں بھیجنے والے
میرے بچوں کی فیس رہتی ہے !
تعلیم بن گئی تجارت : خانگی اسکولوں میں ہزاروں روپیوں کی وصولی ،تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی والدین کی پریشانیوں میں اضافہ !!
سرپرستوں کیساتھ ساتھ خود اساتذہ بھی استحصال کا شکار تعطیلات کے دؤران ، گاؤں گاؤں، گلی گلی، گھر گھر گھوم کر اسکول کی تشہیر میں مصروف !

ماہ جو ن کا مہینہ سب سے زیادہ مصیبت ان لوگوں کے لئے ہوتا ہے جن کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوں یا پھر اس تعلیمی سال سے ان کے بچوں کا اسکولوں میں داخلہ کرواناہو۔ریاست تلنگانہ میں 12؍جون یا پھر13؍اور14؍جون کو ہفتہ اور اتوار ہونے کے باعث 15؍جون سے سرکاری اور خانگی اسکولوں کی کشادگی عمل میں لائی جانے والی ہے( جبکہ کئی خانگی اسکولس کا8؍جون سے ہی آغاز ہوچکا ہے ) بدقسمتی کی بات یہ ہیکہ چند سالوں سے ملک میں دو ہی شعبے سب سے زیادہ مہنگے اور لوٹ کھسوٹ میں ماہر مانے جانے لگے ہیں ایک ہے تعلیمی شعبہ اور دوسرا طبی میدان! دونوں ہی جگہوں پر عام انسانوں کی چمڑی ادھیڑ نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا دستوری فرض ہوتا ہے ہیکہ عام شہریوں کو بہتر تعلیم اور بہتر طب فراہم کرے ایسا نہیں ہیکہ حکومت اس جانب توجہ نہیں دیتی اس کی جانب سے ہسپتالوں کی اونچی انچی عمارتیں تو ہیں لیکن ان میں زیا دہ تر نہ ادویات ہوتی ہیں اور نا ہی ماہر ڈاکٹرس یہی وجہ ہیکہ خانگی ہسپتالوں میں علاج تو بہتر ہوتا ہے لیکن ان میں زیادہ تر مریضو ں کا مالی استحصال عام بات ہے۔
دوسری جانب سرکاری اسکولس کی بھی ایسی ہی کچھ حالت ہوتی ہے جن کی نہ عمارتیں اچھی ہوتی ہیں اور نا ہی طلباء کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ان سرکاری اسکولس کے اساتذہ انتہائی قابل مانے جاتے ہیں اور حکومت انہیں اونچی تنخواہیں بھی دیتی ہے سرکاری اسکولس میں بہترین تعلیم ممکن بھی مانی جاتی ہے لیکن ان سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی قلت عام اور قدیم بات ہے جبکہ ان سرکاری اسکولوں کے طلباء کو مفت یونیفارم، مفت کتابیں اورمفت دوپہر کا کھانا بھی دیا جاتا ہے لیکن بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور اساتذہ کے تقرر پر دھیان ہی نہیں دیا جاتا!
ریاست کی ٹی آر ایس حکومت اور وزیراعلیٰ کے سی آر تعلیمی شعبہ میں انقلاب پیدا کرنے میں نیک نیتی کا مظاہرہ کررہے ہیں انکی جانب سے انتخابات کے دؤران وعدہ کیا گیا تھا کہ ریاست میں تمام طبقات کیلئے بالکل کانوینٹ طرز کی تعلیم کے جی تا پی جی مفت فراہم کی جائیگی تاہم جاریہ سال سے اس پر عمل آوری ممکن نظر نہیں آرہی ہے اسکے لئے حکومت ماہرین تعلیم کے ذریعہ منصوبہ سازی میں مصروف ہے لیکن حکومت سے عوام کو توقع تھی کہ وزیراعلیٰ کے سی آر اس تعلیمی سال سے خانگی اسکولس اور کالجس کی لوٹ کھسوٹ اور انکی من مانی پر نکیل کستے ہوئے انکے لئے سخت رہنمایانہ اصول جاری کرینگے لیکن اب تک ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا جس سے سرپرستوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
سرکاری اسکولس کی زبوں حالی کی وجہ سے مالدار طبقے کے بچے تو پہلے ہی ان سرکاری اسکولوں سے دور ہوگئے تھے اب متوسط اور غریب طبقہ بھی اپنے بچوں کو ان سرکاری اسکولوں سے دور ہی رکھنے میں بھلائی سمجھ رہا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ خانگی اسکولوں کی ہر گلی اور ہر محلہ میں قطاریں لگ گئیں جو کہ ایک اچھی بات بھی کہی جاسکتی ہے لیکن آہستہ آہستہ ان خانگی اسکولس کی حیثیت بھی ایک انڈسٹری کی سی ہوتی چلی گئی اور اب متوسط کے ساتھ ساتھ دولت مند طبقہ کے لوگ بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے خرچ کو لیکر پریشان ہیں سب سے زیادہ پریشانی متوسط طبقہ کی ہے جو پہلے ہی آسمان چھوتی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے چند ایسے والدین بھی ہیں جو کہ ماہ جون کے آتے ہی قرض کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں یا پھر اپنی دوسری ضروریات کو اپنے بچوں کی تعلیم پر قربان کردیتے ہیں۔
ماہ جون میں اسکولوں کی کشادگی کے ساتھ ہی والدین کی پریشانیاں قابل دید ہوتی ہیں اسکولوں کی ٹرم فیس،ٹیوشن فیس ،کتابیں، یونیفارم، شوز، ٹائی بیلٹ، اسکول بیاگ سے لیکر اسکول کی بس تک کا خرچہ ، ماہ جون پورا اسی کشمکش میں گذر جاتا ہے ادھرخانگی اسکولوں کی من مانی کا یہ حال ہیکہ اب ساری کتابیں انہی کے اسکولوں سے خریدنا لازمی ہوگا اور انہی کے بتائے ہوئے تاجر پارچہ سے اسکول کے یونیفارم خریدنے ہونگے یا پھر یونیفارمس بھی یہی اسکول سربراہ کرینگے !دوسری جانب خانگی اسکولس اپنے نام کیساتھ کانسپٹ ، انٹرنیشنل ، اولمپیاڈ ، ٹیکنو ، گرامرجیسے لفظوں کا اضافہ کرتے ہوئے الگ الگ مقدار میں بے تحاشہ اڈمیشن فیس یا پھر ٹیوشن فیس وصول کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ان خانگی اسکولس میں پڑھانے والے ٹیچرس جن میں زیادہ تر خواتین ٹیچرس ہوتی ہیں انکی حق تلفی بھی کیجارہی ہے انہیں ماہانہ اتنی تنخواہ بھی نہیں دی جاتی جتنا کہ ایک مزدور کو ملتی ہے یعنی ان ٹیچرس کو ماہانہ 2؍ہزار تا 8؍ہزار روپئے تنخواہ دی جاتی ہے اوران سے اسکولی اؤقات سے زیادہ کام لیا جاتا ہے یہاں گرمائی تعطیلات کے دؤران یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی خانگی اسکولوں کے انتظامیہ نے سخت گرماء کے باؤجود ان ٹیچرس کو گاؤں گاؤں ، گلی گلی روانہ کیا تاکہ وہ گھر گھر جاکراسکول کی تشہیر کریں اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو انکے اسکولس میں داخلہ کیلئے راغب کریں !
ہم نے اوپر لکھا ہیکہ اس ملک میں دو شعبے تعلیم اور طب بہت زیادہ مہنگے ہوگئے ہیں تو اس کا واحد ذمہ دارشعبہ تعلیم ہے ! ظاہری بات ہیکہ کوئی طالب علم جب نرسری سے لیکر ایم بی بی ایس تک تقریبا دو تا چار کروڑ روپئے صرف کرکے ڈاکٹر بنے گا تو وہ مسیحا کیونکر بنے گا ! کیوں کہ تعلیم ہی تجارت بن گئی ہے تو پھر طب کے میدان میں مسیحائی کی توقع کیوں !! صرف تجارت کی ہی بات ہوگی! حکومت اس جانب تھوڑی بھی توجہ دیتی ہے اور خلوص نیت کے ساتھ ان خانگی اسکولس پر نکیل کستی ہے اور پھر سرکاری اسکولس کی حالت درست کرتی ہے تو پھر تعلیم اور طب دونوں میدان عام آدمی کی دسترس میں ہوسکتے ہیں !انہی حالات کو دیکھتے ہوئے مخمورؔ قلندرانی کو کہنا پڑا کہ :
رزق پتھروں میں بھیجنے والے
میرے بچوں کی فیس رہتی ہے

Education is a business now, exploitation of parents and teachers

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں