مصنف : کوثر مظہری
مبصر : تحسین منور
ہم سب سے پہلے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام جلسہ تقسیم انعامات برائے منتخب کتب2013 ء کی تقریب میں موجود ان فیروزی لباس میں ملبوس خاتون کے زوق و شوق اوراردو نوازی کی داد دینا چاہیں گے کہ جو پورے پروگرام کے دوران" اسپائڈر سولٹیر " کھیلنے میں مشغول رہیں۔وہ جس مرحلے کا کھیل کھیل رہی تھیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ابھی شروعاتی دور میں ہیں۔ اگر وہ اسی طرح اردو کے مختلف پروگرام میں شرکت کرتی رہیں تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب وہ ایک دن " اسپائڈر سولٹیر " میں ملک و قوم اور ہماری پیاری زبان کا نام ضرور روشن کرپائیں گی۔یہی لگن اور جنون توہم اردو والوں کو چاہئے۔ان کی اس لگن لگی کے پیچھے کیاوہ ناقص ساؤنڈ سسٹم کارفرما تھا جس کے بارے میں اپنی شروعاتی تقریر میں اردو اکیڈمی کے سیکریٹری جناب انیس اعظمی صاحب نے "ہینگ "لفظ کا استعمال کیا تھا یایہ صرف ان کی اپنی ہی قدرو منزلت کا معاملہ تھا،یہ سوال تو ہم ان خاتون سے نہیں کر پائے۔ لیکن جب کہ ہم ان سے پچھلی صف میں بیٹھے تھے اس کے باوجود ہمیں انیس اعظمی اور جسٹس آفتاب عالم کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔باقی لوگوں کی آواز سننے کے لئے ہمیں سرکار کی طرح عمل کرنا تھا یعنی جتنا ضروری تھا وہ سُن لیتے تھے۔ لیکن اس سے ایک بات ثابت ہو رہی تھی کہ اردو کی آواز دور تک پہنچانے کے لئے یا تو آپ کا منصف ہونا ضروری ہے یا پھر آپ کا تعلق فنونِ لطیفہ کی کسی شاخ سے گہرا ضرور ہونا چاہئے۔
اس موقع پر جسٹس آفتاب عالم نے نہ صرف اردو زبان کی پیروی کی بلکہ منتخب کتابوں کا جس انداز میں تجزیہ پیش کیا وہ نہایت چونکانے والا تھا۔اس کی توقع ہمیں نہیں لگتا کہ انھیں انعامات کی تقسیم کے لئے بلانے والوں نے بھی کی ہوگی۔انھوں نے تنقید و تحقیق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم آگے کی طرف نہیں دیکھ رہے ہیں ۔یہ ادب کے ڈاکٹروں کو غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔انھوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ایک انعام بیسٹ سیلر کابھی دینا چاہئے تاکہ پتہ چل سکے کہ کتابیں کتنی فروخت ہوسکی ہیں۔پورے پروگرام میں جس انداز سے ڈاکٹرکوثر مظہری کی کتاب کا نام لئے بغیر گفتگو میں کتابوں کے منتخب کرنے کے عمل اور دیگر معاملات کا احاطہ کیا گیا وہ یقیناًاس بات کا ضامن تھا کہ کہیں نہ کہیں ایک دباؤ تو ہے کہ ایک کتاب کے مصنف نے پہلا انعام نہ دیے جانے کی وجہ سے انعام لوٹا دیا ہے جس سے یہ پورا عمل ہی نشانے پر آگیا ہے۔ہمیں یاد آیا کہ 2004ء میں ایک صبح ہمیں اخبار میں اپنا نام اپنی کہانیوں کی کتاب' معصوم ' کے لئے انعام کی فہرست میں دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی تھی۔ہم اسے جمع کرکے بھول ہی گئے تھے۔ ہم تودوڑے دوڑے انعام لینے پہنچ گئے تھے۔ انعام لینے والے بہت ہوتے ہیں واپس کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔اس لئے ڈاکٹر کوثر مظہری کی کتاب کا پڑھا جانا ضروری ہو گیا۔
پچھلے دنوں اتر پردیش اردو اکیڈمی کے انعامات کو لے کر تو اس کے صدر رہ چکے منور رانا صاحب نے ہی سوال اٹھا دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ دو مصنفوں کو ریسرچ پر انعام دے دیا گیا۔کچھ کتابیں بیک ڈیٹ پر جمع ہوئیں۔ تین سال کے بعد ایوارڈ دیے گئے۔ اس معاملے میں اردو اکیڈمی دہلی تو کافی صاف ہے کہ ہر سال کتابوں کو انعام سے نوازتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک پڑھے لکھے اردو کے ڈاکٹر کو اس انعام سے خوشی نہیں مل پائی۔ یہی جاننے کے لئے ہم نے بازدید میں اترنے کا فیصلہ کر لیا۔باز دید کو ہم اپنی جہالت کی وجہ سے 'تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر 'سے ملتا جلتا کوئی اس کا چھوٹا بھائی سا سمجھ رہے تھے ۔خدا کا شکر کہ ہم نے دیدہ دلیری سے کام نہیں لیا اور بازدید کا مطلب کتاب کے آغاز میں ہی سمجھا دیا گیا۔ "بازدیدکا اطلاق اس نوع کے مطالعے پر ہونا چاہئے حس کی بنیاد پرانے مضامین یا کتابو ں پر ہو۔یہ نہیں کہ ابھی کوئی کتاب یا کوئی مضمون چھپا اور اس کی بازدید شروع کردی۔"اس لئے کتاب لکھتے وقت دھیان رکھنا چاہئے ۔آج ممکن ہے آپ کا سکہ چل رہا ہو تو لوگ خوب تعریف کے پُل باندھ دیں مگر کل اگر کسی نے اس میں سے کیڑے مکوڑے نکالنے شروع کردیے تب کیا ہوگا۔
جون 2013ء میں پانچ سو کی تعداد میں عرشیہ پبلی کیشنز ،نئی دہلی کے اہتمام میں چھپی اس کتا ب کی قیمت تین سو روپئے ہے۔اس کتاب کا انتساب ڈاکٹر مولا بخش کے نام ہے اور پورے صفحے پر ان کی خصوصیات کو نکات کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ ان میں پانچ بار جنھوں ،چار بار جو اور دو بار جن سے شروعات ہے۔ آپ کچھ اور نہ سمجھیں ایک مختصر صفت ہے " جو ایک درد مند دل بھی رکھتے ہیں "۔اس طرح جنھوں نے یا جن کی کے ساتھ مولا بخشے ڈاکٹر مولا بخش کی خوبیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ڈاکٹر کوثر مظہری کی صحت نے ان کا ساتھ دیاکیوں کہ ان کے ہی مطابق ان کے دوست ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اگر گھر پر نہیں ہوتے تو ہاسپٹل میں ہوتے ہیں اس لئے ہماری یہی دعا ہے کہ اللہ انھیں صحت یاب رکھے وہ ضرور ا ن خصوصیات پر بھی کتاب تحریر کریں گے ۔
یہ بہت بڑی بات ہے کہ کوثر مظہری صاحب ادب پر لکھ رہے ہیں کیوں کہ ہم نے بہت سے داکٹر صاحبانِ اردو کو سیاست،سماج اور اِدھر اُدھر کے آسان سے معاملات پر ہی قلم اٹھاتے دیکھا ہے۔ سنجیدہ گفتگو کوئی اس ڈر سے نہیں کرتا کہ کہیں بڑے بڑے برگدوں نے پڑھا لکھا سمجھ لیا تو یہ چھوٹی سی شاخ جس پر آشیانہ ہے کہیں کاٹ نہ دی جائے۔ انھوں نے سترہ صفحات کا جو مقدمہ لکھا ہے وہ تبصرے کے فن پر خوب روشنی ڈالتا ہے۔ ہمیں لگا کہ ہمارے جیسے عام قاری کو جسے ادب کی گہرائی اور گیرائی سے زیادہ تحریر کے اسلوب سے مطلب ہوتا ہے انھیں شروع میں ہی تبصرے کے فن پر معلومات دے کر وہ اپنے پاؤں میں کلہاڑی مار رہے ہیں۔ وہ لکھتے بھی ہیں کہ " ایسے نقادوں کی کمی نہیں جو بڑے بڑے مغربی دانشوروں کے سورج سے اپنی تنقیدی لالٹین روشن کرتے ہیں اور حوالوں سے پرہیز کرتے ہیں۔" ان کی اس کتاب میں تو کئی جگہ وہ خود نہ صرف بڑے بڑے انگریزی کے ناموں بلکہ الفاظ تک کو ہمارے منہ پر ایسے پھینک کر مارتے ہیں کہ جن کے مطلب ہم ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں ۔وہ ایک اور راز بتاتے ہیں کہ" آج کل ایم فل کی ڈگری صرف ایک کتاب پرDissertation لکھ کر مل جاتی ہے۔" اس تحقیق پر بھی تحقیق کئے جانے کی ضرورت ہے۔
پوری کتاب میں بازدید کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انھوں نے پتھر کے صنم توڑنے کی کوشش ضرور کی ہے ۔جس سے وہ ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئیوں کے نشانے پر آگئے ہیں ۔شائد ان کے انعام کے پیچھے بھی اِس طرف یا اُس طرف یا دونوں طرف کی سیاست ہی کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے ہم اس پر بحث نہ کرتے ہوئے کہ کیا انھیں پہلا انعام دیا جانا چاہئے تھا یا دوسرا یا انعام ہی نہیں دیا جانا تھا ان کی کتاب ہی عرض کرتے ہیں۔ ہم اس لئے اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے کہ ہم عام قاری ہیں۔ ادب کی بے ادبی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے پہلا انعام پانے والی سبھی کتابیں نہیں پڑھی ہیں۔ ہاں ہم نے کتاب عرض کا سلسلہ اودھ میں اردو مرثیہ سے ہی شروع کیا تھا اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر ریاض الہاشم نے اس پانچ سو صفحات کی کتاب پر کافی محنت کی ہے۔ اس لئے اسے پہلا انعام دے کر غلطی نہیں کی گئی ہے۔
ڈاکٹر کوثر مظہری پوری کتاب میں ادب کے 'مٹھ آدیشوں' سے 'پنگا' لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔بازدید میں پہلا معاملہ فراقؔ گورکھپوری کے خطوط کا مجموعہ' من آنم 'کے ساتھ طے پاتا ہے۔ دس صفحات کے مختصر سے مضمون میں ڈاکٹر کوثر مظہری، فراقؔ جس بے باکی ،کھلے پن اور اخلاص کے ساتھ اپنی بشری کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہیں اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتے۔ وہ ان کے خطوط میں سرلتا اور کوملتا کے ساتھ ساتھ توانائی اور شوخی بھی پاتے ہیں۔ لہجے میں تابناکی اور سرشاری کی کیفیت بھی ملتی ہے ۔لیکن جب وہ تھوڑا اور آگے بڑھ کر سجاد ظہیر کی روشنائی میں اپنا قلم ڈبوتے ہیں تب وہ ترقی پسند تحریک کو لے کر بہت سارے سوال کھوج لاتے ہیں۔ وہ 'جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی' کے حوالے سے علامہ اقبال ؔ کو بھی ترقی پسند شاعروں کی صف میں لے آتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ " سچا ادیب یا شاعراپنے سچے جذبات کی عکاسی کے لئے کسی بھی تحریک یا ازم کا قطعی پابند نہیں ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر جو ذہنی میلان آیا اس کی مثالیں خطرناک حد تک منفی انقلاب کے تصور کو پیش کرتی ہیں"۔ترقی پسند تحریک کی کانفرنس کی کوئی حتمی تاریخ کا ریکارڈ نہ ہونے پر بھی وہ سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اندرونی طور پر اس انجمن میں نراجیت تھی ۔صرف سال یا مہینہ بتانے سے بات نہیں بنتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ "خلیل الرحمن اعظمی نے اس پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا لیکن انھوں نے بھی اس پر تبصرہ نہیں کیا۔روشنائی میں سجاد ظہیر نے ہر بات لکھی ہے مگر حتمی تاریخ نہیں لکھی ہے۔ "اس سے کوثر مظہری کہتے ہیں کہ "ان کی کتاب کی قدروقیمت کم ہوتی ہے۔"
کوثر مظہری اپنے ہر مضمون میں جو بازدید میں ہے بنے بنائے اور پوجے جانے والے بُت توڑنے میں لگے ہیں۔ کلیم الدین احمد کی کتاب 'اردو تنقید پر ایک نظر ' میں جو بھڑنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں وہ اگلے کئی مضامین میں تھمتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ وہ مغرب کے مشہور نقاد ایف آر لیوس اور آئی اے رچرڈس سے ان کی شاگردی کو بھی بار بار نشانہ بناتے ہیں۔وہ کہتے ہیں " کلیم صاحب تمام تذکرہ نگاروں سے غیر ضروری طور پر اول درجے کی تنقیدی نگارشات (آراء) کا تقاضا کرتے ہیں اور اس لئے انھیں ہمیشہ مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ "ایک جگہ لکھتے ہیں کہ " جس طرح کلیم صاحب کو لگا کہ حالی کی کتاب کا جادو ٹھنڈا پڑگیا ہے۔۔۔اسی طرح کلیم صاحب کی بہت سی باتیں Obsolete ہوں گی۔"اپنے اس 48 صفحات کے مضمون میں انھوں نے کلیم الدین احمدکی تنقید کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کلیم صاحب نے جس طرح حالی ؔ ،عبدالحق،آل احمد سرورؔ ،محمد حسن اور عسکری کو نشانہ بنایا ہے اس کوبھی نشانہ بنانے سے کوثر مظہری نہیں چوکے ہیں۔ جب کلیم صاحب عسکری کے لئے ایک ایسا لفظ استعمال کرتے ہیں جو خود ان کے قلم کو کمزور ظاہر کرتا ہے تب کوثر مظہری کو اپنی بات مضبوطی سے کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کلیم صاحب لکھتے ہیں " عسکری صاحب کی حیثیت ایک 'دلال' کی ہے ۔وہ مغربی مال ہندوستان میں بیچنا چاہتے ہیں۔" کوثر مظہری پوچھتے ہیں کہ کلیم صاحب جیسا شخص اس لفظ دلال کا استعمال کیسے کرتا ہے ،افسوس ہوتا ہے۔
اگلا مضمون جوسہیل عظیم آبادی کے ناول بے جڑ کے پودے پر ہے وہ کمزور ہے ۔ اس طرح لگتا ہے جیسے کوئی امتحان گاہ میں کسی سوال کا جواب دے رہا ہو۔ اسی طرح گاندھی جی کی خود نوشت کے ترجمے تلاشِ حق میں بھی وہ گاندھی جی پر ہی زیادہ بیان فرماتے ہیں۔ ان کی تحریر کے اسلوب پر اتنا نہیں بولتے ۔اس میں وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں جو ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ لیکن جہاں وہ ادب اور تنقید کے میدان میں آتے ہیں پھر ان کا قلم اپنے انداز سے بولنے لگتا ہے۔ محمد حسن کا مضمون 'سچی جدیدیت نئی ترقی پسندی 'کے حوالے سے وہ کارآمد بحث کرتے ہیں۔ کچھ بھی ہو وہ لیک سے ہٹ کر لکھتے ہیں اس لئے منفرد ہو جاتے ہیں۔
اردو میں کہاں اب لوگ ایک دوسرے کے خلاف قلم اٹھا رہے ہیں۔ اس ٹھہری ہوئی جھیل میں پانی گدلہ ہو چلا ہے۔ کوثر مظہری اس میں کنکر پھینک کر جوہلکہ سا طوفان اٹھانا چاہتے ہیں اسے بڑھا وادیے جانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اردو میں یکسانیت سی آجائے گی اور لوگ پڑھنے کو ڈھنگ کی چیز ڈھونڈتے رہ جائیں گے ۔یہ سچ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اردو پر خزاں کا موسم چھا یہ ہوا ہے ۔اس کا ذکر جسٹس صاحب نے بھی کیا تھا۔کوئی آپسی مخالفت ایسی نہیں بچی ہے کہ جس پر فخر کیا جاسکے۔محمد حسن کے مضمون پر لکھتے ہوئے کوثر مظہری اردو کی ایک اور دنیا تک ہماری رہنمائی اس جملے میں کرتے ہیں۔" آج بھی ایسے حاشیہ بردار اور چاپلوس شعراء اور ادبا موجود ہیں جو اربابِ اقتدار سے اپنی تقدیر لکھواتے ہیں۔ " اس جملے کو پڑھتے ہوئے ہمارے آس پاس کے کئے چہرے صاف دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا وہ بُت شکنی میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ کسی کو نہیں بحشتے ۔اسی مضمون میں ایک جگہ رقم طراز ہیں۔ " حد تو یہ ہے کہ آج بھی ہماری پیڑھی کے بہت سے ذہن فاروقی کی چھتری تلے رواں دواں ہیں ، یہ جانے بغیر کے جدیدیت کا بگل بجا کر خود فاروقی کدھر چلے گئے تھے۔"
شمس الرحمن فاروقی کے مضمون ' کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے ؟ ' میں تو کوثر مظہری اس بُری طرح کھل کر فاروقی پر ٹوٹ پڑتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ " فاروقی کی تنقید کی داد نہ دینا بد دیانتی ہوگی ۔لیکن جہاں تضادات اور ژولیدہ بیانی ہوگی وہاں گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ گفتگو کی جائے ۔نظریہ /نظریات اور idealogy اور theory کو لے کر کافی اچھی بحث ہے اس میں ۔ایسا نہیں ہے کہ وہ فاروقی صاحب کی آنکھ بند کر صرف تنقید ہی کرتے ہیں ۔کئی جگہ وہ ان کی بات مانتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔مولانا ابوالکلام کے' تذکرہ' کے حوالے سے بھی ان کا مضمون کا فی مختصر مگر ٹھیک ٹھاک ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن سے وہ بہت زیادہ' جمالیاتی' حد تک متاثر محسوس ہوتے ہیں کہ انھوں نے جہاں موقع ملا ان کی تعریف کی ہے۔ ان پر دومضامین کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ احمد ندیم قاسمی ایک لجنڈ اور دوسرا مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات ہے۔
ان کا اہم مضمون جس کی داد دینے کو دل کرتا ہے، گیان چند جین کی کتاب 'ایک بھاشا،دو لکھاوٹ ،دو ادب' پر ہے ۔اس میں وہ جس طرح چوٹ کرتے ہیں پڑھنے لائق ہے۔ وہ آغاز میں ہی کہتے ہیں ۔" گیان چند جین کی کتاب ایک بھاشا دو لکھاوٹ اسی تاریخی المیہ کا جواز فراہم کرتی ہے بلکہ یہ کتاب اپنے آپ میں ایک تاریخی المیہ ہے۔۔۔ ۔یہ کتاب اردو ہندی پر کم اور ہندو مسلم پر زیادہ ہے۔ " اس میں وہ گوپی چند نارنگ کو بھی نہیں بخشتے ۔لکھتے ہیں " لیکن آخر آخر میں جین صاحب کو کیا ہوگیا کہ اپنے اندر کے زہر کو صلح و آتشی کے پانی میں گھولنے کی کوشش کی اور جس میں پورا پورا ساتھ دیا اردو کے بڑے ناقد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے۔ نارنگ صاحب اس کتاب کی اشاعت کے پورے طور پر زمہ دار ہیں جس کی تصدیق کتاب کے پبلشر یعنی ایجوکیشنل کے مالک مجتبیٰ خان بھی کرچکے ہیں۔ " مگر وہیں دوسری طرف جب وہ نارنگ صاحب کی کتاب اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب پر لکھتے ہیں تو اس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ کوثر نیازی کا بھارت کا سفرنامہ' نقشِ رہگزر ' بھی بازدید اور تبصرے کا حصّہ ہے۔ 376 صفحات کی کتاب میں سو صفحات مختلف رسالوں اور اخباروں میں چھپے تبصروں کے لئے وقف ہیں ۔لیکن کوثر مظہری اپنا کام باز دید سے کر دیتے ہیں۔
ہمیں خبر نہیں کہ اتنا بڑا مضمون جا پائے گا کہ نہیں لیکن ہم اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اوربہت لکھنا چاہتے تھے۔ ایک ایک مضمون پر ایک ایک تبصرے کا حق ہمارا بھی بنتا ہے۔ خیر بازدید کریں گے تب دیکھیں گے کہ وہ اپنے مضامین میں کتنے سچے ہیں۔ہاں مگر آخر میں ہم ان سے صرف اتنا کہیں گے کہ اپنی صحت کا خیال رکھیں ۔زیادہ اسپتال میں رہنا بھی اچھا نہیں ہے ۔کم سے کم مجاز میں اور مظہری میں فرق تو ہونا چاہئے۔
***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور |
A Review on book "Bazdeed aur tabsrey" by Kausar Mazhari. Reviewer: Tehseen Munawer
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں