اتحاد بین المسلمین - فریضۂ دین وقت کی ضرورت اور انعام الہی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-07

اتحاد بین المسلمین - فریضۂ دین وقت کی ضرورت اور انعام الہی

Unity-of-Muslim-ummah
فرمان ربانی ہے :
اے ایمان والو ، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو ۔ توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جا ئے گی ۔ ۔ صبر سے کام لو ، یقیناً اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے
(الا نفال 45۔ 46 )
امت کے آلام و مصائب کم ہو نے کے بجائے ، روز بہ روزبڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ پوری امت شدید آزمائشوں سے دو چار ہے ۔ ایک طرف ہزاروں خانوں میں بٹی ہوئی پوری دنیا ہمارے خلاف اس طرح متحد ہے کہ بلا مبالغہ ایک جسم نظر آتی ہے تو دوسری طرف جس امت مسلمہ کو جسد واحد کی شکل میں بنیان مرصوص ہو نا چاہیے تھا وہ امت اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف اپنے دفاع میں متحد ہونے کے بجائے نہ صرف جدال باہم اور برادر کشی کا شکار ہے بلکہ خاص بلاد اسلامیہ میں خانہ جنگی کے عذاب میں بھی گرفتار ہے ۔
ایک طرف صورتِ حال یہ ہے کہ صہیونی فتنہ اس قدر طاقت ور ہو گیا ہے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے حلیف و معاون امریکہ کو بھی آنکھیں دِکھانا شروع کر دی ہیں اور وہائٹ ہاؤس کے مکین بارک اوباما نے یہ کہ کر ایک طرح سے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے کہ بن یامن نیتن یاہو کے بر سر اقتدارہتے ہوئے وہ مغربی ایشیا کے قضیے کے ،دو ریاستی حل کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں ۔ صہیونی مقتدرہ نے بھی اپنے نئے عالمی نظام ، اور عالمی حکومت کے قیام کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اب امریکہ کے بجائے چین ، روس اور ہندستان کو استعمال کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔تو دوسری طرف 57 ملکوں اور قریب ڈیڑھ سو کروڑ کی آبادی والی امت مسلمہ ، قلب مسلم میں 67 برسوں سے پیوست صہیونی خنجر کو نکالنے ،قبلہءاول مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے ، اور نو سال سے اکیسویں صدی کے شعب ابی طالب بنے ہوئے محصور ومقہور غزہ کی معاشی و تزویری ناکہ بندی ختم کرانے کے بجائے برادر کشی اور خانہ جنگی میں مصروف ہے 1967 میں اسرائیل کے ہاتھوں شرمناک شکست کے 48 سال بعد عرب لیگ نے ایک مشترکہ عرب فوج بنائی بھی تو مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے نہیں اپنوں ہی کی سر کوبی کے لیے جنہیں مذاکرات کی میز پر لانا اور ایک منصفانہ اور باعزت معاہدہ کرا دینا جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہوتا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں تھا ۔حکمرانوں کا مخالف حوثیوں کا ایک طاقتور گروپ تو خود سعودی عرب کے دار ا لسلطنت ریاض میں آکر سہ فریقی امن مذاکرات کے لیے تیار تھا ۔
ہم بات کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے کچھ آیات قرآنی کا ترجمہ ، دانش جویان و طا لبان علم قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ؛
سورہءمبارکہ المائدہ کی 82 ویں آیت میں جو چھٹے پارے کی آخری آیت بھی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے کہ
" تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤگے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک ا لدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں تکبر اور غرور نفس نہیں ہے ۔ "
اسی سورہ مائدہ کی آٹھویں آیت میں کہا جا رہا ہے کہ
" اے ایمان والو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ۔ دیکھو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم انصاف سے منہ موڑ لو ، عدل کرو ، کہ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کر تے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح با خبر ہے ۔ " ۔
اور سورہ نساء کی 75 ویں آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ
" اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان کمزور مرد عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے واسطے جنگ نہیں کرتے جو بے بسے کے عالم میں اللہ سے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! کسی طرح ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سر پرست بنا اور تو خود ہی کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار مقرر فرما ۔ "
اور سورہ آل عمران کی 139 ویں آیت میں یہ مژدۂ جانفزہ بھی ہے کہ
"دل شکستہ نہ ہو ، اور غم نہ کرو ، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مؤمن ہو ۔ "
اور سورہ حجرات میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ
" اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائےں تو ان کے درمیان صلح کراؤ ۔ پھر بھی اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کی طرف پلٹ آئے ۔ تب ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو ۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
(آیت 9 )

سورہءانفال کی آیت 59 تا 63 میں ارشاد رب ا لعزت ہے کہ
" کافر اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ۔ یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے ۔ ،اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، اپنی استطاعت بھر ، زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کرو ، اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو ، جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دشمن ہیں ) خوف زدہ کر سکو ۔اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہیں دے دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا ۔ "

اور اب رسول کریم ﷺ کی چند مشہور اور متفق علیہ احادیث کا ترجمہ بھی ملاحظہ فر ما لیجے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ؛
باہمی یگانگت ، محبت و رحمت اور لطف و کرم میں اہل ایمان کی مثال ایک جسم کی سی ہے ،اگر ایک عضو میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم ہی شب بیداری اور بخار میں اس کا شریک ہو جاتا ہے ۔
(بخاری کتاب ا لادب )

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ ہی دھوکہ دیتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے ۔
(صحیح مسلم )

مسلمان کا خون اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ (مسلم )

مؤمن کو قتل کرنا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق ۔ (مسلم )

آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ضامن ہوں اس شخص کو جنت میں مقام دلانے کا جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دیا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑے سے گریز کرے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے لیے جنت کے اعلیٰ حصے میں گھر تعمیر فر مائے گا ۔ (ابو داوؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ )

مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور مؤمن وہ ہے جس کی طرف سے اس کا پڑوسی مطمئن ہو ( کہ اس سے اسے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا )
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔ بازار میں کوئی چیز بکتی ہو تو خریدنے کی نیت کے بغیر اس کی قیمت نہ بڑھاؤ ۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ۔ اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے از راہ حقارت منہ مت پھیرو ۔ اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے ۔ اللہ کے بندو ! ایک دوسرے کے بھائی بن جاؤ ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس کی مدد سے ہاتھ کھینچے نہ اس کو حقیر جانے ، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ اس کی عزت اس کاخون اس کا مال ۔
(صحیح مسلم )

آپ ﷺنے فرمایا کہ جو شخص اپنے کسی بھائی کی آبرو کی حفاظت کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو آگ سے دور کر دے گا ۔ (ترمذی ) جس کسی نے اپنے کسی بھائی سے اس کی عزت یا کسی چیز میں کوئی زیادتی یا ظلم کیا ہو تو وہ آج ہی اس سے معاف کر والے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے کہ جب نہ دینار چلے گا اور نہ درہم ۔ اگر کوئی نیک عمل ہوگا تو اس میں سے اس کی زیادتی اور ظلم کے بقدر لے لیا جائے گا اور اگر کوئی بھی نیکی نہ ہو گی تو اس مظلوم کے گناہ اس ظالم کے نامہءاعمال میں ڈال دیے جائےں گے
(بخاری شریف ) ۔

اگر ہم اپنی فکر اور معاملات میں اتنے شدید ہیں کہ خود اپنی صفوں میں اختلاف کو برداشت نہیں کر سکتے تو ہم دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ ،امن و اتحاد اور رخصت و بر دا شت ، کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ اور ان سے ،امن و برداشت ، کا مطالبہ کرنے میں کیونکر حق بجانب ہو سکتے ہیں ؟
اگر ہم اپنی اقلیتوں کو برداشت نہیں کر سکتے ، اور جہاں ہم خود بر سر اقتدار ہیں اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں ، وہاں ، اپنی اقلیتوں کے ساتھ اگر انصاف نہیں کر سکتے ، یعنی ان کے ساتھ معاملات میں توازن و اعتدال ، قائم نہیں رکھ سکتے ، تو ، جہاں ہم اقلیت میں ہیں اور اپنی اکثریت کے ظلم و تعدی ، تعصب و جانب داری اور بد سلوکی و نا انصافی کا شکار ہیں ، وہاں ، ان سے وہی مطالبہ کرنے میں، 'خود را فضیحت و دیگراں را نصیحت' کے الزام سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ جب ہم خود بہ شرط اقتدار و اختیار اپنی اقلیتوں کو جینے کا حق نہیں دے سکتے ، بلکہ انہیں کافر قرار دے کر ان کا قتل عام باعث ثواب سمجھتے ہیں تو ہم دنیا کی ان ظالم و قاہر اکثریتوں سے جینے کا حق کس منہ سے مانگ سکتے ہیں ؟

جہاں یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں سے ہمارا سابقہ ہے اور جہاں ہم اپنی علٰحدہ دینی و مذہبی ، لسانی و ثقافتی شناخت کی بنیاد پر حد درجے کی غیر رواداری ، تعصب ، امتیاز اور بنیادی حقوق کی پامالی کے شکار ہیں ، وہاں ، ہم ان سے یہ تمام حقوق اپنے لیے بھلا کس منہ سے طلب کر سکتے ہیں ؟ جبکہ ہم خود اپنے زیر اقتدار علاقوں میں آباد اقلیتوں کے حقوق ِ انسانی کے انکاری ہیں ؟ ہم امریکہ ، ہندستان اور اسرائیل میں تو نسل پرستی APARTHIED کے خلاف لڑ رہے ہیں یا لڑنا چاہتے ہیں اور متمنی ہیں کہ پوری مہذب دنیا ہمارا ساتھ بھی دے ، لیکن ، خود اپنے زیر اقتدار علاقوں میں نسل پرستی ، قبیلہ پرستی اور اقلیت دشمنی میں سرگرم گروہوں کی حمایت کرتے ہیں ۔۔کہیں کھلے عام تو کہیں در پردہ ۔۔ تو ہم دنیا سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری اس منافقانہ روش کے باوجود ہماری غیر مشروط حمایت جاری رکھے ؟

ہم مظفر نگر ، ملیانہ ، ہاشم پورہ ، گجرات ، جمشید پور ، جبل پور اور بھا گل پور وغیرہ میں اکثریتی دہشت گردی اور کشمیر سمیت پورے ملک میں سیکیورٹی فورسز کی سفاکی کے شکار ہیں ، ہماری مسجد پر پہلے طاقت اور اقتدار کے بل پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا اور پھر بھیڑ جمع کر کے اسے آخری حد تک مشتعل کر کے اس مسجد کو شہید کر دیا گیا لیکن ہمیں انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا ۔ لیکن ۔۔خود ہم نے ان علاقوں میں جہاں ہمارے ہی ہم مذہب بر سر اقتدار ہیں اور جہاں ہم اکثریت میں ہیں ۔۔ ہم نے دنیا کے سامنے کون سا نمونہ پیش کیا ؟ کیا ہم اپنے اقتدار و اختیار والے علاقوں میں قرآنی اخلاق و کردار اور اسوہءحسنہءرسول ﷺ پر عمل کر کے دنیا کے سامنے آئڈیل اسلامی خلافت و ریاست کا نمونہ پیش کر رہے ہیں ؟

ہاں ، بے شک ، اصول یہی ہے اور ہمیں بھی معلوم ہے کہ ۔۔ ایک جرم دوسرے جرم کا جواز نہیں بن سکتا ۔ ایک ظلم کو دوسرے ظلم کا جواز نہیں بنایا جا سکتا ۔ ایک دہشت گردی کو دوسری دہشت گردی کے جواز میں پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ جرم ، ظلم ، نا انصافی اور دہشت گردی ہر حال میں ، ہر زمانے میں اور ہر مقام پر قابل مذمت اور مستوجب سزا ہی رہیں گے ۔لہذا
اب دنیا کو محض یہ بتاتے رہنے سے کام نہیں چلنے والا کہ ۔۔ اسلام تو خالص دین امن و سلامتی اور دین رحمت و رافت ہے ۔ دنیا قول نہیں عمل دیکھتی ہے ، کردار دیکھتی ہے ، ثبوت مانگتی ہے ، ایسا ثبوت جسے ننگی آنکھوں سے بھی دیکھا جا سکے ۔۔ ہم اسلام کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ سب حق ہے ، سچ ہے درست ہے اور بر حق ہے لیکن ۔۔۔
سورہ منافقون یاد ہے آپ کو ؟ ک
یا کہا جا رہا ہے کہ
" اے نبی ﷺ جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ﷺہیں " ہاں ! اللہ جانتا ہے کہ آپ ضرور اس کے رسول ہیں مگر ۔۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق ہیں اور جھوٹے ہیں ۔۔"

تو عزیزو ہمیں اس پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ کہیں خدا نخواستہ ، ہم ، اسی قسم کے جھوٹ اور منافقت کا سہارا تو نہیں لے رہے ہیں ؟ کوئی جواب دینے والا ہمیں یہ جواب دے سکتا ہے کہ بے شک تم کہ تو صحیح رہے ہو ، ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ اسلام تو نام ہی امن و سلامتی کا ہے ۔ کسی بھی طرح کی دہشت گردی ، ارہاب اور ظلم و نا انصافی سے اس کا ہر گز کوئی تعلق نہیں لیکن ۔۔ "تم جھوٹے اور منافق ہو " ! کیونکہ وہ اسلام تو صرف قرآن و سنت کی کتابوں میں بند ہے ۔ ہمارے سامنے تو ایران و عراق ، سیریا اور لیبیا ، یمن و سعودیہ ، نائجیریا و کینیا ، اور افغانستان و پاکستان وغیرہ ہیں ! جہاں تم اپنی ہی اقلیتوں کے ساتھ اور اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جو خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں اور جن سے تمہارا دینی و مذہبی ، لسانی و قبائلی ، ملکی اور قومی اور سب سے بڑھ کر انسانی اخوت کا رشتہ ہے ، لیکن ۔۔۔ تم تو ان کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہوجو ، مثال کے طور پر ۔۔ہندستان ، برما (میانمار) چینی ترکستان ، تھائی لینڈ ، فلی پائن ، وسطی افریقی ریپبلک ، کانگو اور اسرائیل وغیرہ میں غیر مسلموں کے اقتدار میں تمہارے ساتھ ہو رہا ہے !!
کیا ہم سے قیامت میں یہ سوال نہیں ہوگا کہ جب ہم نے تمہیں اپنی زمین کے کچھ خطوں پر اقتدار بخشا تو تم نے ہمارے دین کا جھنڈا کیسے اٹھایا ؟

تو عزیز ساتھیو ! امت مسلمہ ، امت واحدہ کا مصداق بنے بغیر کم از کم اس آخری زمانے میں تو اکیسویں صدی کے دجالی فتنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ مسلمانو ں کا اتحاد انعام الٰہی تو ہے ہی 'فریضہ' بھی ہے جس کی ادائگی ہر فرد مسلم پر واجب ہے۔ مربی و مرشدی پروفیسر رشید کوثر فاروقی نے 1997 میں جو بات کہی تھی وہ آج 18 سال بعد بھی اتنی ہی صحیح ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جب وہ یہ سب لکھ رہے تھے ، ان کی دور بین نگاہوں کے سامنے آج ہی کا منظر نامہ تھا ۔ انہوں نے لکھا کہ " جہاں تک اسلامیانِ ہند کا سوال ہے تو میرے علم کی حد تک وہ جس صورت حال سے دو چار ہیں اس کی نظیر تاریخ عالم میں دور فرعون کی امت موسوی کے سوا ، نظر نہیں آتی ۔ اگرچہ مما ثلت سقوط اندلس سے بھی ہے ۔ بلکہ یہ صورت حال نازک تر ہے کہ اب اگر کوئی ہجرت بھی کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی وادی یثرب تو خیر ہے ہی نہیں ، کوئی ہامونِ تیہ جیسا صحرا بھی نہیں کہ جہاں بنی اسرائیل چالیس سال تک بھٹکتے رہے تھے ۔
ادھر عالمی منظرنامہ اس درجہ ہوش رُبا ہے کہ آشوب تا تار بھی ہیچ نظر آتا ہے ۔ کیونکہ اللہ کی زمین اللہ کے نام لیواؤوں پر اتنی تنگ نہ تھی اور نہ ان کے خلاف اتنے دور رس اور عالم گیر منصوبے تھے ۔ کہیے تو کیا کہیے اور کہیے تو سننے والا ، اور شنیدنی کو کردنی میں بدلنے والا کون ہے ؟ وقت اتنا کم بلکہ معدوم ہے ، اور احوال ایسے کہ اصلاح قادر مطلق کے سو ا فی ا لحال اور کسی کے بس کا روگ نہیں معلوم ہوتی (الا یہ کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ اور امام مہدی کے ہاتھوں اللہ تبارک و تعالیٰ عسر کو یسر سے اور ظلم کو عدل سے تبدیل فر ما دے ) حضرت موسیٰ کی قوم نے انہیں بھی طرح طرح سے دق کر رکھا تھا ہم بھی روح محمد ﷺ کے ساتھ تقریباً وہی کر رہے ہیں ۔ آپس میں منتشر ، خیر امت اور امت وسط کی ذمہ داریوں سے غافل یا شتر مرغ کی پیروی (یا پھر پچھلے دس پندرہ برسوں سے جاری باہمی سر پھٹول ، برادر کشی اور خون مسلم کی ارزانی میں غیروں کے ساتھ خود ہم بھی شامل ! )

بس ایک شعاع امید کی ، اگرچہ بڑی خفیف اور بہت نحیف ہے ، اعلائے کلمہ ا لحق ہے ،جو اس وقت جہاد ہی نہیں افضل جہاد ہے ۔ یہ تو سچ ہے کہ حق سننے والے کتنے ہیں مگر اس سے بڑاسچ یہ ہے کہ حق گو پر ، نہ عدم سماعت کی ذمہ داری ہے نہ گراں گوشی کی ۔ اسے تو حق کہنا ہے اور حق اسی لیے کہنا ہے کہ سنا جائے یا نہ سنا جائے مگر کہا جائے ، متصل کہا جائے ، مکرر کہا جائے ۔۔
سن لو مری نوا کہ یہ شاید ہو آخری
لبل ہوں جس کو تاک لیا ہے عقاب نے !

***
Alam Naqvi
Mob.: 07830003089

Unity of Muslim ummah, the need of the hour. Article: Alam Naqvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں