سچ تو یہ ہے کہ دنیا کاسب سے زیادہ اخلاص سے پُر رشتہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان سے ہوتا ہے،وہ ماں کا اولاد سے ہے۔ اسی لیے ہر عقل مند انسان، انسانوںمیں جس کا سب سے زیادہ احسان مند ہوتا ہے، وہ ماں ہوتی ہےاور تقریباً ہر مذہب کے ماننے والے، دانشوران اور ادبا و شعرا اسی لیے ماں کے گُن گاتے رہے ہیں۔جن کی مائیں زندہ ہیں، انھیں ان کی قدر کرنی چاہیے اور جن کی مائیں داغِ فراق دے گئیں انھیں ان کے لیے ایصالِ ثواب کا معمول بنانا چاہیے۔ کسی نے کیا خوب قدر پہچانی ہے:
ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے
وقتِ رخصت مرے ماتھے پہ دعا لکھے گا
کس قدر بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی اُس ماں کو جِھڑکتے ہیں، جس نے انھیں بولنا سکھایا اور بعض نا ہنجار تو اپنی اس ماں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، جن کے خون کو چوس کر اس کے جسم کا حصہ تشکیل پایا۔ وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس گردن کو لمبی کرکے یہ چلتا ہے، وہ گردن ایک وقت تھا کہ ایسی کمزور تھی کہ اِدھر اُدھر کو لُڑھک جاتی تھی، جسے ماں سہیج کر رکھتی تھی۔ جب یہ بیمار ہو جاتا تھا، تو جو اس کے سرہانے بیٹھ کر پوری رات آنکھوں میں گزار دیتا تھا، وہ اور کوئی نہیں یہی ماں تھی۔ رات گئے سب کے سو جانے پر تنہا بیٹھ کر جو اپنے بیٹے کے آنے کا انتظار کرتی تھی، وہ ماں ہی تو تھی! خدمت گذا ر بیوی کی طرح پوچھنے کے بجائے بیٹے کی آہٹ پاکر جو اٹھ کر کھانا گرم کرنے لگتی تھی، وہ ماں ہی تھی!
ماںسے اولاد کا ایسا رشتہ ہوتاہے، اس کی شخصیت ایسی شخصیت ہوتی ہے، جس کے احسانات کو ذرا انصاف کے ساتھ یاد کروتو آنکھیں ڈب ڈبا جاتی ہیںاور جو لوگ اپنی ماں کی زندگی میں اس کی قدر نہیں کر سکے ان کے دل لرز اٹھتے ہیں کہ ہائے! انھوں نے کیسی نعمتِ بے بہا گَنوا دی۔
اس وقت اس موضوع کو چھیڑنے کا سبب یہ ہوا کہ آج کل ہم نے بہت سی چیزوں کے اپنے طور پر کچھ خاص دن مقرر کر لیے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان دنوں میں کچھ رسمیں نبھا لینے سے ہم اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہو جائیں گے، جب کہ ایسا ہرگز ممکن نہیں اور عقل بھی کے خلاف ہے، سو الگ۔ عالمی پیمانے پر مئی کا دوسرا اتوار 'یومِ مادر' کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس دن کو منانے کا آغاز1870ء میں ہوا جب کہ جولیا وارڈ نامی عورت نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو منایا، جولیا وارڈ اپنے عہد کی معروف شاعرہ اور سوشل ورکر تھی۔اس کے بعد 1877ء میں امریکہ میں پہلی دفعہ یومِ مادر منایا گیا۔1907ء میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں اینا ایم جاروس نامی اسکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو منانے کی رسم جاری کی اور یہ دن منانے کی قومی سطح پر تحریک چلائی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تب سے یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے،یوں رفتہ رفتہ یہ روایت دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی اور اس تاریخ میں عالمی طور پر یومِ مادر منایا جانے لگا۔
مغربی ممالک کے یہ یومِ مادر کا دم بھرنے والے ، جو کہ اپنے بوڑھے والدین کو گھر کی بجائے اولڈ ایج ہوم میں رکھتے ہیں، اس دن وہاں جا کر اپنی ماں سے ملاقات کرتے اور ان کو سرخ پھولوں کے تحفے پیش کرتے ہیںاور جن لوگوں کی مائیں اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہوں، وہ سفید پھولوں کے ساتھ اپنی ماں کی قبروں پر جاکر یہ گلدستے سجاتے ہیں۔خدا کا شکر ہے ابھی برصغیر میں ایسی نوبت نہیں آئی لیکن مغرب پرستی جس زور سے ہم پر حاوی ہے، اس کے چلتے دھیرے دھیرے ایسے حالات کا پیدا ہو جانا کچھ بعید بھی نہیں۔
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ماؤں کے نام ایک دِن منانے کا یہ عمل مذہبی اقدار کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع ریاست نیپال میں اِس دن کا رشتہ ماتا ترتھی انوشی سے جڑا ہواہے، جس کو ماں کی زیارت کا پندرہ واڑہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان دنوں میں مندروں میں خصوصی پوجا پاٹ کے علاوہ زندہ ماں کو تحفے اوروفات پا چکی ماں کو بڑی عقیدت اور محبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن کو ہندو دیوتا مہاراج کرشن کی والدہ دیوکی سے بھی منسلک کیا جاتا ہے اور اُن کے نام کی نذرو نیاز بھی کی جاتی ہے، شاید اسی بنا پر ہندو مت میں ماں کوزمین پر خدا کا ایک روپ قرار دیا جاتا ہے۔اسی تناظر میں ایران میں یومِ مادر جگر گوشۂ رسولﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یوم ولادت کے دِن منایا جاتا ہے، جواسلامی سال میں جمادی الثانی کو واقع ہوتا ہے۔ اس روایت میں دیگر کئی ملکوں کے اہلِ تشیع بشمول لبنان، پاکستان اور خلیجی ریاست اوربحرین وغیرہ نے اپنا نام درج کرا لیا ہے۔
مذکورہ بالا باتیںاہلِ اسلام کو اس طرح کے کسی بھی خاص دن کو منانے کاجواز فراہم کرنے کے بجائےاسے ممنوع قرار دیتی ہیں البتہ اسلام نے ہر وقت اور ہر دم ماں بلکہ ماں باپ کے احسانات یاد رکھنے اور ان کی ہر ممکن خدمت کرنے کی فہمائیش ضرور کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ جوڑ کر والدین کے حقوق کی یاد دہانی کروائی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام چوں کہ دینِ الٰہی ہے اس لیے انسان کی خوشی اور غمی دونوں کے مواقع وہ خود طے کرتا ہے، جس پر غور کیا جائے تو اس سے انسان کو بہت راحت بھی ملتی ہے۔ اس لیے ہم بھی یومِ مادر یا اس طرح کے کسی دن کو منانے کے تو قائل نہیں البتہ یہاں موقع کی مناسبت سے چند اسلامی تعلیمات پیش کرنے کے خواہاں ضرور ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:ہم نے انسان کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرے۔(سورہ عنکبوت:8)
ایک مقام پر فرمایا:ا ور(یادکرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماںباپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔(سورہ بقرہ :83)
ایک اور مقام پر فرمایا: اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤاور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔(سورہ نساء :36)
ایک اور مقام پر فرمایا:اور آپ کے رب نے حکم دیاہے کے تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔(سورہ اسراء:23)
نیز فرمایا:اگر تمھارے والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں،تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ،تو انھیں "اُف"بھی نہ کہنااور نہ انھیں جھڑکنااور ان کے ساتھ ادب کے ساتھ بات کرنا،اور ان کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ بازو جھکاےرکھنا اور ا ن کے لیے یوںدعا کرتے رہنا؛اے میرے ر ب!ان پر ایسے رحم فرما،جیسے انھوں نے بچپن میں(شفقت سے) مجھے پالا۔(سورہ اسراء:24-23)
والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے کیا یگا ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انھیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس حالت میں وہ خدمت کے محتاج ہوتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا خصوصی طور پر ذکر فرمایااور انسان کو اس کاوہ بچپن کا زمانہ یاد دلایا جب اسے بھی اپنے والدین کی ایسی ہی بلکہ اس سے بہت بڑھ کرحاجت تھی۔اس لیے خیال رہے والدین سے حسن سلوک کرنا اسلام کی اساسی تعلیم ہے، جس کے لیے قرآن کریم میں لفظ "احسان" استعمال کیا گیا ہے۔
سورہ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر ومشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر وشرک کے لیے مجبور کریں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے کہنے سے کفر وشرک تو نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت کرتی رہے۔(آیت: 15)
احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق کی تاکید کی گئی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو ! کسی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! وہ کون ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم: 2551)
بلکہ حضرت نبی کریم ﷺ نے والدین کی خدمت کو نفلی جہاد سے بھی افضل قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میںجہاد میں شریک ہونے کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تمھارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: ہاںاے اللہ کے رسولﷺ۔آپﷺ نے فرمایا فَفِيْھَا فَجَاِھد بس تم والدین کی خدمت کرکے جہاد کا ثواب حاصل کرو۔(بخاری: 2842)
یوں تو ماں باپ ہر دو کے احسانات ایسے ہیں جن کی کوئی حد نہیں البتہ ماں چوں کہ اولاد کی ولادت سے لے کر تعلیم و تربیت تک ہر میدان میں زیادہ مشقت برداشت کرتی ہے، اس لیے بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے؛ ایک شخص نے حضرت نبی کریم ﷺ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟آپﷺ نے ارشادفرمایا: تمھاری والدہ۔اس نے پھر عرض کیا:پھر کون؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تمھاری والدہ۔اس نے عرض کیا:پھر کون؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تمھاری والدہ۔اس نے پھر عرض کیا:اس کے بعد کون؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمھارے والد۔(بخاری:5626)
بعض حضرات نے اس حدیث کے الفاظ سے ایک مسئلہ نکالاہے کہ کسی شخص پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور بھلائی کرنے کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں،ان میں ماں کا حصہ باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے۔جس کی مندرجہ ذیل تین وجہیں ہیں؛(1) وہ حمل کا بوجھ اٹھاتی ہے(2) ولادت کی تکلیف ومشقت بردا شت کرتی ہے اور(3)دودھ پلاتی ہے۔
فقہ کی کتابو ں میں لکھا ہے کہ اولاد پر والدہ کا حق والد کے حق سے بڑاہےاور اُس کے ساتھ سلوک و بھلائی اور اس کی خدمت و دیکھ بھال کرنا زیادہ واجب اور زیادہ ضروری ہے اور اگر ایسی صورت پیش آجاے،جس میں بیک وقت دونوں کے حقوق کی ادائیگی دشوار ہو جائے ؛مثلاً: والدین کے درمیان کسی وجہ سے اَن بَن ہو اور لڑکا اگر ماں کے حقوق کی رعایت کرتا ہے تو باپ ناراض ہوتا ہو اور اگر باپ کے حقوق کا لحاظ کرتا ہے تو ماں آزردہ ہوتی ہوتو ایسی صورت میں یہ درمیانی راہ نکالی جاےکہ تعظیم واحترام میں تو باپ کے حقوق کو فوقیت دے اور خدمت گزاری نیز مالی امداد وعطا میں ماں کو فوقیت دے۔
***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری |
World Mothers Day, 10th May. Article: Nadim Ahmed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں