۔۔۔۔ مگر ہم ہیں کہ سب بھول جاتے ہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-13

۔۔۔۔ مگر ہم ہیں کہ سب بھول جاتے ہیں

dilemma-of-indian-Muslims
سنجیدہ لوگوں سے سنا تھا کہ تقسیمِ ہند کے بعد ملک میں جب نئی جمہوری حکومت بنی تو ایک خفیہ سرکاری حکم جاری ہوا کہ کسی مسلمان کو کوئی اہم اور اعلیٰ عہدہ نہ دِیا جائے۔ ظاہر ہے یہ اعلان مخفی تھا لہٰذا عام مسلمان صرف شکایت ہی کرتا رہ گیا۔ ایک سوال یہ ضرور اب اٹھتا ہے کہ اُس وقت تو حکومت۔۔' سیکولر '۔۔کانگریس پارٹی ہی کی تھی اور اس پارٹی کے اوّلین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تھے اور اُس وقت مولانا ابو الکلام آزاد جیسے مسلم لیڈر بھی تھے ۔ ہمارے سینئر ایک فخر کے ساتھ بتاتے تھے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے مشورے کے بغیر وزیر اعظم نہرو کوئی اقدام نہیں کرتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد ہی کیا اُس وقت تو اُن کے علاوہ بھی کئی مسلم لیڈر تھے۔ ہم نے جنہیں دیکھا ہے اُن میں ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے مدبر اور دانشور بھی تھے جو بعد میں ملک کے تیسرے صدرِ جمہوریہ بنے اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے اُن کا انتقال ہوا۔ ان کے جلوسِ جنازہ کے پَل پَل کی ریڈیو پر روداد سنانے والوں میں مشہور براڈکاسٹر اور ممتاز اُردوشاعر وادیب زُبیر رَضوی ابھی حیات ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات شروع ہوئی تھی' خفیہ سرکاری حکم کی کہ کسی مسلمان کو اعلیٰ ترین عہدہ نہ دِیا جائے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ملک میں پندرہ فیصد مسلمان ہیں۔ یہی تناسب کم و بیش پہلے بھی تھا۔ اب ہم جیسے لوگ سوچتے ہیں کہ جواہر لعل جیسے سیکولر شخص اور ابوالکلام آزاد جیسے مسلم قائدین کے ہوتے ہوئے یہ خفیہ حکم کیسے جاری ہوا اور اسے کس نے جاری کیا اور اس پر عمل کیوں کر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کا کوئی واضح جواب ملے نہ ملے آپ ذرا اُس زمانے کے سیاسی منظر نامے پر گہرائی سے نظر ڈالیں اور ایک ایک فریم پر توجہ رکھیں تو بہت کچھ نہ سہی مگر اس کا کوئی نہ کوئی سِرا ضرور مل جائے کہ جس کے ذریعے آپ کو عقل کی روشنی میںبہت کچھ سمجھ میں آجائے گا۔
جواہر لعل نہرو وزیر اعظم تھے ضرور مگر ملک کے داخلی معاملات کی باگ ڈور ولبھ بھائی پٹیل کے ہاتھوں میں تھی اور جس خفیہ حکم کی بات کی گئی ہے وہ کس محکمے سے نکلی ہوگی اور اس حکم کو دینے والے کا کیا نام ہوگا اب بتانے کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح1948 ء میں ریاست حیدر آباد میں جس طرح پولس ایکشن کے نام پر وہاں مسلمانوں کو تباہ و برباد نہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں کہ قتل عام کیا گیا۔ اس کی پوری روداد تاریخ کا حصہ ہے۔ اس موضوع پر مجھ جیسے معمولی آدمی نے بھی اُردو میں دو کتابیں پڑھ رکھی ہیں ا س واقعے پر انگریزی میں بھی کتابیں موجود ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ابھی کچھ لوگ ایسے بھی زندہ ہیں جو اِس سانحے کے عینی شاہد ہیں۔ مبینہ طور پر یہ واقعہ ایک مسلم ریاست کو ہند میںضم کرنے کا نہیں تھا بلکہ اس کے نام پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنا تھا۔ انھیں نفسیاتی اور معاشی طور پر توڑ کر رکھ دینا تھا۔ 1961ء میںجبل پور کے فسادات کے وقت بھی کانگریس ہی مدھیہ پردیش میں برسر اقتدار تھی اور وزیر اعلیٰ تھے 'کے این کاٹجو'۔
اس فساد سے لے کر اب تک ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک خاصی فہرست انٹر نیٹ پر موجود ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے وہ معمر لوگ بھی یاد آتے ہیں جو بڑے فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ کچھ بھی کہو ہم تو خاندانی کانگریسی ہیں اور وہ مَرتے دَم تک اسی فخرو انبساط کی تسبیح پڑتے رہے۔ اس وقت ممبئی کے ایک معمرمسلم لیڈر رفیق زکریا بھی یاد آتے ہیں جو زِندگی بھر کانگریس کے وفادار رہے اور جب تک متحرک رہے وہ کسی نہ کسی طرح ایوانِ اقتدار میں جلوہ افروز رہے۔ انہی موصوف کے قلم سے ایک کتاب بھی لکھی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل 'مسلم دُشمن' نہیں تھے۔ مگر جب بابری مسجد کا سانحہ ہوا اور اس کے بعد کم از کم ممبئی میں جس طرح مسلم کش فسادات کا بازار 'سینا' نے گرم کیا تو اِنہی رفیق زکریا نے کہا تھا کہ ہم سینا کو جزیہ دینے کو تیار ہیں اور سب سے بڑی بات تو اُنہوں نے انجمن اسلام میں اعظم شہاب کی کتاب' گجرات کے جلتے شب و روز' کی اجرا کے موقع پر کہی تھی جو اُن کی زندگی کا سب سے بڑا سچ تھا۔ اس کے گواہ ہم ہی نہیں اس جلسے میں شہرکے اکثر ممتاز افراد بھی موجود تھے اور ان میں سے بہت سے اشخاص ابھی باقی ہیں۔
رفیق زکریا نے کہا تھا (مفہوم)"پوری عمر کے تجربے اور مشاہدے کے بعد آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ برادرانِ وطن میں سیکولر اِزم کی مالا جپنے والوں میں ہمارا کوئی دوست نہیں۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم ہیں کہ سب بھو ل جاتے ہیں اور تاریخ میں بھولنے والوں کا انجام نہایت سیاہ لفظوں میں درج ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ہم بزرگ اور معمر لوگوں میں ایک فرق روا رکھتے ہیں۔ دانا بزرگ حضرت انجم فوقی بدایونی کی ایک نصیحت بھی اس وقت یہاں اپنا تذکرہ چاہتی ہے، فرمایا: " ندیمؔ میاں ! حادثہ کتنا ہی بھیانک کیوںنہ ہو اُسے بھول جاؤ مگر اس سے جو سبق ملا ہے اسے زندگی کی آخری سانس تک نہ بھولنا ۔"
کل اسی اخبار میں عالِم نقوی کا اداریہ(پولس راج مودی راج) چھپا تھا جسے پڑھ کرہمارے ایک پڑھے لکھے محترم قاری نے ہمیں لکھا کہ
۔۔۔۔۔۔۔" کیا ہمارے بُرے دن آگئے ہیں؟" ۔۔۔۔۔۔۔اسی سوال نے درج بالا باتیں لکھوالیں۔
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ باتیں کل پھر بھول جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہائے ہماری فراموشی۔۔۔۔۔۔۔!!

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

The dilemma of indian Muslims. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں