یہ انکاؤنٹر نہیں سفاکانہ قتل ہے - نلگنڈہ پولیس ہلاکتوں کا بدلہ لیا گیا - والد کا الزام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-08

یہ انکاؤنٹر نہیں سفاکانہ قتل ہے - نلگنڈہ پولیس ہلاکتوں کا بدلہ لیا گیا - والد کا الزام

حیدرآباد
منصف نیوز بیورو
یہ انکاؤنٹر نہیں سفاکانہ قتل ہے - نلگنڈہ پولیس ہلاکتوں کا بدلہ لیا گیا
وقار احمد کے والد کا الزام ،
سی بی آئی تحقیقات کا حکم جاری ہونے تک نعشیں نہ لینے مہلوک نوجوانوں کے ارکان خاندان کا اعلان
فرضی انکاؤنٹر کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ
ماضی میں بھی ہمارے بچوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔
انکاؤنٹر کی دھمکیاں دی جاتی تھیں ، متاثرہ خاندانوں کا دعویٰ

یہ انکاؤنٹر نہیں سفاکانہ قتل ہے ، پولیس نے سوریہ پیٹ میں پولیس جوانوں کے قتل کا ہمارے بچوں سے بدلہ لیا ہے ۔ یہ انکاؤنٹر نہیں ایک منصوبہ بند ڈرامہ ہے جسے آج عملی جامہ پہناتے ہوئے وقار احمد اور دیگر چار نوجونوں کا بہیمانہ قتل کردیا گیا ۔ یہ الفاظ وقار احمد کے والد محمد اور دیگر مہلوک جوانوں کے رشتہ داروں کے ہیں جنہوں نے اس وقعہ کی سی بی آئی تحقیقات کامطالبہ کیا ہے اور محمد احمد کے ہمراہ دیگر مہلوک نوجوانوں کے ارکان خاندان نے اعلان کیا ہے کہ جب تک سی بی آئی تحقیقات کا حکم نہیں دیاجاتا جب تک وہ اپنے بچوں کی نعشیں نہیں لیں گے اور نہ ہی ان کی آخری رسومات انجام دیں گے ۔ انہوں نے فرضی انکاؤنٹر کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا بھی اعلان کیا۔ وقار احمد کے والد نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ضلع نلگنڈہ میں پولیس ملازمین کی ہلاکت کے بدلہ یہ کارروائی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وقار اور اس کے ساتھیوں کا سفاکانہ قتل ہے جب کہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت تقریبا ً مکمل ہوچکی تھی۔ عدالت بہت جلدفیصلہ بھی سنانے والی تھی ۔ انہوں نےاسے فرضی انکاؤنٹر قرار دیا ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس واقعہ کے بارے میں انہیں اپنی دختر کے ذریعہ پتہ چلا ۔ انہوں نے بتایا کہ میری دختر نے مجھے فون کیا اور اس واقعہ کے بارے میں بتایا۔ محمد احمد نے مزید بتایا کہ وقار اور اس کے ساتھیوں کے پولیس شکنجہ سے فرار ہونا یا فرار ہونے کی کوشش کرنے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا ۔ یہ ان تمام پانچ نوجوانوں کا صفایا کرنے کے لئے پولیس نے ایک گھناؤنی سازش کی ہے ۔ ہمیں انصاف چاہئے، ہم انصاف چاہتے ہیں ۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس قتال میں جو بھی ملوث ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ محمد احمد نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اگر وقار الدین حقیقت میں قصو وار تھا تو اسے ضرور سزا دی جانی چاہئے اور سزا دینے کا کام عدالتوں کا ہے، پولیس کا نہیں ۔ اگر عدالت اسے سزائے موت بھی دیتی تو ہمیں قبول تھا لیکن پولیس نے ہمارے بچوں کے ساتھ جو کارروائی کی ہے وہ ہمیں ہرگز قبول نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صرف10 دن قبل انہوں نے ورنگل جیل میں اپنے بیٹے سے ملاقات کی تھی تب حالات انہیں معمول کے مطابق ہی محسوس ہوئے ۔وقار احمد کےو الد کے ہمراہ تمام مہلوک نوجوانوں کے ارکان خاندان کا کہنا ہے کہ تمام نوجوان گزشتہ 4 سال سے جیل میں محروف ہیں اور انہیں مقدمہ کی ہر سماعت کے لئے عدالت لایاجاتا تھا ۔ پولیس کے دعوے کے مطابق کہ انہوں نے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی تو ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ لوگ آج ہی ایسا کیوں کریں گے ۔ انہوں نے اسے پولیس کی ایک سازش قرار دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ان کے خلاف عدالت میں جتنے بھی گواہ پیش کئے وہ تمام جھوٹے تھے اور پانچوں نوجوان بہت جلد باعزت رہا ہونے والے تھے کیونکہ پولیس ان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کرسکی تھی ۔ پولیس نے اپنی نااہلی اور ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ انہوں نے حکومت تلنگانہ پر بھی سوال اٹھایا اور پوچھا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ مسلمانوں کے ہمدرد سمجھے جاتے ہیں لیکن آج جو کچھ ہوا، اس سے حقیقت آشکارا ہوگئی ہے ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جب تک سی بی آئی تحقیقات کا اعلان نہیں ہوگا تب تک نعشیں نہیں اٹھائی جائیں گی ۔ انہوں نےد عویٰ کیا کہ ایک سال قبل ہمارے بچوں کے ساتھ پولیس نے اسی طرح کی حرکت کرنے کی کوشش کی تھی۔ ورنگل اور حیدرآباد کے درمیان ایک سنسان جگہ پر گاڑی روک کر انہیں جیل کی بس سے نیچے اتر کر بھاگنے کے لئے کہا گیا لیکن وہ لوگ نہیں بھاگے ۔ جب ہمیں اس بات کا علم ہوا تو ہم نے چیف جسٹس ہائیکورٹ ، انسانی حقوق کمیشن اور نامپلی کریمنل کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تاہم اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ صرف جیل کی بس کے سیکوریٹی عملہ کو تبدیل کردیا گیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی تصویروں میں صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں اور25 تا30 سیکوریٹی جوان ، ویان میں موجود تھے ۔ اتنی سخت سیکوریٹی میں کس طرح وہ پو لیس پر حملہ کرنے اور ہتھیار چھیننے کی کوشش کرسکتے تھے ۔ یہ ایک فرضی انکاؤنٹر ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ وقار احمد کےو الد اور امجد کے بھائی کا کہنا ہے کہ ضلع نلگنڈہ کے واقعات کا ہمارے بچوں سے بدلہ لیا گیا ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے بچوں پر جیل میں دن رات تشدد کیاجاتا تھا ۔ انہیں ہر دن ڈرایاجاتا تھا کہ تم لوگوں کا انکاؤنٹر کردیاجائے گا۔ اس طرح ہمارے بچے تو خوف سے ہی ادھ مرے ہوگئے تھے ۔

It’s not an encounter, its revenge killing by Telangana police: Advocate of the deceased

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں