مذہب کے نام پر تفریق کیوں ؟؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-24

مذہب کے نام پر تفریق کیوں ؟؟

maulana-nadeem-ansari
ذیشان علی خان کا معاملہ سامنے آنے کے بعد چو طرفہ ہنگامہ ہے کہ ایک سیکولر ملک میں اس طرح کا واقعہ کیسے رونما ہو گیا لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ میڈیا کے لیے بھلے ہی نیا معاملہ اور بریکنگ نیوز ہو البتہ مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ ایک عام سی بات ہے۔اسکول کے اساتذہ سے لے کر سرکاری، نیم سرکاری اور پراؤیٹ کمپنیوں میں نوکری حاصل کرنے تک، ہر جگہ مسلم نوجوانوں کو ان تلخیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔جن مسلم نوجوانوں کو ایسے اداروں اور کمپنیوں میں آج کل اچھی نوکری مل پاتی ہے، ان کی حیثیت آٹے میں نمک جتنی ہی ہے، وہ بھی اس خیال کے پیشِ نظر کہ جس مصیبت کا سامنا ذیشان کو نوکری دینے سے انکار کر دینے والی کمپنی کو کرنا پڑ رہا ہے، اس مصیبت کا سامنا انھیں نہ کرنا پڑے۔ ذیشان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ واقعی افسوس ناک ہے لیکن اس طرح کے واقعات در روز رونما ہوتے ہیں، ذیشان تو ان معنوں میں خوش قسمت ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی نے ایک حرکت پیدا کی اور وہ خود اپنی بات ملک اور ملک کے عوام کے سامنے رکھ پانے میں کامیاب ہو ئے، ورنہ تو کتنے بے چارے اس طرح کا سلوک کیے جانے پر دل برداشتہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور ان کے غم میں کوئی ان کا شریک بھی نہیں ہوتا۔
ذیشان کے ساتھ ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ ان کو یہ جواب بذریعۂ ای میل دیا گیا، جس سے ان کے پاس اس نا انصافی کا ٹھوس ثبوت موجود ہے ورنہ تو یوں ہی ٹیڑھی نگاہوں سے دیکھ کر یا ان سے صَرفِ نظر کرکے ٹرکا کر بھی کمپنی اپنی جان بچا سکتی تھی، جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، یوں کہیے کہ کمپنی اس بار ہوشیاری سے کام نہ لے سکی ، جس پر اس نے صفائی بھی پیش کی ہے کہ یہ ایک ٹرینی کے ہاتھوں انجام پانے والی غلطی ہے۔ ویسے ہمیں ان کی اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں اس لیے کہ اس بے چارے نے تو وہی کیا جو اسے کرنے کے لیے کہا گیا ہوگا، ہاں یہ اس کی معصومیت ہے کہ اس نے "اتنا بڑا سچ" تشت از بام کر دیا کہ "ہم مسلمانوں کو ملازمت نہیں دیتے"۔ معصوم بچہ اگر باپ کے یہ کہلانے پر کہ کہہ دو "ابّا گھر پر نہیں ہیں" دروزے پر آکر یہ کہتا ہے کہ "ابّا کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر پر نہیں ہیں" تو ظاہر ہے اس میں اس معصوم کی کوئی غلطی قرار نہیں دی جا سکتی، اس نے تو وہی کیا، جو اسے حکم دیا گیا، ہاں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ "ہوشیاروں کی طرح" کیوں اس نے اپنی با ت کو بنا کر پیش نہیں کیا؟
یہ تو ایک پراؤیٹ کمپنی ہے لیکن اس وقت ملک کے اکثر سرکاری محکموں کا حال بھی اس سے جدا نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب یوں ہی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو معاشی اور اقتصادی اعتبار سے کمزور کرنا ہے۔ خیر ہم توقرآن کریم کے ایک ایک جز پر ایمان رکھنے والے ہیں اور اس میں کہا گیا ہے فتوکل علی اللہ فہو حسبہ (پس جو اللہ پر توکل کرتے ہیں، تووہ انھیں کافی ہے)، اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ آپ جو چاہیں کر لیں، اللہ تعالیٰ جب چاہیں گے، جو چاہیں گے، جیسے چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے، کرکے دکھلا دیں گے۔آپ اپنی تدبیریں کریں، وہ زمین و آسمان کا مالک اپنی تدبیریں کررہا ہے اور کون ہے، جس کی تدبیراُس کی تدبیر پر غالب آجائے!ہم انسان ہونے کے ناطے پریشان ضرور ہوسکتے ہیں لیکن اپنے اللہ سے ناامید ہر گز نہیں اور ناامیدی تو کفر ہے۔
واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ممبئی میں واقع ایک ڈائمنڈ ایکسپورٹ کمپنی نے امیدوار ذیشان علی خان کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ درخواست گزار مسلمان تھا ۔ ٹائمز ناؤ کی خبر کے مطابق، ایم بی اے گریجویٹ ذیشان علی خان نے ہری کرشنا ایکسپورٹ کمپنی کو اپنا سی وي ای میل کیا تھا، جس کے جواب میں اسے ای میل کیا گیا کہ کمپنی کسی مسلمان کو نوکری نہیں دیتی۔ ذیشان نے اس معاملے کو فیس بک پر شیئر کیا تو اس پر یوزرس نے جم کر تاثرات دیے، جن میں کہا گیا کہ ایک طرف تو وزیر اعظم نریندر مودی جامع ترقی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف کمپنیاں ایسا سلوک کر کر رہی ہیں!ذیشان کا کہنا ہے کہ کمپنی نے صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف ٹائپنگ کی غلطی تھی۔ ذیشان کا کہنا ہے؛ اس طرح کی ٹائپنگ کی غلطی بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟ذیشان کے والد علی احمد نے کہا کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں اس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ (وزیر اعظم نریندر مودی) کہتے ہیں کہ مسلمان اپنے بچوں کو پڑھاتے نہیں لیکن میں نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے، پھر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟
ذیشان نے کمپنی کے خلاف 21؍مئی 2015ء کو ونوبا بھاوے نگر پولس اسٹیشن میں ایف آئی آر بھی درج کروائی ہے، جہاں پولس نے 153؍بی (1) کے تحت مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے کا معاملہ درج کر لیا ہے۔ اس واقعے سے اقلیتی طبقے میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے، ظاہر ہے ایسا ہونا لازمی ہے، اس لیے کہ کمپنی کا یہ رویہ ملک کے آئین کے خلاف ہے، آئین میں تو تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں۔خود ذیشان کے دو غیر مسلم دوستوں نے اس غلط رویے کے ردِّعمل میں اپنی نوکری قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بریکنگ نیوز بننے والا یہ واقعہ کچھ خوش آئند تبدیلی لانے میں کامیاب ہو سکے گا یا دو ایک دن خبروں میں چھپنے کے بعد عام معاملات کی طرح ٹھنڈے بستے میں چلا جائے گا!

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
موبائل : 09022278319
مولانا ندیم احمد انصاری

Why is Discrimination in the name of religion? Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں