کل شام ڈھلے یہ خودنوشت طباعت کے بعد راقم کی قیام گاہ پر پہنچی۔ سید معراج جامی صاحب شہر کراچی کے مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوتے، ہڑتال اور امن و امان کی خراب صورت حال کے باوجود اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے "ہوا کے دوش" ہی پر ہمارے پاس پہنچے۔یہ ڈاکٹر فیروز عالم کی خودنوشت ہے۔ایک ایسے شخص کی داستان حیات جس نے اپنی زندگی میں کڑی محنت سے ایک اعلی ٰ مقام پایا۔ایک ایسی آپ بیتی جس کا حرف حرف ایک ایمان دار اور قابل قد ر انسان کی حیات کی غمازی کرتا ہے۔ اس خودنوشت میں آنسو بھی ہیں، قہقہے بھی، آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا سبق بھی۔ ڈاکٹر فیروز عالم کی زندگی میں آنے والی کامیابیاں ان کی والدہ مرحومہ کی دعاﺅں کا ثمر ہیں اور وہ اس پر نازاں ہیں۔ ان کا قاری بھی ان کی والدہ کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد جودھ پور سے آنے والے لٹے پٹے خاندانوں میں سے ایک خاندان سید ابن عباس صاحب کا بھی تھا ۔ یہ مصنف کے والد تھے۔ پڑاو ¿ میر پور خاص میں ڈالا ۔ جہاں آراءبیگم سے شادی ہوئی اور یوں ان دو سیدھے سادے اور اللہ پر بھروسہ رکھنے والے انسانوں نے زندگی کا آغاز کیا۔ زندگی جو اس دور میں کڑی محنت کی متقاضی تھی۔ آج کے دور کی آسائشوں کا ایک عام آدمی تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ لقمہ حلا ل خود بھی کھایا اور اپنے بچوں کو بھی کھلایا۔ اللہ تعالی نے اس کے صلے میں اولاد بھی ویسی ہی عطا کی، فرمانبردار ، تابعداراور ماں باپ کے سامنے اف تک نہ کرنے والی، ان کا ہاتھ بٹانے والی۔بڑے بیٹے نے تو دیگر اہل خانہ کے مستقبل کی خاطر اپنا مستقبل داو پر لگا دیا۔
سب سے پہلے سب سے اچھی اور طمانیت بخش بات۔ اور وہ یہ کہ 472 صفحات پر مشتمل اس خودنوشت کی قیمیت صرف اورف 300 روپے ہے۔ ویلکم بک پورٹ اور فضلی سنز پر کتاب آج صبح پہنچا دی گئی ہے جہاں سے اسے مناسب رعایت کے بعد حآصل کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر فیروز عالم ہمارے کرم فرما ہیں، بنیادی تعلق جودھ پور سے، تقسیم کے بعد میر پور خاص میں پڑاؤ، طب کی تعلیم کراچی میں، اور گزشتہ کئی عشروں سے امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ جہاں آپ ایک نامور ماہر امراض گردہ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
ذیل میں کتاب میں شامل راقم الحروف کا تعارفی مضمون پیش خدمت ہے۔
راقم کی کوشش ہے کہ اس خودنوشت کے چند نسخے ہندوستان میں کھام گاؤں مہاراشٹر میں قیام پذیر برادرم محمد انیس الدین کے پاس پہنچا دیے جائیں اور ساتھ ہی ادارہ شب خون الہ آباد بھی بھیج دیے جائیں۔
- راشد اشرف ، کراچی سے۔
ڈاکٹر فیروز عالم کی اس خود نوشت میں ہمیں جا بجا ایسے لوگوں کے تذکرے ملتے ہیں جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ان کا ہاتھ تھاما۔ شہر کراچی میںزندگی کے کارزار میں سخت جدوجہد کے دوران مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگوں اور عزیز اقارب کو وہ نہیں بھولے اور ان سبھوں کا ذکر انہوں نے اپنی خودنوشت میں نہ صرف محبت سے کیا ہے بلکہ ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو بھی رہے ہیں۔ ان میں فخرالدین خاں،فرخی خالہ، منظر بھائی جان، لانڈری کے مالک کے ضعیف والد اور ڈاکٹر محسن احمد جیسے پرخلوص لوگ شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بے مثال تعاون نے مصنف کو اس بے رحم معاشرے میں جینے کا حوصلہ میسر آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا دم غنیمت ہوتا ہے اور انہی کی وجہ سے ہمیں ڈھارس ملتی ہے اور بڑے
بوڑھوں کی وہ کہاوت سچ ہوتی نظر آتی ہے کہ یہ دنیا چند نیک انسانوں کی وجہ ہی سے قائم ہے۔
زیر نظر خودنوشت حالات و واقعات کا ایک بہتا دریا ہے۔ میر پور خاص سے امریکا تک کے سفر کی دلچسپ روداد ہے۔ راجستھان اور میر پور خاص کے قصے ہیں ، وہاں کی تہذیب کی ایک روشن جھلک ہے۔ طب کے شعبے سے وابستگی کے دوران پیش آنے والے یادگارواقعات ہیں ۔اس خودنوشت میں آگے بڑھنے اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم ہے۔ عزیز و اقارب کا دلچسپ احوال ہے اور کہیں کہیں یہ احوال پڑھنے والے کو اداس بھی کردیتا ہے۔ خاص کر مصنف کے فضل ماموں کے ساتھ پیش آنے والے الم ناک واقعے اور ان کی زندگی کے آخری لمحات کی منظر کشی کو پڑھ کر دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی داستان حیات ہے جس کو پڑھ کر یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کی نیت صاف ہو تو اللہ تعالی بھی قدم قدم پر مدد کرتے ہیں، اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتے۔اسکول کے زمانے کے قصے، پہلی نوکری، پہلا عشق، امریکا میں دوران ملازمت پیش آنے والے واقعات ، غرضیکہ اس کتاب کے تمام ہی ابواب دلچسپ ہیں۔
'ہوا کے دوش پر' کو راقم نے حرف بحرف پڑھا ہے۔ شاید یہ اردو ادب کے ان جغادریوں کی وضع کردہ خودنوشت کی تعریف پر پورا نہ اترتی ہو مگر یہ کتاب ڈاکٹر سید عبداللہ کی آپ بیتی کے بارے میں اس رائے پر یقینا پورا اترتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ' آپ بیتی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوال زندگی پر مشتمل ہو'۔
راقم الحروف کو ڈاکٹر فیروز عالم سے ملاقات کاشرف حاصل ہے۔ان سے مستقل رابطہ رہتا ہے۔ میں نے انہیں ایک انتہائی نفیس انسان پایا ہے۔ ان کی منکسرالمزاجی ان کا وصفِ خاص ہے۔ یہ وصف خدا کی دین بھی ہے او ر ان کے والدین کی تربیت کا نتیجہ بھی۔ اپنی عملی زندگی میں ڈاکٹر فیروز عالم کو جس کڑی جدوجہد کا سامنا رہا،اس آزمائش سے کندن بن کر نکلے ۔ وہ اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولے جنہوں نے کڑے حالات میں ان کا ہاتھ تھاما تھا بلکہ یوں کہیے کہ انہوں نے اپنے ان محسنوں کی روایت کو آگے بڑھایا ہے اور اپنی زندگی میں اس قابل ہوئے کہ لوگوں کی دل کھول کر اس طور مدد کرسکیں کہ مبادا کوئی دوسرا 'فیروز عالم' ڈاکٹر بننے سے نہ رہ جائے۔
آئیے 'ہوا کے دوش پر' کا مطالعہ کرتے ہیں۔ایک ایسی خودنوشت کا جو ہمیں مصائب کے سامنے ثابت قدمی اور پامردی سے کھڑے رہنے کا سبق دیتی ہے۔
سائنس دماغ کی دنیا ہے اور ادب دل کی۔ دل اور دماغ کا سنگم جب ہوتا ہے تو کمال ہوتا ہے اور اگر دل و دماغ دو مختلف سمتوں میں چلتے چلتے مختلف فیلڈ [] میں اپنی شناخت قائم کریں تو وہ قابل تحسین ، قابل پذیرائی اور قابل ستائش کے مقام کو حاصل کر لیتا ہے۔ ڈاکٹر فیروز عالم نے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔
"ہوا کے دوش پر" ایک عام آدمی کی خاص داستان حیات ہے۔ انہوں نے میرپور خاص (پاکستان) سے کیلی فورنیا (امریکا) تک کے سفر کو بہت خوبصورتی ، سچائی ، ایمانداری اور دلچسپی سے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں جکڑے رکھتا ہے۔ ان کا یہ سفر آسان نہیں تھا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
خودنوشت میں ڈاکٹر فیروز عالم کی شخصیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ نہ تو زندگی میں پیش آئی دشواریوں ، لاچاریوں ، مجبوریوں کا بیان کرتے جھجھکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے محسنوں کو فراموش کر پائے ہیں جن کی مدد کے باعث ان کی دشواریاں آسان ہو گئیں۔
خوشبوؤں اور تتلیوں سے محبت کرنے والا نوجوان جو انتہائی جمال پرست ، نفاست پسند تھا جسے شوق تو میر کا کلام پڑھنے کا تھا ، اس نے اپنے شوق کو بھاری من سے پیچھے سمیٹ کر اناٹومی کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اپنی منزل حاصل کرنے کے بعد پھر سے اپنے ادھورے خوابوں کی اور رجوع کیا اور سائنس داں کے ساتھ ساتھ ادب ساز بھی بن گئے۔ خودنوشت دلچسپ تو ہے ہی ساتھ ہی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کے واقعات اس صداقت اور معصومیت سے بیان کیے ہیں کہ دل کو چھو جاتے ہیں۔
"میں نے میڈیکل کالج کی زیادہ تر پڑھائی مانگے کی کتابوں سے پڑھی"۔
جس مقام پر وہ ہیں اس بلندی سے اس حقیقت کا خودنوشت میں بیان کرنا جرات کی بات ہے اور ماں کی دعاؤں کا اعتراف کرنا ان کی شخصیت کی نئی پرتیں کھولتی ہے۔ وہ ایک قابل ڈاکٹر ہیں۔ ایک حساس ، درد مند انسان ہیں جس کا اندازہ ان کے افسانوں اور خودنوشت کو پڑھ کر بخوبی ہو جاتا ہے۔ سائنس داں اور ادب ساز یعنی دو مختلف خوبیوں کے مالک ڈاکٹر فیروز عالم کو میرا سلام۔
"ہوا کے دوش پر" کسی ناول سے کم دلچسپ نہیں۔ اسے پڑھیے اور بھرپور لطف اٹھائیے۔
ڈاکٹر رینو بہل
ایم۔اے ، پی ایچ ڈی (اردو)
چندی گڑھ (انڈیا)
صفحہ نمبر | عنوان | صفحہ نمبر | عنوان |
---|---|---|---|
16 | پیش لفظ | 268 | نیا ماحول نئے دوست |
19 | ایک صابر و شاکر انسان کی خود نوشت - سید معراج جامی | 269 | میری مشکلات اور ایک جذباتی قدم |
22 | ہوا کے دوش پر - راشد اشرف | 271 | ایک بےنام اندرونی ویرانی |
25 | ایک خاص آدمی کی داستان حیات - نوید سروش | 272 | پڑھائی میں ناکامی |
32 | کتاب زندگی | 274 | ایک خوشگوار شام |
38 | ابتدا | 275 | دوسرا سال |
42 | میری نانی 'بوا' | 275 | گرمیوں کی چھٹیاں |
44 | بڑی خالہ بی | 276 | میری بہن ، میری کزن اور میری دوست غزالہ |
45 | میرپور خاص سے ہمارا تعلق | 278 | واپسی |
47 | شادی | 278 | نجمہ شیخ کی میرے گھر آمد |
51 | کارڈ | 280 | دوسرا سال |
52 | سسرال سے علیحدگی | 283 | مینڈکوں پر ظلم |
55 | ریلوے میں تقرر | 284 | فارماکولوجی |
56 | سلطانہ آپا میری بڑی بہن | 285 | پریکٹکل |
58 | سید ذوالفقار حسین | 286 | سال کے آخیر کی پارٹی |
63 | فضل ماموں -- ایک دردناک المیہ | 286 | تیسرا سال |
69 | زیور کی چوری | 287 | پروفیسر صالح میمن |
70 | بچوں کی پیدائش | 288 | طب قانونی |
71 | بچوں کی تعلیم | 289 | پہلا پوسٹ مارٹم |
71 | ابا کی علالت | 290 | باقی مضامین |
73 | میری پیدائش | 290 | تیراکی کے مقابلے |
74 | جودھپور | 291 | پکنک |
80 | ماؤنٹ آبو | 292 | رشید ڈوبتے ڈوبتے بچا |
84 | نازک بانہیں مضبوط پتوار | 293 | پبلک ہیلتھ اور پاگل خانے کا ٹور |
88 | ٹی نائین اے | 294 | ریڈیو پاکستان |
91 | (پاکستان میں پہلا گھر) | 295 | کالج میگزین |
95 | ریلوے کالونی | 296 | الوداعی پارٹی |
95 | سالگرہ اور اسٹیج ڈرامہ | 297 | ریحانہ آپا |
96 | سالگرہ | 299 | میڈیکل کالج کا چوتھا سال |
98 | ایک یادگار ڈرامہ | 300 | کالج میں ہنگامے و ہڑتال |
99 | پہلی مشکل | 301 | ہفتۂ طلبہ |
102 | ایک جاں گداز آزمائش | 302 | چو این لائی اور بھٹو |
105 | دار النسواں اور ریلوے اسکول | 302 | چوتھے سال کے مضامین |
106 | لڑکیوں کے اسکول میں میرا داخلہ | 303 | امراض خواتین اور زچگی |
108 | ریلوے پرائمری اسکول | 305 | زچاؤں کی صحت |
109 | پڑھائی میں ناکامی | 306 | وارڈ کی نرسیں اور حسنہ |
111 | ہیڈ ماسٹر سے غضبناک پٹائی | 307 | کالج کا میگزین |
113 | گھر کا ماحول | 307 | میرپور خاص -- اف میرا پیارا میرپور خاص |
116 | مشاعرے | 308 | میرپور خاص کے لڑکوں کا گروپ فوٹو |
120 | سلطان بھائی جان کا میٹرک اور کالج کے داخلے میں ناکامی | 309 | فائنل ایئر |
121 | سلطان بھائی جان کا ایثار | 310 | پرکیف محفلیں |
122 | شاہ عبداللطیف کالج اور پرتاب بھون | 311 | ایک بھیگی رات |
124 | ڈرامہ | 312 | فائنل امتحان |
125 | گلوکار مسعود رانا | 313 | ایک غلطی جس کا آج بھی قلق ہے |
126 | شادیاں | 314 | بقایا مضامین کا امتحان |
129 | چوتھی جماعت میں فیل ہو گیا | 315 | سنگین حادثہ |
132 | گورنمنٹ ہائی اسکول میرپور خاص | 317 | کیا رشید مر گیا؟ |
140 | یوم جمہوریہ پاکستان | 319 | الوداع الوداع |
147 | نئی ابتدا | 321 | میرا مستقبل ، ایک سوال ؟ |
148 | میرا پیدائشی خوف | 326 | فائنل امتحان کا نتیجہ |
149 | مرزا اشفاق بیگ | 328 | نتیجہ کا دن |
152 | ماسٹر چودھری بشیر | 332 | حسن پھوپھی کا بنگلہ |
153 | ایک تھپڑ | 333 | بزرگوں سے ملاقات |
155 | نئی بلڈنگ | 334 | میرپور خاص واپسی |
156 | میرا جرات مندانہ قدم یا حماقت | 334 | شاہ عبداللطیف کالج میں حاضری |
159 | پھولوں کی چوری | 336 | پاکستان میڈیکل کاؤنسل |
160 | ایک سیاح | 337 | کراچی کی کلینکس میں نوکری کی تلاش |
162 | میرے لکھنے کی ابتدا | 340 | ایک ناخوشگوار تجربہ اور اذیت |
164 | موسیقی | 341 | مستقبل کا تصور اور بےچینی |
165 | تقریریں اور مباحثے | 342 | سیونتھ ڈے ہسپتال |
166 | تصویر کشی کا شوق اور اسکالرشپ | 342 | ہولی فیملی ہسپتال |
167 | کیڈٹ کالج میر پور خاص / پٹارو | 343 | سیونتھ ڈے ہسپتال اور ڈاکٹر چیپ مین |
169 | شرارتیں | 349 | کراچی میں رہائش کا مسئلہ |
172 | اسکول کے دیگر اساتذہ | 352 | خالہ جان کی عبرت انگیز کہانی |
173 | چودھری بشیر سے علیحدگی | 358 | میری پیشہ وارانہ زندگی کا پہلا دن |
174 | فش پونڈ میں پکنک | 367 | مضحکہ خیز غلطیاں |
175 | متفرقات | 373 | ناظم آباد بڑا میدان |
177 | سلطانہ آپا کی شادی | 375 | سیونتھ ڈے کا اسٹاف |
178 | خمیازہ خمیازہ -- مشکل ترین دور | 379 | ایک نئے مہمان کی آمد |
180 | تین مشکل ترین ماہ | 382 | خالہ جان کے گھر کو الوداع |
181 | فرشتہ اور غیبی امداد | 384 | ذوالفقار بھائی جان کے یہاں رہائش |
183 | لائبریریاں | 386 | پچیسی |
184 | میری منہ بولی بھابی | 387 | ایک مضحکہ خیز اور شرمندگی کا لمحہ |
188 | دنیا کی سیاحت کا شوق | 388 | نیند کی کمی |
192 | ایک اور تھپڑ (مگر پیار کا) | 389 | رشید غوری کی آمد |
194 | جن بھوت یا نمونیا | 392 | مختلف پروسیجرز کا تجربہ |
196 | ڈاکٹر ڈراگو اور دیگر ڈاکٹر صاحبان | 393 | رشید کا کنبہ اور ان کی محبت |
199 | محرم | 394 | ہوٹلنگ |
200 | ہائی اسکول کے آخری سال | 394 | ہمارے ڈاکٹر دوست اور ان کے حال احوال |
200 | میری بےراہ روی | 396 | رنگین دامن مہکتے آنچل |
203 | میٹرک کا نتیجہ | 398 | مسز ڈیوڈ کی بیٹی للین |
206 | میرپور خاص واپسی اور مستقبل | 399 | ڈاکٹر ناظم خواجہ |
207 | شاہ عبداللطیف گورنمنٹ کالج | 403 | ایک حیرت انگیز مریض |
209 | ایک نئے کنبے سے ملاقات | 405 | ایک ایسا ہی واقعہ امریکہ میں |
211 | کالج کا محل و قوع | 405 | ڈاکٹر ناظر کی کار |
212 | نجمہ شیخ | 407 | ای سی جی پڑھنے کی خواہش |
215 | کالج کے دیگر اساتذہ | 408 | میری کامیابی میں ڈاکٹر ناظر کا کردار |
217 | میگزین کی ایڈیٹری | 409 | قاسم رضوی اور آصف اقبال |
219 | گلاب خان تاج | 410 | ڈاکٹر خالدہ فاروق اور ڈاکٹر محسن احمد |
220 | کیمسٹری لیب اور نقاب پوش | 415 | ایک المیہ جو میں فراموش نہیں کر سکوں گا |
221 | مستقبل کے خواب | 418 | انجوبالا |
222 | نجمہ شیخ -- ایک بار پھر | 424 | ٹال والا گھر |
224 | خوشگوار تبدیلی | 424 | تھوڑی سی مالی فارغ البالی |
225 | دل میں اک اجنبی احساس کی خوشبو جاگی | 425 | ڈرامائی تبدیلی |
229 | دوسرا سال | 430 | ایک اور فرشتہ |
229 | دیواری مجلہ 'فانوس' | 431 | ایک نیا چھوٹا سا آشیانہ |
230 | موسیقی کا مقابلہ | 432 | نیا دور |
231 | اہالیان کوفہ کی مثال | 433 | میری علالت و عیادت |
232 | ایک اور دلچسپ واقعہ اور پھر ایک سبق | 434 | منظر بھائی جان کی مدد |
234 | انٹر سائنس کا سالانہ امتحان | 436 | ایک انتہائی پیارا دور |
235 | 1963 زندگی کا اہم ترین اور یادگار سال | 438 | ڈھلتی بڑھتی دھوپ |
236 | امتحان کے بعد -- | 441 | امریکی اور انگلینڈ کا نظام تعلیم |
238 | امتحان کا نتیجہ | 444 | سنگین حادثہ |
239 | میڈیکل کالج میں داخلہ | 449 | بچے نے بندا نگل لیا |
243 | لیاقت میڈیکل کالج | 451 | قتل کا پہلا کیس |
246 | انٹرویو | 454 | ہوا کے دوش پر |
249 | کیا دنیا میں فرشتے بھی ہوتے ہیں | 461 | امریکا میں ٹریننگ کی تلاش |
254 | میرے بھائی جان کی شادی | 462 | امریکا کی تیاری |
257 | میڈیکل کالج کے لیے روانگی | 463 | امریکا کا ویزا |
261 | چندرنوتانی | 464 | کامیابی کی خوشی میں میری دعوت |
263 | میڈیکل کالج میں پہلا دن | 465 | ایک غیرمتوقع مشکل |
265 | مردہ خانہ | 467 | ڈاکٹر محسن احمد -- ایک حقیقی محسن |
265 | ہمارا ڈسکشن ہال | 469 | روانگی ، الوداع پاکستان |
267 | کتابیں | 471 | قارئین کرام |
راشد اشرف |
A Review on Autobiography "Hawa ke dosh par" by Dr. Fairoz Alam. Reviewer: Rashid Ashraf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں