دو بچّیاں جناب - مہر افشاں فاروقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-20

دو بچّیاں جناب - مہر افشاں فاروقی

اتنی غیر معمولی شخصیت کے بارے میں لکھنا اور وہ بھی باپ رے باپ! خیر یہ جان کر قلم اٹھانے کی جرأت کی کہ آپ سب مجھ سے محض ایک بیٹی کے تاثرات کی امید رکھتے ہوں گے۔ اور اس طرح میرا کام نسبتاً آسان اور ایک حد تک دلچسپ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کاش مجھ میں ادبی صلاحیت ہوتی۔ بہر حال اردو میں لکھنے کی بسم اللہ کا اس سے اچھا موقع کیا ہوگا۔

پانچ ۔ چھ سال کی عمر تک میں اپنی ماں کے ساتھ نانا نانی کے ہاں رہی۔ وہاں میں اپنے خالہ اور ماموں وغیرہ کی دیکھا دیکھی (سنا سنی) اپنی ماں کو آپا اور والد صاحب کو بھائی بلانے لگی۔ بھائی دراصل بھائی صاحب کا سہل طفلانہ ورژن تھا۔
ان دنوں بھائی الہ آباد میں نہیں بلکہ ناگ پور ، گوہاٹی اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں پروبیشنر ٹریننگ پر تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ میری اس بات پر کسی نے ممانعت کی ہو اور لفظ بھائی زبان پر ایسا چڑھا کہ میری چھوٹی بہن باراں (جو عمر میں مجھ سے کافی چھوٹی ہے اور جس نے آپا کو تو امّی میں تبدیل کردیا ) نے بھی بھائی کو بھائی ہی کہا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم صرف دو بہنیں ہیں اگر کوئی بھائی بھی ہوتا تو وہ بھی غالباً یہی بلاتا۔ اب ہمارے بچّے اپنے نانا کو بھائی ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ غرض کہ بھائی کہنے میں جو بے تکلفی کا احساس ہوتا ہے وہ واقعئ ہمارے اور بھائی کے درمیان قائم ہونا ممکن قرار پایا۔ اس بے تکلفی میں بے ادبی کا کوئی عنصر کبھی نہ تھا ' ان کا رعب اور دبدبہ گھر میں باقاعدہ تھا اور ہے ۔بس ماحول میں ایک کشادگی ہمیشہ رہی جس پر ہمیں ناز ہے۔
بھائی کی ایک خصوصیت جو سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ ان کی نرم دلی ہے۔ رونا ان کو بالکل برداشت نہیں ہے۔ کوئی بھی ہو ، کسی کا بھی دکھ ان سے دیکھا نہیں جاتا۔ دنیا کی ساری مخلوق سے انھیں محبت ہے۔ چڑیا، تتلی ، خرگوش ، بلّی ، کتا ، مچھلی ، شیر ،چھوٹے سے چھوٹا بڑے سے بڑا ۔ ہمارا گھر چڑیا گھر اور کتب خانے کا ملا جلا نشیمن ہے۔ گلہری ، کچھوے ، طوطے ، مور اور نام بھی ان کے ایسے دلکش؛ جانِ عالم ، نازنین ، شیرین ، بادل ، بجلی اور جانے کیاکیا۔ پھول ، پیڑ اور قسم قسم کے پودے جیسے ناگ پھنی سے ان کو بے حد رغبت ہے۔ ناگ پھنی کے نادر اور نادار رنگت والے پھولوں کو سراہنا میں نے بھائی سے سیکھا۔ جب بھی کوئی نیا پھول کھلتا وہ مجھے خاص کر دکھلاتے، کچھ ناگ پھنی کے پھول سال میں ایک ہی دفعہ کھلتے ہیں۔ بچپن کے وہ لمحے مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔ مجھے سخت حیرت ہوتی تھی کہ اتنی معمولی شکل والے پودے سے اتنا حسین پھول کس طرح جنم لیتا ہے۔ میں اور بھائی اب بھی ان پھولوں کا مل کر لطف اٹھاتے ہیں۔
ہم بچّوں کو بھائی چڑیا گھر کی خوب سیر کرایا کرتے۔ لکھنؤ اور دلّی کے چڑیا گھروں کا ہم نے چپہ چپہ دیکھا ہے بھائی کے ساتھ۔ جانوروں کے حسن کو پہچاننا اور ان سے محبت کرنا ہم نے بھائی سے سمجھا۔
چڑیوں اور جانوروں سے بڑھ کر کوئی شوق بھائی کو ہے تو وہ کتابیں خریدنے کا ہے۔ کتاب کی دکان میں بھائی ایک دفعہ گئے تو کئی گھنٹوں کی فرصت ہوئی سمجھئے ۔ ظاہر ہے خود تو وہ کتابیں خریدتے ہی ہیں ہمیں بھی نئی نئی کتابیں دلاتے ہیں۔
بھائی کی علمیت اور علم دوستی سے استفادہ ہم سب کو یونہی نہیں بلکہ خاص کر بھائی کی محنت اور شفقت کی وجہ سے نصیب ہوا۔ گرمی کی چھٹیوں میں میر ، غالب ، سودا ، شیکسپیئر ، ملٹن ، خسرو، خالق باری اور حروف ابجد ، اردو فارسی ، اسکول میں نہیں ہم نے گھر پر بھائی سے پڑھی۔ گھر میں رشتہ کے بھائی بہن ، چھوٹے چچا ، پھوپی بھی اکثر پکڑ کر بٹھائے جاتے۔ پڑھانے کے معاملات میں میری ماں قدم بہ قدم شامل رہتیں۔ کوئی ہاتھ نہ آتا تو ملازمہ کی بیٹی کو وہ پڑھانے بیٹھ جاتیں۔ ہماری گرمی چھٹیاں ہوتی تھیں لیکن بھائی کو تو دفتر جانا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ظاہر ہے بہت مصروفیات تھیں اس لیے صبح چائے پینے سے لے کر داڑھی بنانے تک بھائی پڑھایا کرتے تھے۔ میں پانچویں جماعت میں تھی اور قومی آواز کا اداریہ مجھے روز صبح بہ آواز بلند پڑھنا ہوتا تھا۔ میں اکثر رات کو دعا مانگتی تھی کہ صبح اخبار نہ آئے ۔ برصغیر ، بین الاقوامی ، وغیرہ یہ الفاظ مجھ سے بمشکل پڑھے جاتے ۔ جب دیوان غالب کی باری آتی تو میں اشعار خوب موزوں پڑھتی جس سے بھائی بے حد خوش ہوتے۔ افسوس کہ جب وہ اشعار کی تشریح کرتے اور معنی کی باریکیاں سمجھاتے میں اکتانے لگتی۔ عمر کے لحاظ سے سبق ذرا مشکل ہوا کرتا تھا۔ بہر حال ڈانٹ اور چپت بھی پڑتی۔
انھیں دنوں میں ہمارے یہاں خوب ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ طرحی اورغیر طرحی مشاعروں کے دعوت نامے کے کارڈ چھپے رکھے رہتے اور ڈاک سے بھیجے جاتے۔ جدیدیت، ترقی پسندی ، نئے نام یہ سب کیا ہے میں بھی سوچتی۔ " شب خون " کے ارتقا کا دور تھا۔ گھر کے باہری کمرے میں کئی لوگ جمع ہوتے؛ سلیم اللہ کاتب اور ایک صاحب اور مجھے خوب یاد ہیں۔ ان کا نام حامد بہکاوی ہوا کرتی تھا۔ بھائی کے کہنے پر انھوں نے حامد حسین حامد اختیار کیا۔ ڈاکٹر اعجاز حسین صاحب کے ہاں بھائی کے ساتھ ہم اکثر جاتے تھے۔ احتشام صاحب چوک میں رہتے تھے ان کے یہاں کبھی کبھی جاتے تھے، دوری کی وجہ سے۔ "شب خون " کا نام پہلے "تیشہ " تجویز کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا " تیشہ " نام کسی اور پرچے کا موجود ہے۔ ان سرگرمیوں سے گھر میں بلکہ شہر بھر میں جو Heightenedادبی ماحول تھا سب بھائی کی ذات سے تھا۔ کس قدر خوش قسمت تھے ہم سب۔ اب بھائی کے الہٰ آباد واپس آنے سے الہٰ آباد میں ادبی سرگرمیاں دوبارہ زندہ ہوئی ہیں۔
بھائی کو چڑیاں پالنے کا شوق لکھنؤ کی پوسٹنگ کے دوران شروع ہوا۔ شروع شروع میں کچھ لال اور ڈاکٹر چڑیاں لائے۔ نیّر مسعود صاحب کے ہاں بہت آنا جانا تھا۔ نخاس میں چڑیوں کی مخصوص مارکیٹ تھی ، امّی کو بھی چڑیاں بھلی لگیں، چنانچہ الہٰ آبادمیں جہاں زیادہ کشادہ صحن تھا لال منیوں کے علاوہ بھی قسم قسم کی چڑیاں پلنے لگیں۔ بھائی چڑیوں کی دیکھ بھال انہماک سے کرتے ہیں۔ اب گھر کے شمالی منڈیر سے لگا تقریباً دس فٹ لمبا دس ،فٹ چوڑا چمبیلی اور مدھومالتی کی بیلوں سے ادھ ڈھکا ان کا چڑیا خانہ ہے۔ چڑیا خانے کی صفائی اور سجاوٹ میں بھائی کو بڑا مزا آتاہے۔ یہاں تک کہ چڑیا خانے میں جھاڑو لگانے سے بھی گریز نہیں ہے انھیں۔ برآمدے میں مچھلیوں کا بسیرا ہے۔ ایک پہاڑی مینا ہے شیریں، اس کی خوب خدمت ہوتی ہے۔ اور وہ خوب چہکتی ہے۔ بوندی اور بادل دو کتّے ہیں۔ کھانے کی میز سے بوٹیاں اور ہڈّیاں ان کو بھجواتے ہیں۔
نفیس کھانے جو نفیس برتن میں ہوں بھائی کو پسند ہیں۔ برتنوں میں چمچے ، خاص کر چائے کے چمچ خاص طرح کے ہونے چاہئے۔ کانٹوں کو وہ ہمیشہ استعمال کرنے سے پہلے خود صاف کرتے ہیں۔ خوبصورت برتنوں کی تعریف کرتے ہیں۔ پھلوں میں انھیں آم ، خربوزہ اور لیچی پسند ہیں۔ سیب انھیں اچھا نہیں لگتا۔ مٹھائی میں گلاب جامن ، رس ملائی ، امرتی پسند ہیں۔ جاڑوں میں دھوپ میں بیٹھنا ان کو اچھا لگتا ہے۔ ہر وقت ان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے۔
حال ہی میں بھائی کے منتخب اشعار اور نظموں کا انگریزی ترجمہThe Colour of Flowers شائع ہوا ہے۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے میری نگاہ اس شعر پر پڑی اور میں بہت خوش ہوئی۔
پتھر کی بھوری اوٹ میں لالہ کھلا تھا کل
آج اس کو توڑ لے گئیں دو بچّیاں جناب
بھائی کے سب سے پہلے مجموعۂ کلام " گنجِ سوختہ" کی بیشتر غزلیں مجھے منہ زبانی یاد ہیں۔ ان کی شاعری میں جب کبھی دو بچّیوں کا ذکر آتاتو میں اور میری بہن ہمیشہ یہ سوچتے کہ وہ دو بچّیاں ہم دو ہیں۔ شعر کے مفہوم کی فکر سے کوئی خاص واسطہ اس زمانے میں نہ تھا۔ بہر حال مندرجہ بالا شعر کو چنندہ اشعار میں دیکھ کر شعری کیفیت اور معنویت پر پہلی بار غور کیا۔ بھوری اوٹ میں سرخ لالہ ، کیا خوب ہے۔ کل اور آج کی صورتِ حال ، بچّیوں کی خوشی اور بے خیالی ، لالۂ صحرا کا تصور وغیرہ ۔ خدا ان کی شمع سخن کو ہمیشہ روشن رکھے۔ ان کی نثر کا جادو جاوداں رہے۔ ان کی آواز کی گونج سدا ہمارے کانوں میں رہے۔ ان کی شفقت کے سائے سے ہم کبھی محروم نہ ہوں ، آمین۔

***
بشکریہ: اردو چینل "شمس الرحمٰن فاروقی نمبر"۔

Mehr Afshan Farooqi on her father Shamsur Rahman Faruqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں