عصمت چغتائی فکر و فن پر کولکاتا میں دو روزہ قومی سمینار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-29

عصمت چغتائی فکر و فن پر کولکاتا میں دو روزہ قومی سمینار

national-seminar-Kolkata-on-ismat-chughtai
عصمت چغتائی ترقی پسند افسانہ نگار نہیں تھیں بلکہ ترقی پسندوں نے انہیں اپنایا تھا یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ وہ خاتون پیدائشی طور پر تقی پسند ذہنیت کی مالک تھی ہمیشہ انہوں نے عورتوں کے بارے میں کہا ۔ آل انڈیا قومی ایکتا منچ کی جانب سے ’عصمت چغتائی فکرو فن‘ کے عنوان سے دو روازہ قومی سمینار قومی کونسل برائے فروغ اردو کے اشتراک سے بھارتیہ بھاشا پریشد میں منعقدہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی اور عصمت چغتائی کے ہمعصر پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے مقالہ میں مذکورہ باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ عصمت آپا کی زندگی باغیانہ زندگی تھی، وہ جو ارادہ کرلیتی تھی اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتی تھیں ۔ علی گڑھ جاکر پڑھنے کے مصمم ارادہ کو لاکھ مخالفت کے بعد بھی پورا کیا۔ ’عصمت چغتائی ایک کامیاب افسانہ نکگار تھیں۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا کردار کوئی معمولی نہیں تھا۔ کردار کو سمجھنے اور ان کے مکالموں کو لکھنے کے لئے انہیں اس کردار میں اترنا پڑتا تھا ۔ ’عصمت چغتائی ترقی پسند نہیں تھی شارب ردولوی کے کہنے کے بعد جو وقفہ تھا اس میں کولکاتا کے ادیبوں میں چے می گوئیاں شروع ہوگئی ۔ لیکن انہوں نے مقالہ پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کہا کہ وہ ترقی پسند نہیں تھی بلکہ ترقی پسندوں نے انہیں اپنایا تھا اور وہ خاتون ترقی پسند پیدا ہوئی تھی ۔ ہمیشہ انہوں نے عورتوں کے بارے میں کہا کہ عورت مرد کی غلامی کیوں کرتی ہیں کیونکہ وہ اقتصادی طور پر غلام ہیں جب عورتیں تعلیم حاصل کرلیں تو یقیناًمرد کے دست نگیں سے آزاد ہوں گی۔ شارب ردولوی نے مزید کہا کہ ’عصمت چغتائی جیسی بیدار ذہین اور بے ساختہ کہنے والی عورت کو نہیں دیکھا۔ خاتون قلمکار ، خواتین کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوئی ہے لیکن ’عصمت چغتائی ایک ایسی قلمار تھی جو اپنے افسانوں میں مرد کے کردار کی نفسیات کو بھی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر رکھتی تھیں۔ انہوں نے افسانوں کے ساتھ ساتھ ناول بھی لکھے ان کا آخری ناول ایک قطرہ خون دنیا کے قدیم ادب میں تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس ناول میں عصمت آپا نے واقعہ کربلا کو بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ۔ اس ناول کو لکھنے میں عصمت آپاکا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے میر ببر علی انیس کے مرثیہ کو ناول کی شکل دے کر ایک بڑا کام کیا ہے۔ اس ناول کے کردار متعین ہیں۔ ایک قطرہ خون، ’عصمت چغتائی کا آخری اور تاریخی ناول تھا۔ عصمت آپا نے چوتھی کا جوڑا، میں مسائل اور جذبات کو بڑی ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔ دو ہاتھ، ان کا مشہور کہانی ہے جس میں افسانہ نگار ’عصمت چغتائی نے معاشی طور پر کہانی کو اس نتیجہ تک پہنچایا اور کہانی کا اختتام کردار رام اوتار کے اس جملہ پر ہوتا ہے ۔ دو ہاتھ لگائے گا تو میرا بڑھاپا سدھر جائے گا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے فلموں کی بھی کہانیاں لکھی۔فلم جنون میں ڈائیلاگ اور اداکاری ، دستاویزی فلم مائی ڈریمس جو1975میں بنی اس میں ہدایت کار ، گرم ہوا، چھیڑ چھاڑ ، شکایت صدی، سونے کی چڑیا، دروازہ جیسی فلموں کی کہانیاں لکھی ۔ جو اب آئے گا1968کی ہدایت کار اور فریب1953میں لکھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمینار نہ صرف اس سال کا پہلا سمینار ہے بلکہ ’عصمت چغتائی کے پیدائش کا100برس مکمل ہونے والا ہے جس کے لئے ہم قومی ایکتا منچ کے مشکور ہیں کہ انہوں نے سمینار میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔
سمینار کا افتتاح سید محمد اشرف(چیف انکم ٹیکس افسر) نے کی۔ اس موقع پر سری نگر سے پروفیسر محمد زماں آزردہ، لکھنو سے پروفیسر شارب ردولوی ، دہلی سے پروفیسر خالد اشرف، میرٹھ سے پروفیسر اسلم جمشید پوری ، دہلی سے پروفیسر محمد کاظم اور ڈاکٹر نعمان خان جیسے اسکالروں نے شرکت کی ۔ قومی ایکتا منچ کے جنرل سیکریٹری آفتاب احمد خان اور کوآرڈینیٹر نصرت جہاں پیش پیش رہی۔ آئندہ کل مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے مولانا آزاد آڈیٹوریم میں ’عصمت چغتائی فکروفن پر سمینار میں مقالے3حصوں پر مشتمل ہوں گے ۔ یاد رہے کہ15اگست1915کو بدایوں یوپی میں ’عصمت چغتائی نے آنکھیں کھولی ۔ 1941میں شہید لطیف سے شادی کی جنہوں نے1948میں فلم ضدی اور1950میں فلم آرزو بنایا۔ دونوں نے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا ’عصمت چغتائی کی2بیٹیاں ہیں ۔ شہید لطیف کا انتقال1967میں ہوااور عصمت چغتائی کا انتقال24اکتوبر1991ء کو ممبئی میں ہوا ۔ 1974میں اردو ڈرامہ ٹیڑھی لکیر کے لئے غالب ایوارڈ سے 1975میں فلم گرم ہوا ، کے لئے بیسٹ اسٹوری کا ایوارڈ سے راجستھان اردو اکاڈمی نے1990میں اقبال ایوارڈ سے اور1982میں سویت یونین نہرو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔

two-day national seminar in Kolkata on ismat chughtai

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں