Delhi HC helps Muslim woman live with Hindu husband
ایک مسلم لڑکی کو ہندو شخص کے ساتھ شادی کرنے پر اس کے ارکان خاندان کی جانب سے مبینہ طور پر دھمکیاں دی جارہی تھیں لیکن دہلی ہائی کورٹ نے انہیں ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دے دی۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس اشوتوش کمار نے کہا کہ لڑکی18 سال مکمل کرچکی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے چنانچہ عدالت ان کے والدین کو حکم دیتی ہے کہ وہ ان کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کریں۔ لڑکی کے شوہر آکاش نے حبس بیجا کی درخواست داخل کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس کی بیوی کے والدین شادی کے خلاف ہیں اور اس کی شادی کسی اور سے کرسکتے ہیں ۔ بنچ نے کہا کہ ہم نے لڑکی سے بات کی ہے ۔ وہ آگاش کے ساتھ رہنے کو تیار ہے ۔ یہ معاملہ دسمبر میں عدالت میں زیر دوراں آیا تھا تب لڑکی نے اگرچہ اکاش کے ساتھ اپنی مرضی سے جانے کا اقرار کیا لیکن کہا کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں طے نہیں کرپائی ہے ۔ چنانچہ وہ والدین کے ساتھ رہے گی اور آئندہ تین برسوں تک شادی شدہ زندگی نہیں گزارنا چاہتی ۔ اس پر عدالت نے اسے والدین کے ساتھ بھیج دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ لڑکی کی شادی دوسری جگہ نہ کریں ۔ آکاش نے جنوری میں ایک درخواست داخل کرتے ہوئے الزام لگایا کہ لڑکی نے فون پر اسے اطلاع دی کہ اسے میرٹھ میں رکھا گیا ہے اور اس کی شادی کسی اور شخص کے ساتھ کی جانے والی ہے ۔ عدالت نے تب پولیس کو لڑکی کا اتہ پتہ معلوم کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن جب پولیس اس کا پتہ معلوم نہ کرسکی تو بنچ نے لڑکی اور والدین کو سمن جاری کیا۔




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں